اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
بھارت اور اسرائیل کے درمیان ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے مسلم دشمنی، دونوں ہی اسلام اورمسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے فاشسٹ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جبکہ بھارت میں آر ایس ایس کے پرچارک نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے ان کی دوستی بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ مسلمانوں کے قاتل اعظم نریندر مودی نے گجرات کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران ہی تل ابیب کا دورہ کیا تھا۔ اسرائیل نے اگر پورے فلسطین کو جیل بنا رکھا ہے تو ادھر مودی نے بھی مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ گیارہ ماہ سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ سات لاکھ افواج جب کشمیریوں کا جذبۂ حریت دبانے میں کم پڑ گئیں تو مزید فوجی دستے بھی تعینات کرکے مظلوم وادی کے چپہ چپہ پر فوجی پہرہ بٹھا دیا گیا۔ کشمیریوں کے انسانی حقوق سلب کرتے ہوئے ان پر متعدد قدغنیں لگا رکھی ہیں جس طرح فلسطین کی سرزمین سے مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کے خاتمے کیلئے یہودی بستیاں آباد کی جا رہی ہیں اور ''سنچری ڈیل‘‘ جسے ''ڈیل آف ڈیتھ‘‘ کہا جائے تو درست ہوگا، کے تحت غرب اردن و غزہ سمیت مزید فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کے مذموم منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے خصوصی درجے کے ضامن آرٹیکلز 35-A اور 370 کو ختم کر کے اسے بھی ہڑپ لیا گیا اور اب یہاں کی مسلم آباد ی کا اکثریتی تناسب تبدیل کرنے کیلئے غیر کشمیریوں، ہندوؤں کو بسانے کیلئے دھڑا دھڑ رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔ بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرکے وہاں ہندوئوں کو لاکر بسانا ہے تاکہ ریاست کا اسلامی تشخص ختم کیا جا سکے۔ جب مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اقلیت میں آجائیں گے تو بھارت استصواب رائے پر بھی راضی ہو جائے گا کیونکہ اس وقت کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ اس سلسلے میں سرمایہ کاری کے نام پر ایک گلوبل کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس کے ذریعے خاص طور پر وادی میں فلم انڈسٹری، سیاحت، زراعت، باغبانی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، متبادل توانائی اور دیگر صنعتوں کے لیے کشمیری مسلمانوں کی زمین غیر مقامی ہندو سرمایہ داروں اور انتہا پسندوں کو ایک روپیہ فی کنال کے حساب سے بیچی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے 18شہروں میں 16 ہزار ایکڑ اراضی پر پہلے ہی قبضہ کیا جا چکا ہے۔ دارالحکومت سرینگر کی 20ہزار کنال اراضی بھی غیر مقامی ہندو سرمایہ کاروں کو دینے کی پلاننگ کی گئی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کے ریاستی قانون بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سمیت شملہ اور لاہور معاہدے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہی جبکہ حالات و واقعات اشارہ دے رہے ہیں کہ گجرات کا قصائی اب ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی نسل کشی کی سازش تیار کر چکا ہے۔ اپنے ہندوتوا کے خواب کو عملی جامہ پہنانے اور کشمیریوں کو ہراساں کرنے کیلئے گھروں میں گھس کر مارنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، ان مذموم سرگرمیوں میں بھارت کو اسرائیلی اشیرباد حاصل ہے۔ نہتے، بے گناہ کشمیریوں پر بے دریغ اسرائیلی ساختہ مہلک اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے جس کی بدترین مثال پیلٹ گن ہے جس کے سبب سینکڑوں نوجوانوں کی بینائی ضائع ہو چکی ہیں۔ کیمیائی ہتھیار بھی اسرائیل سے درآمد کئے گئے ہیں بلکہ بھارتی فوجیوں کو کشمیریوں کی فلسطینیوں کی طرز پر نسل کشی کیلئے اسرائیل ٹریننگ پر بھیجا جاتا ہے۔ اسرائیلی کمانڈوز کی ایک بڑی تعداد سیاحوں کے روپ میں سرینگر میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کرفیو کے دوران سیاحت پر تو پابندی عائد ہے ایسے میں غیر ملکی باشندوں کی موجودگی کسی بڑے خطرے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی کی مدد سے کشمیر میں فلسطین کا تجربہ دہرایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ جب بھارت طاقت اور درندگی سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے میں ناکام ہو گیا تو اب آخری آپشن کے طور پر آبادی کا تناسب بگاڑا جا رہا ہے۔ بھارت اور غاصب اسرائیل کے تعلقات بہت دیرینہ ہیں، 1947ء میں اگرچہ بھارت نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا تھا جو بعد میں اس کی منافقت کے طور پر سامنے آیا کیونکہ 1949ء میں بھارت نے خود اپنے ہی فیصلے کے خلاف اسرائیل کی حمایت میں ووٹ دیدیا۔ سنگھ پریوار شروع سے ہی اسرائیل کا حامی تھا اور آخرکار 1950ء میں بھارت نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ۔ 73 سالوں میں فلسطین کا تنازع مسئلہ کشمیر سے بھی زیادہ بار پیش کیا جا چکا ہے۔ سینکڑوں قراردایں اسرائیلی یہودیوں کے خلاف منظور ہو چکی ہیں لیکن امریکہ و مغربی ممالک کی دہری پالیسیوں کی وجہ سے آج تک ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اسرائیل ایک ناجائز اور جبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی اراضی ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں جبکہ بھارت جبری طور پر فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اور جارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کیلئے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔
تاریخ پر نظردوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ 1897ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں یہودیوں نے ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے انعقاد میں تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) کا بڑا کردار تھا۔ اس کانفرنس میں یہودیوں نے فلسطین کو ''اپنا وطن‘‘ بنانے کی قرارداد منظور کی تھی۔ ہرزل نے ''یہودی مملکت‘‘ نامی اپنی کتاب میں صہیونی ریاست کا نقشہ بھی شامل کیا ہے اور اس کے مطابق ناجائز مملکت کی حدود میں سارا فلسطین، پورا اردن، تمام شام و لبنان، عراق اور کویت کے بیشتر علاقے اور سعودی عرب کا بھی بڑا حصہ شامل کیا گیا ہے، اور پھر یہ حدود مدینہ منورہ تک وسیع کر دی جائے گی۔ مصر سے صحرائے سینا، قاہرہ اور سکندریہ اسرائیل کا حصہ ہوں گے۔اور یہ عبارت''اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے فرات سے دریائے نیل تک ہیں‘‘ اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر بھی کندہ ہے، جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔صہیونیوں نے ایک تحریک شروع کی جس کے تحت دنیا کے مختلف حصوں سے یہودی ہجرت کر کے فلسطین میں آن بسے تھے اور یہاں فلسطینیوں کی زمینوں اور ان کے گھروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ تھیوڈور ہرزل کی صہیونی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ فلسطین پر دوبارہ قبضہ کیا جائے تاکہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جا سکے۔ اگر بھارت و اسرائیل آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے کھیل میں کامیاب ہوگئے تو یہ کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ برمی مسلمانوں کی طرح در بدری اورٹھوکریں ان کا مقدر ہوں گی اور انہیں اپنے لئے کوئی نیا مقام اور ٹھکانہ تلاش کرنا ہوگا۔ افسوس اقوام متحدہ نے بھی چپ سادھ رکھی ہے، عالمی طاقتیں بھی خاموش ہیں، حقوق انسانی کے علمبردار خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں بلکہ انہوں نے دشمنانِ اسلام کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ ان کمزور و لاچار مسلم اقوام کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح چن چن کر ماریں اور یہ سب یورپ میں سڑک پر ایک لاوارث بھوکے، پیاسے کتے کے مرنے پر واویلا مچانے والوں کی ناک تلے ہو رہا ہے۔ انہیں جانور کے مارے جانے پر تو انسانیت یاد آ جاتی ہے لیکن برما، فلسطین،کشمیر میں ناحق مارے جانے والا مسلمان کیوں نظر نہیں آتا؟ اس لیے کہ مسلمانوں کا نام و نشان دنیا سے مٹانے اور انہیں نیست و نابود کرنے میں صہیونی و طاغونی طاقتیں یکجا ہوگئی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ مسلم اُمہ انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی زیر عتاب ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی) عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان، تیل کی دولت و معدنی ذخائر سے مالا مال ہیں مگر اسلامی ریاستیں انتشار، باہمی رنجشوں اور رقابتوں کا شکار نظر آتی ہیں۔ خدارا! سمجھو وگرنہ''تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔