اگر ایک سطر میں آپ نے بتانا ہو کہ ہم باقی دنیا سے پیچھے کیوں ہیں تو اس کی وجہ ہے ٹیکنالوجی سے انکار۔2001ء میں امریکی جہاز جب افغانستان پہ بمباری کرنے گئے توملّا عمر کی فوج کے پاس ایک بھی جہاز نہیں تھا ۔ امریکیوں نے افغانستان کو آسمان سے تباہی نازل کرنے والی مشینوں کے ذریعے کھنڈر بنا کے رکھ دیا۔ یہ الگ بات کہ کمزور دل امریکی سپاہی زمینی جنگ کے قابل نہیں تھے‘ لیکن ٹیکنالوجی میں برتری کی وجہ سے طالبان کا اقتدار انہوں نے ختم کر دیا اور پھر اس خطے ہی کی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے حصے کی تاریخ بدل گئی۔
پہلے بھی عرض کیا‘ جب ایک ایجاد ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی دنیا بدل جاتی ہے ۔ جب انجن ایجاد ہوا تو سفر کی سائنس بدل کر رہ گئی ۔ جو لوگ ایجادات کا انکار اور مزاحمت کرتے ہیں ‘ وہ دنیا میں سب سے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ یہی آج کے مسلمانوں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ آپ کو علم ہوگا کہ جب لائوڈ سپیکر آیا تھا تو اس کی بھی مخالفت کی گئی تھی۔یہی سلوک ریل گاڑی اور پریس کے ساتھ کیا گیا۔ لوگ ریل گاڑی میں سفر سے اجتناب کرتے اور چھاپہ خانے سے کتاب شائع نہ کرواتے۔کیمرہ ایجاد ہو چکا تھا اورحکومتیں اپنے شہریوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا رہی تھیں ۔ دنیا کے مختلف ممالک غیر ملکیوں کا داخلہ شناختی دستاویزات کے ساتھ منسلک کر چکے تھے ‘ مگر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق کچھ لوگ تصویر کی مخالفت کرتے رہے ؛حتیٰ کہ کیمرے والے موبائل فون ایجاد ہو گئے ‘ حتیٰ کہ فیس بک ایجاد ہو گئی ۔ اب یہ سب لوگ تصویریں بناتے ہیں ‘ واٹس ایپ سٹیٹس پر لگی ہوئی لوگوں کی تصویریں دیکھتے ہیں اور خوشی خوشی اپنی تصویریں وہاں لگاتے ہیں ۔
ہم دنیا میں سب سے زیادہ پیچھے اس لیے ہیں کہ ایجادات کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو انجن پر بیٹھا ہوا ہے ‘ گھوڑے والا اس کا مقابلہ کیسے کر سکتاہے ۔یہ بات درست ہے کہ میرے آبائو اجداد نے ہزاروں سال خچر پہ سفر کیا ۔یہ خچر نہ پٹرول پیتا ہے اور نہ اس میں انجن آئل ڈالنا پڑتا ہے لیکن یہ خچر لینڈ کروزر کا مقابلہ کس طرح کرے ؟ جس کے پاس بمبار طیارہ ہے ‘ نیزے والا اس کا مقابلہ کیسے کر سکتاہے ؟یہی حال صحت کے شعبے کا ہے ۔ الٹرا سائونڈ‘ ایکسرے‘ ایکو‘ اینڈو سکوپی‘ ایم آر آئی ‘ بلڈ کمپلیٹ پکچر اور خون کے دوسرے ٹیسٹ ایجاد ہونے کے بعد علاج کی سائنس سو فیصد بدل چکی ہے اور سب سے بڑھ کر ویکسین کی ایجاد سے ۔ حکیم ایک ایسا شخص ہوتا تھا‘ جو اندازے سے علاج کرتا تھا۔ اس کے پاس اوپر بیان کیے گئے ٹیسٹ موجود نہیں تھے ۔ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی ‘ جس سے وہ دنیا کے باقی حصوں میں بیٹھے ہوئے حکیموں کے ساتھ رابطے میں رہے ۔ باہم مشورے سے سٹینڈرڈ ادویات تیار کی جائیں ۔ اسے تو اگر کوئی نسخہ ملتا تھا ‘ جو اس کے خیال میں قیمتی ہوتا تو وہ اپنی اولاد سے بھی اسے چھپاتا تھا ۔ آج دنیا میں کسی بھی ڈاکٹر اور ریسرچر کو کوئی راز پتہ چلتاہے تو وہ اس پر ریسرچ آرٹیکل لکھتاہے ۔سائنسدانوں کی ایک ٹیم اس کے انکشاف پر تحقیقات کرتی ہے اور اگر وہ سچا ہے تو نہ صرف اسے انعام ملتاہے بلکہ پوری دنیا میں اس کا نام گونجتا ہے ۔ جیسے نامور پاکستانی سرجن عامر نثار صاحب نے معدے اور خوراک کی نالی کی سرجری Fundoplicationمیں کچھ جدتیں کی ہیں ۔ اس کا کریڈٹ انہیں ہمیشہ ملتا رہے گا۔ساری دنیا میں وہ فائدے مند چیز رائج ہو جائے گی ۔یہی تووجہ ہے کہ مغرب اتنا آگے نکل گیا ہے ۔وہاں علم شیئر ہورہا ہے ۔ نئی ٹیکنالوجی نافذ ہے ۔
میڈیکل سائنس میں سپیشلائزیشن ہے ۔ ایک سرجن کبھی گردے کا علاج کرنے کی کوشش نہیں کرے گا ؛حالانکہ اس کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری موجود ہے ‘ جو اس نے جان جوکھوں سے حاصل کی تھی ۔ کورونا پر تحقیق کرے گا صرف وائرولوجسٹ ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب کورونا سامنے آیا تو بے شمار حکیموں اور ہومیو پیتھک والوں نے اس کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ کیا۔ دوسری طرف کسی ایلوپیتھک ڈاکٹر نے یہ دعویٰ نہیں کیا۔ وجہ ؟ اس نے اپنی برادری میں رہنا ہے ۔ وہ بے پر کی نہیں اُڑا سکتا۔ ویکسین بنانے کے لیے وقت درکار ہوتاہے ۔ جیسے ایک عمارت کی بنیاد رکھی جاتی ہے ‘ دیواریں اٹھتی ہیں اور پھر چھت ڈالی جاتی ہے ۔ چند مہینے میں علاج دریافت کرنے کا اعلان جو لوگ کر رہے تھے‘ وہ سب کے سب کذاب تھے۔ آپ دیکھیں گے کہ کورونا کی ویکسین بن جائے گی ۔کلینیکل ٹرائلز ہوتے ہیں ‘ اس کے بعد ایک نئی ویکسین استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ نئے پیداہونے والے بچوں کو چھ مہلک بیماریوں کے ساتھ کورونا کے قطرے بھی پلا دیے جائیں گے اور وہ کورونا سے اسی طرح امیون ہو جائیں گے ‘ جیسے ہم چیچک سے ہو گئے تھے ۔
دوسری طرف سپیشلائزیشن اور کلینیکل ٹرائلز کا نام و نشان تک نہیں ۔ اپنے والد کے ساتھ ایک حکیم سے ملاقات ہوئی ‘ جس کا کہنا یہ تھا کہ میں نے کورونا کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ میں آخری سٹیج پر کھڑے ہوئے کینسر کے مریض کا علاج کرلیتا ہوں ‘ مرگی کا علاج کر لیتا ہوں ۔ دل اور دماغ دونوں کا معالج ہوں ۔ کورونا کا علاج وہ پہلے ہی دریافت کر چکا تھا ۔ مزید انکشاف ہوا کہ فروزن شولڈر کا علاج بھی کر لیتاہے اور اس کے لیے بازو کی ایکسرسائز نہیں کراتا بلکہ ٹانگوں کی۔یہ اسی طرح ہے ‘ جیسے کوئی پائوں کا ناپ لے کر میری ٹوپی سی دے ۔ اب یہ کسر رہ گئی تھی کہ وہ کہہ دیتا کہ میں پریشر ککر کے ربڑ بھی تبدیل کر لیتا ہوں ۔ آخری سٹیج کے کینسر والے کے لیے فروزن شولڈر کاعلاج ایسا ہی ہے ‘ جیسے کوئی ایٹمی سائنسدان فارغ وقت میں پہلی جماعت کے بچوں کو ٹیویشن پڑھارہا ہو۔
ہم کیوں پیچھے ہیں ؟اس لیے کہ سائنس کے منکر ہیں ۔ لینڈکروزر پہ ٹٹو کو ترجیح دیتے ہیں ۔دوسرا ماورائے عقل واقعات اور کہانیاں ہیں ۔دنیا معجزات پر نہیں چلتی۔ معجزہ ہوتاہے لاکھوں میں سے ایک بندے کے ساتھ۔ یہاں یہ حساب ہے کہ ہر بندہ معجزات کا ایک پورا ٹرنک لے کر بیٹھا ہوا ہے ۔میری نانی کی چچیری بہن پیدائشی طور پر بہری تھی اور پوری دنیا سے علاج کے باوجود بہری ہی رہی‘ کسی نے پنڈ دادن خان میں ایک ہومیو پیتھ کا بتایا‘ اس کے پاس گئے تو اس نے مریضہ کی بائیں آنکھ میں چند قطرے ڈالے تو چند منٹ بعد ہی اسے سنائی دینا شروع ہو گیابلکہ وہ ساتھ والے کمروں میں ہونے والی وہ باتیں بھی سننے لگی ۔ میرے خالہ زاد بھائی کو لقوہ ہو گیا تھا‘ ساری دنیا سے علاج کرایا‘ آرام نہیں آیا‘ پھر کسی نے منڈی بہائوالدین میں ایک مطب کا بتایا۔ مریض نے اس مطب کے گرد سات چکر لگائے۔ جیسے ہی ساتواں چکر مکمل ہوا‘ نہ صرف ان کا منہ سیدھا ہو گیا بلکہ بواسیر بھی جاتی رہی ۔what nonsense?۔بھائی صاحب! لا علاج بیماری لا علاج ہوتی ہے ۔ پارکنسن کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ باکسر محمد علی نے اس کے لیے ساری دنیا کا سفر کیا تھا مگر ناکام رہے۔ اللہ معجزہ کرنا چاہے تو اس سے کیا ماوراہے‘ لیکن معجزہ ہزاروں لاکھوں میں سے ایک کے ساتھ ہوتاہے ۔ کوئی عقل کی بات کرو ۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ دن رات لاعلاج بیماریوں کا معجزانہ علاج کرنے والے لاکھوں نیم حکیم اور ہومیو پیتھ پورے پاکستان سے اکٹھے کیے جائیں تو وہ سب مل کر اپینڈ کس کا ایک سادہ سا آپریشن نہیں کر سکتے ۔ خود بھی سرجری کرانی پڑے تو بے بسی سے ایلو پیتھک سرجنز کے پاس ہی جانا پڑتاہے ۔ میرے اپنے خاندان میں بے شمار ہومو پیتھ ڈاکٹر موجود ہیں لیکن سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا۔ کھانسی ‘ نزلہ‘ زکام تک تو ٹھیک ہے ‘ کینسر ‘ برین ہیمبرج اور کسی بھی سرجری کے لیے ماڈرن میڈیسن کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں!متبادل طریقِ علاج کے حق میں جو لوگ مہم چلا رہے ہیں ‘ اگر ان میں سے بھی کسی کو دل کا دورہ یا برین ہیمبرج ہو تو اسے بھی اٹھا کر ہسپتال ہی لے جایا جائے گا۔