نجانے رات کا کون سا پہر تھا جب ہماری آنکھ لگ گئی۔ اگلے روز میں ہمیشہ کی طرح صبح سویرے جاگ گیا۔ یہ مری کی ایک سہانی من موہنی صبح تھی۔ میں نے چائے کا کپ بنایا اور ٹیرس پر آبیٹھا۔ صبح کا پہر مراقبہ (meditation) کیلئے بہترین وقت ہوتا ہے‘ جب ہر چیز خاموش ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہورہا تھا ایک عالم مراقبے میں ہے۔ میرے سامنے تاحد نظر سربلند درختوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ کیسی دلربا ہوا چل رہی تھی۔ ایسے میں چائے کے ایک گھونٹ نے تصور کو مہمیز دی اور مجھے وہ دن یاد آنے لگا جب شکیل عادل زادہ نے اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے منعقد کردہ لٹریچر فیسٹیول میں آنے کی ہامی بھری تھی‘ اور پھر وہ دن جب وہ اسلام آباد پہنچے‘اور ایئرپورٹ سے براہِ راست میرے گھر تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بتایاکہ ان کا سفر بہت اچھا گزرا ہے۔ ملازم نے آکر بتایا‘ کھانا تیار ہے لیکن رؤف کلاسرا کے بغیر محفل نامکمل تھی۔ ان دنوں وہ ایک نجی چینل پراپنا پروگرام کرتا تھا۔ پروگرام کا اختتام رات کے گیارہ بجے ہوتا۔ موبائل فون پر ہمارا مسلسل رابطہ تھا۔ اس کے پیغام مسلسل آرہے تھے۔ اب پروگرام شروع ہوگیا، اب پروگرام میں وقفہ ہے، اب پروگرام ختم ہوگیا ہے، بس سٹوڈیو سے نکل رہا ہوں، اب رستے میں ہوں۔ کچھ دیربعد گیٹ پرگھنٹی بجی اور رئوف کلاسرا اپنے مانوس قہقہوں کے ساتھ ہمارے درمیان تھا۔ میں نے شاید پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ رؤف کلاسرا اور مجھ میں انگریزی ادب کی تعلیم، دیہی پس منظراور سب رنگ کے خالق شکیل عادل زادہ سے عقیدت مشترک قدریں ہیں۔ اس روز رات کے پچھلے پہر تک ہم سب رنگ کی باتیں کرتے رہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ سب رنگ کے احیاء کی خواہش اپنی جگہ لیکن عملی طور پر ایسا ناممکن ہے۔
اگلے روز شکیل عادل زادہ کے ہمراہ ایک سیشن تھا جس میں رؤف کلاسرا اور میں نے اِن سے ان کی زندگی اور سب رنگ کے حوالے سے سوالات کرنا تھے۔ شاید اس کے بارے میں پہلے لکھ چکا ہوں‘ صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ لوگوں کی محبت دیدنی تھی۔ ہم نے سٹیج پر ایک خوب صورت شیلف بنایا تھا اور ''سب رنگ‘‘ کے پُرانے شماروں کو ایک ترتیب سے سجا دیا تھا۔ شیلف کے اندر دیدہ زیب روشنیوں کا اہتمام کیا گیا تھا‘ اور شیلف کے آگے پردہ تان دیا تھا۔ شکیل بھائی سمیت ہال میں بیٹھے کسی شخص کو علم نہیں تھاکہ پردے کے پیچھے کیا ہے۔ جب کھچاکھچ بھرے ہال میں شکیل عادل زادہ کو سٹیج پر بُلایا گیا اور ان سے شیلف کی نقاب کشائی کاکہا گیا تو سب کی نگاہیں سٹیج پر لگی تھیں جہاں شکیل عادل زادہ پردے کی ڈوری کھینچ رہے تھے۔ پردہ ہٹا تو سب نے دیکھا ''سب رنگ‘‘ کے پُرانے رسالے روشنیوں میں جگمگا رہے تھے۔ شکیل عادل زادہ کیلئے یہ خوش کُن حیرانی کا لمحہ تھا۔ شیلف کی دیدہ زیب روشنیوں کا عکس شکیل عادل زادہ کے چہرے پر دیکھا جا سکتا تھا۔ اُس دن شکیل بھائی نے ہمیشہ کی طرح خوبصورت گفتگو کی۔ ہمارے سوالات کے بعد ہال میں بیٹھے سب رنگ کے مداحوں نے دلچسپ سوالات پوچھے۔ وہ دن اور اس سے جُڑے سارے خوش رنگ منظر مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔ سامعین کے سوالات میں ایک سوال مشترک تھا ''سب رنگ‘‘ کب آرہا ہے؟ اس سوال کاجواب کسی کومعلوم نہ تھا حتیٰ کہ شکیل بھائی بھی اس بارے میں خاموش تھے۔ لوگوں کے اس سیلاب میں اس دن ایک شخص ایسا بھی تھاجو لٹریچر کارنیوال میں کتابوں کا سٹال لے کرآیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ شایداسے یقین تھاکہ آنے والے وقتوں میں اس کا سب رنگ سے کوئی رشتہ جڑنے والا ہے۔ اس نوجوان کا نام گگن شاہد تھا اوراس کے ارادے اپنے نام جیسے بلند تھے۔ اُس کو خواب کی تعبیر کیسے ملی‘ اس کااحوال آگے آئے گا۔ وہ یونیورسٹی کا ایک یادگار دن تھا جب ہر طرف بُک سٹالز تھے۔ ادب کے حوالے سے سیمینار رومز میں مختلف سیشنز ہورہے تھے۔ ان سیمینارز میں نامور ادیب، شاعر اور نقاد موجود تھے۔ مری میں لکڑی کے بنے مکان کے ٹیرس پر بیٹھے مجھے لٹریچر کارنیوال کی آرگنائزنگ ٹیم کے سب چہرے یاد آنے لگے‘ جنہوں نے دن رات محنت کرے ایک یادگار کارنیوال کا انعقاد کیا تھا اور یونیورسٹی میں ایک روشن روایت کی بنیاد رکھی تھی۔
کچھ دیر میں شکیل بھائی بھی میرے ساتھ ٹیرس میں آ بیٹھے۔ ہم کارنیوال کی باتیں کرنے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اس طرح کا لٹریچر کارنیوال ان کیلئے بھی ایک حیرت بھری مسرت کا سبب تھا۔ ٹیرس پر بیٹھے ہم سورج کی نرم کرنوں کو سربلند درختوں کی ٹہنیوں پر بکھرتے دیکھ رہے تھے۔ باتوں کا رخ شکیل بھائی کی بالی وڈ کے معروف فلمساز کمال امروہوی سے ملاقات کی طرف مڑ گیا۔ یہ وہ دن تھے جب کمال امروہوی اپنی فلم ''رضیہ سلطان‘‘ بنا رہے تھے۔ ان کااصرار تھا کہ فلم میں حبشی یاقوت کے گھوڑے کا رنگ بھی سیاہ ہونا چاہیے۔ شکیل بھائی کاکمال امروہوی سے ان کے کزن رئیس امروہوی کی وجہ سے ایک تعلقِ خاص تھا۔ ابھی ہم یہ باتیں کررہے تھے کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی‘ دوسری طرف میجرعامر تھے۔ افسوس کررہے تھے کہ شکیل بھائی کے سیشن میں نہیں آسکے اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کی کہ آج رات شکیل عادل زادہ اورمیں ان کے گھر ڈنر پر آئیں۔ اس روز مری میں یادگار وقت گزارنے کے بعد ہم راولپنڈی آگئے۔ شام کو آرام کیا اور رات میجر عامر کی دعوت پر ان کے گھر پہنچے۔ میجر عامر اسلام آباد کی ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ سیاست، ادب، مذہب، صحافت اور بین الاقوامی امور پر ان کی دسترس ہے۔ اردوادب سے انہیں خاص لگاؤ ہے۔ اس کی ایک وجہ اسلامیہ کالج پشاور میں ان کے اساتذہ احمد فراز اور محسن احسان ہیں جنہوں ان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ شکیل عادل زادہ سے یہ ان کی پہلی ملاقات تھی لیکن یوں لگتا تھا ان کے درمیان برسوں کی شناسائی ہے۔ اس رات میجر عامر کے گھر ڈنر پر صرف تین مہمان تھے۔ شکیل عادل زادہ، میں اور رؤف کلاسرا لیکن جب کھانوں کی ڈشوں پر نظر پڑی تویوں لگا جسے یہ کسی شادی کی دعوت ہے جس پرمہمانوں کی بڑی تعداد مدعو ہے۔ یہ میجرعامر کی میزبانی کا خاص انداز ہے۔ اس روز بھی ہمیں رؤف کلاسرا کا انتظار کرنا تھا جو ٹی وی پر اپنا پروگرام گیارہ بجے ختم کرکے دیر سے پہنچے تھے۔ وہ رات بھی ایک یادگار رات تھی جب ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میجرعامر خود کم بات کرتے ہیں اور دوسروں کی زیادہ سنتے ہیں۔ اسی طرح خود بہت کم کھاتے ہیں اور دوسروں کو زبردستی کھانے پر اصرار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک اساطیری کردار ہیں۔ ان کی زبانی میں نے ان محیرالعقول کارناموں کا احوال سنا ہے جن کی حساس نوعیت کی وجہ سے ان کو احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ اگلے روز شکیل بھائی سے سب رنگ کے حوالے سے پھر بات ہوئی۔ ہم دونوں میرے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے اس پراتفاق کیاکہ سب رنگ کا دوبارہ احیا تو مشکل ہے کیوں نہ اس کی کہانیوں کے انتخاب شائع کیے جائیں۔ شکیل بھائی کہنے لگے ہاں یہ تو ممکن ہے۔ ان دنوں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے معتمدِ اعلیٰ انعام الحق جاوید تھے۔ انہوں نے نیشنل بک فاؤنڈیشن سے سب رنگ کی کہانیوں کے انتخاب کی اشاعت کی پیشکش کی۔ ایک تحریری معاہدہ بھی ہوگیا جس کے مطابق سب رنگ کی منتخب کہانیوں کے انتخاب نیشنل بک فائونڈیشن نے سلسلہ وار شائع کرنا تھے۔ شکیل بھائی نے صرف منتخب کہانیوں کو نشان زد کرنا تھا اور پھر نیشنل بک فائونڈیشن میں ان کی نئے سرے سے کمپوزیشن ہونا تھی۔ اب ہم اپنے تئیں مطمئن ہوگئے کہ اگر ''سب رنگ‘‘ نہیں تو سب رنگ کی کہانیاں تو دستیاب ہوں گی جو ہمیں اس عشوہ طرازکی یاد دلاتی رہیں گی جس کی زلفِ گرہ گیر کے ہم سب اسیر تھے۔ (جاری)