پارلیمنٹ کارکن بننے کے لئے گریجویشن کی شرط عائد ہوئی اورکم ازکم تعلیمی قابلیت بی اے مقرر کی گئی تو تمام بڑے سیاسی گھرانوں کے چشم وچراغ اور بیگمات انتخاب کے اہل قرار پائے‘ عوام خوش ہوئے کہ ہماری قیادت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ سب کے پاس ڈگریاں ہیں‘ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حزبِ اقتدار و اختلاف نے ایک دوسرے کے پول کھولنا شروع کر دیے‘ درجنوں اراکینِ اسمبلی کی ڈگریاں چیلنج ہوئیں‘ جو سیاستدان تھانے و کچہری کی سیاست کے ماہر تھے‘ انہوں نے تو اپنی جعلی ڈگریوں کے باوجود حکم امتناعی حاصل کرکے پورا پنج سالہ دور انجوائے کر لیا جبکہ متعدد پارلیمنٹیرینز کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا لیکن جعلی ڈگری ثابت ہونے‘ اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی اور مقدمات کے اندراج کے باوجود کسی بھی جعلساز نے قوم سے معافی مانگنا تو بہت دور کی بات‘ شرمندگی کا اظہار بھی نہ کیا بلکہ ایک سابق وزیراعلیٰ صاحب کابیان تو آج بھی لوگوں کو یاد ہے کہ ''ڈگری‘ ڈگری ہوتی ہے‘ جعلی ہو یا اصلی‘‘۔ جس ملک میں صاحبِ اقتدار و اختیار کی نظروں میں ہی جعلی و اصلی ڈگری کا فرق کوئی معنی نہ رکھتا ہو‘ وہاں دیگر دستاویزات میں جعلسازی کا تناسب کیسے کم ہو سکتا ہے۔ جو رکنِ پارلیمنٹ یا وزیر خود جعلی ڈگری رکھتا ہوگا تو پھر وہ اپنے ماتحت اداروں یا شعبوں میں جعلی دستاویزات پر بھرتیاں کیسے روک سکتا ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ڈاکٹر وں اور پروفیسروں کی ڈگریاں بھی جعلی نکلیں‘ متعدد جعلی وکلا پکڑے گئے‘ سینکڑوں اعلیٰ ترین پوسٹوں پر براجمان حکام کی میٹرک و انٹرمیڈیٹ کی سندیں ہی جعلی ثابت ہوئیں‘ جعلی ڈرائیونگ لائسنس تو بہت سنتے تھے‘ کئی بار جان لیوا حادثات کے بعد ڈرائیونگ لائسنسوں کی پڑتال ہوئی تو پتا چلاکہ اس کاکہیں ریکارڈ ہی موجود نہیں لیکن یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھاکہ سینکڑوں قیمتی انسانی جانوں کو لے کر ہزاروں میٹر کی بلندی پر جہاز اڑانے والے کپتانوں کی ڈگریاں یا لائسنس بھی جعلی ہو سکتے ہیں۔ ہم جیسے عام پڑھے لکھے لوگ تو اب یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ اگر پائلٹوں کی ڈگریاں اور لائسنس جعلی نکل سکتے ہیں تو خدا نخواستہ ان کی نظریں بھی کمزور ہو سکتی ہیں اور پھر یہ انکشاف ہوگا کہ وہ تو کتنے عرصہ سے معاون پائلٹ کی مدد یا تجربے کی بنیاد پر ہوا کے دوش پر جہاز اڑاتے پھر رہے تھے۔
وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کپتانوں کے جعلی لائسنسوں کا انکشاف کیا تو دنیا بھر میں ایک نئی بحث چھڑ گئی‘ کسی نے کہاکہ وزیر ہوا بازی نے ملک کی بدنامی کرا دی ہے توکسی نے اسے پی آئی اے کے خلاف سازش قرار دیا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس سے قبل کسی نے یہ قدم اٹھایا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے‘ اس لئے جوکچھ ہونا تھا وہ تو ہوگیا‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ کم ازکم اب کوئی جعلساز نہیں بچنا چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے بتایا کہ 28پائلٹوں کے خلاف انکوائری مکمل ہونے پر انہیں برطرف کر دیا ہے‘ جعلی لائسنسوں والے تمام پائلٹس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھرتی کئے گئے۔ جعلی پائلٹوں کے معاملہ پر پی آئی اے اور سول ایوی ایشن حکام کے خلاف کارروائی جاری ہے‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کابینہ اجلاس میں پائلٹوں کے معاملہ سے متعلق رپورٹ پیش کی‘ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر کراچی حادثہ کے بعد انکوائری شروع کی گئی‘ ہم سفر کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں‘ ہم پائلٹوں کی قابلیت میں شفافیت چاہتے ہیں‘ جن پائلٹوں کے لائسنس مشتبہ پائے گئے تھے ان کو گرائونڈ کر دیا ہے‘ اس حوالہ سے تمام شراکت داروں کو آگاہ کر دیا گیا ہے‘ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی میں اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی اور دیگر اداروں کے دبائو کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مشکوک دستاویزات کے حامل 34پائلٹوں کے لائسنس معطل کر دیے۔ ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے 141پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہونے کی فہرست جاری کی گئی تھی تاہم سول ایوی ایشن اتھارٹی نے صرف 34پائلٹوں کو معطل کرنے کی فہرست جاری کی‘ ان 34 کی فہرست پر بھی شکوک وشبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں کیونکہ اس فہرست میں شامل 10پائلٹوں کے پاس اے ٹی پی ایل لائسنس ہی نہیں‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنس خالد محمود نے پی آئی ا ے کے ڈائریکٹر فلائٹ آپریشن کو مراسلہ لکھ کران پائلٹوں کو کام سے روکنے کی ہدایت کی ہے ‘ ان پائلٹوں پرمبینہ طور پر الزام ہے کہ انہوں نے جس دن فلائٹ کی‘ اسی دن امتحان بھی دیا‘ سول ایوی ایشن کی جانب سے ان پائلٹوں کو معطل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
ادھر پی آئی اے کی جانب سے یورپی ممالک میں پابندی کے خلاف اپیل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی یورپی یونین نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے رکن ممالک کو ایک اور خط ارسال کیا ہے جس میں پی آئی اے کے خلاف سخت پابندیوں اور ان پر فوری عملدرآمد کی سفارش کی گئی ہے۔ یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے اپنے تمام رکن ممالک سے پاکستانی لائسنس یافتہ پائلٹوں کو کام سے روکنے کی سفارش کی ہے اوران سے تمام پائلٹوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ یورپی یونین نے اپنے رکن ممالک سے کہا کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے 40فیصد لائسنسوں کے اجرا میں بہت زیادہ بے ضابطگیوں کی شکایات منظر عام پر آئی ہیں جو ہمارے لئے باعث تشویش ہے‘ اس لیے یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی اپنے 32اراکین کو مطلع کرتی ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے جاری کئے جانے والے لائسنسوں پر کام کرنے والے پائلٹوں کو معطل کر دیں اور انہیں فضائی آپریشن سے روک دیں‘ آپ کی آرگنائزیشن میں اگر کوئی پاکستانی لائسنس یافتہ پائلٹ کام کر رہا ہے تواس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
مشتبہ لائسنسوں کے معاملے پر قومی ایئرلائن کے پائلٹوں سے دو ہفتے میں تحریری طور پر جواب طلب کر لیا گیا ہے اور ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے شوکاز نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔ پائلٹس لائسنس سے متعلق ذاتی حیثیت میں صفائی پیش کر سکتے ہیں‘ جواب نہ دینے کی صورت میں وفاقی حکومت کو لائسنس منسوخ کرنے کی تجویز دی جائے گی۔
کسی زمانے کی دنیا کی بہترین ایئر لائن پی آئی اے بھی آج کل ہمارے قومی کھیل ہاکی اور ملکی معیشت کی طرح پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی‘ رہی سہی کسر کپتانوں کے لائسنس جعلی ہونے کے انکشاف نے پوری کر دی‘ مگر اب جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا‘ بدنامی بھی ہو چکی اور عالمی سطح پر اعتماد بھی کھوگیا لیکن اگر اب بھی اس شعبے میں موجود گند کوصاف نہ کیاگیا اور شوگر مافیا کی طرح کسی مصلحت کا شکار ہوکر اس معاملے کو بھی لٹکا دیا گیا تو پھر اس قومی ادارے کی ساکھ بحال کرنا ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی ہم عالمی سطح پر اعتماد برقرار رکھ سکیں گے‘ لہٰذا وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کو چاہئے کہ ان تمام جعلسازوں کو ان کے انجام تک پہنچا کر دم لیں تاکہ مستقبل میں قومی ایئر لائن کی ساکھ بحال کرنے کے ساتھ قیمتی انسانی جانوں کو بھی محفوظ بنایا جا سکے۔ وزیراعظم صاحب کے پاس موقع بھی ہے اور دستور بھی‘ اگر وہ اس ایک قومی ادارے کو ہی ٹھیک کر لیں تو یہی حقیقی تبدیلی کی ابتدا ہوگی۔