پاکستان ایک طرف کورونا کی عالمی وبا کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، الحمدللہ کہ ہماری تمام تر بے اعتدالیوں اور بے ضابطگیوں کے باوجود اس کا پھیلائو محدود ہو رہا ہے۔ تاجروں اور دکان داروں سے لے کر مفتیان کرام تک نے اس کی ''حوصلہ افزائی‘‘ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ جب دُنیا بھر کی مسجدوں میں معمول کے مطابق نماز ادا نہیں کی جا رہی تھی، یہاں تک کہ بیت اللہ اور مسجدِ نبوی میں بھی نمازیوں کی تعداد انتہائی محدود کر دی گئی تھی، تراویح کا اہتمام ممکن نہ رہا تھا اور عید کی نماز بھی گھروں پر ادا کرنے کی تلقین کی جا رہی تھی، پاکستان کے مفتیان عظام ایک دوسری روش اپنائے ہوئے تھے۔ ایک انتہائی جید مفتی صاحب کورونا وائرس کے خطرے کو موہوم قرار دے رہے تھے، اور تراویح اور عید کے اجتماعات کو محدود کرنے کی اہمیت سمجھنے پر تیار نہیں تھے۔ تاجر اور دکان دار عید کے موقع پر بازار اور مال مسلسل کھلے رکھنے پر اصرار کر رہے تھے، اور حکومتوں کو احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ عدالتی ایوان سے بھی عید کی شاپنگ کے حق میں ریمارکس دئیے گئے۔ عوام کی بڑی تعداد بھی بگٹٹ تھی۔ عورتیں، بچے، بزرگ سب گھروں سے بے لگام باہر نکل کر خریداری پر تلے ہوئے تھے۔ ڈاکٹروں اور وبائی امراض کے ماہرین کی سنی اَن سنی کی جا رہی تھی۔ خدشہ تھا کہ پاکستان میں یہ وبا بے قابو ہوتی جائے گی، ہلاکتوں میں شدید اضافہ ہو جائے گا، اور ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ باقی نہیں رہے گی، انہیں فٹ پاتھوں پر لٹانا پڑ جائے گا۔ لیکن اس وبا کی روک تھام کے لیے قائم مرکزی ادارے، سی این او سی کی محنت کا ثمر کہیے، سمارٹ لاک ڈائون کا نتیجہ قرار دیجئے، ماسکنگ اور سوشل ڈسٹنسنگ پر عوام کی ایک بڑی تعداد کے قائل ہو جانے کو اس کا کریڈٹ دیجیے، اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کی وہ درگت نہیں بن پائی جو بڑے بڑے ممالک کی بنی ہے، اور جس میں بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ گئے ہیں۔ عیدالاضحی کی آمد آمد ہے، اس کے بعد محرم کی مجالس کا سلسلہ بھی شروع ہونے کو ہے۔ اگر ان مواقع پر عیدالفطر جیسی بے احتیاطی، ہٹ دھرمی، بلکہ فقہی کٹ حجتی کا مظاہرہ کیا گیا تو پھر یہ وبا نئی طاقت کے ساتھ دوبارہ حملہ آور ہو سکتی ہے۔ اطمینان کا جو سانس اب لیا جا رہا ہے، وہ عارضی ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومتی اقدامات کا بھی امتحان ہے اور علمائے کرام کی منصبی ذمہ داری بھی کہ انسانی زندگی کی حفاظت سب سے بڑا فریضہ ہے۔
اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ''سول اور ملٹری‘‘ تنازع نے حکومت کی رٹ کو بہت کمزور کیا ہے۔ بار بار مارشل لاء کے نفاذ اور پھر ان کے خلاف اٹھنے والی تحریکات کا سب سے بڑا نقصان حکومت نامی ادارے کے تحکم کو اٹھانا پڑا ہے۔ کئی سیاسی‘ لسانی اور مذہبی عناصر قانون کا مذاق بنانے اور اڑانے میں ید طولیٰ حاصل کر چکے ہیں، یہاں تک کہ ٹریفک قوانین سڑکوں پر نافذ کرنے کی استطاعت تک ہماری انتظامیہ میں نہیں رہی۔ اس صورتِ حال کا مداوا نہ کیا گیا تو ہمیں بحیثیتِ قوم وہ خسارہ اٹھانا پڑے گا، زندہ و غیور قومیں جس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ ابھی تو کراچی میں عزیر بلوچ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز کا رونا رویا جا رہا ہے، اگر شب و روز یہی رہے تو ہر شہر اور ہر بستی میں ایسی جے آئی ٹیز قائم ہو کر بہ آسانی ایسی رپورٹیں مرتب کر سکیں گی۔ ہر گھر سے قاتل نکلیں گے، تم کتنے قاتل مارو گے؟ ہر گھر سے ڈاکو نکلے گا، تم کتنے ڈاکو ''گرفتارو‘‘ گے؟ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے سیاسی نظام کے حوالے سے یکسو ہو جائیں۔ طاقت کے الگ الگ مراکز قائم کرنے سے توبہ کریں، اور اختیارات کی مرکزیت (قانون کے مطابق) بحال رکھیں۔
کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل بھی منڈلا رہے ہیں۔ دُنیا کے کئی ممالک سے ہمارے آسمانوں کا رخ کر چکے ہیں، اور کرتے جا رہے ہیں۔ یہ فصلوں کو چٹ کر کے قحط سالی میں مبتلا کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ جنگی بنیادوں پر حکومت کو اس طرف بھی توجہ مسلسل مرکوز رکھنا ہو گی، اس میدان میں بھی سول اور ملٹری تعاون اچھے نتائج حاصل کر رہا ہے۔ کورونا وائرس اور ٹڈی دل کی یلغار کا جس طرح سامنا کیا جا رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی محاذ پر بھی اسی طرح پیش قدمی ہو۔ یہاں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کم ہوں۔ حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں میں رابطے بڑھ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے کراچی پہنچ کر طویل ملاقات کی ہے، اس کے بعد نعرہ لگایا گیا ہے کہ... پاکستان اور عمران خان ایک ساتھ نہیں چل سکتے... مسلم لیگ (ن) سے بھی نامہ و پیام جاری ہے۔ اگر یہی لیل و نہار رہے تو اپوزیشن کا بڑا اکٹھ ہو کر رہے گا۔ کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) بلانے اور مشترکہ لائحہ عمل بنانے کا جو عندیہ دیا جا رہا ہے وہ عمل کا جامہ پہن لے گا۔ حکومت مگر اپنی دھن میں مگن ہے، اور وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے حالات کو سنوارنے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام سازی دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستانی معیشت کی حالت دگرگوں ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا جن بوتل سے نکل رہا ہے۔ ایسے میں اگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جنگ تیز ہو گئی تو پھر حالات بے قابو بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا آئینی حق حاصل ہے، لیکن یاد رکھیے کہ اس نے سو فیصد ووٹ حاصل نہیں کیے تھے۔ انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف نے ڈالے ہوئے ووٹوں کا 32 فیصد حاصل کیا تھا، یعنی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹرز کا اعتماد حاصل کر سکی تھی۔ جو 114 نشستوں پر کامیابی دلا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کو 24 فیصد ووٹ ملے تھے، ایک کروڑ بیس لاکھ ووٹرز نے اس کے حق میں مہریں لگائی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے 13 فیصد ووٹ، 70 لاکھ ووٹرز کے حامل تھے۔ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے 5 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، اس کی پشت پر 25 لاکھ ووٹر تھے۔ اگر مذکورہ تین جماعتیں مل جائیں تو ان کے ووٹرز کی تعداد برسر اقتدار جماعت کے ووٹوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ بعض حلقوں میں نتائج کی تبدیلی کے الزامات سے قطع نظر یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے مخالفین ابدی نیند سو گئے ہیں۔ اگر سیاست کو اسمبلی سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جائے گا تو پھر ایوان کی عددی اکثریت بے معنی ہو جائے گی۔ تاریخ میں پاکستان کے اہلِ سیاست نے بار بار اس حقیقت کو نظر انداز کیا، اور اس کا نقصان اٹھایا ہے۔ یہ درست ہے کہ سڑکوں کی سیاست کا نتیجہ اپوزیشن کے حق میں بھی اچھا نہیں نکلا، اس کے ہاتھ بھی خالی ہو گئے ہیں، لیکن اسے یہ تسکین تو بہرحال حاصل ہو جاتی ہے کہ اس کے مخالف کا دیوالہ بھی پٹ گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین و فطین، چست و چالاک تاریخ و سیاست کے گہرے مطالعہ کا ذوق و شوق رکھنے والے شخص نے اپوزیشن پر زمین تنگ کی تھی تو انہیں صرف اقتدار ہی نہیں دُنیا چھوڑنا پڑی تھی۔ اس لیے زندہ رہنے کا آسان (اور شاید واحد) طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کے زندہ رہنے کا حق تسلیم کیجیے۔ جیو اور جینے دو۔ مرنے اور مارنے کا نتیجہ تو ہم بار بار دیکھ ہی چکے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)