ہمارے پروڈیوسر دوست عدیل راجہ نے بات ہی ایسی کر دی کہ محفل میں سناٹا چھا گیا۔ کورونا نے زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ بڑے عرصے بعد ہم دوست ارشد شریف، خاور گھمن، شاہد بھائی، ضمیر حیدر، عدیل راجہ اور علی عثمان اکٹھے ہوئے لیکن پوری احتیاط کے ساتھ۔
تین چار ماہ میں زندگی بدل گئی ہے۔ دوستوں کی سب محفلیں ختم ہوئیں جو ہم شاہد بھائی، ارشد شریف یا میرے گھر پر برپا کرتے تھے۔ عامر متین اور ہمارے پیارے شاہ جی ہما علی کے گھر مستقل محفلیں جمتی تھیں۔ میجر عامر کے گھر پر ہر دوسرے روز محفل جمی ہوتی تھی۔ سابق کمشنر اسلام آباد طارق پیرزادہ کے گھر‘ سینیٹر طارق چوہدری، امریکہ سے مشتاق احمد جاوید اور لاہور سے خالد بھائی کی آمد ہوتی تو مشہور کالم نگار ہارون الرشید سے پروفیسر غنی جاوید تک سب کے گھر رات گئے تک محفلیں جمتیں۔
سب کچھ بند ہو گیا۔ انسان انسان سے ڈر گیا۔ بندہ بندے سے دور ہو گیا۔ اپنا آپ مجرم لگنا شروع ہو گیا۔ اب ان حالات میں جب ہم سب دیوانے مل بیٹھے تو بھی ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں راجہ عدیل نے دکھ بھری کہانی چھیڑ دی کہ اسلام آباد میں ایک خواجہ سرا کو سر میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اسلام آباد میں خواجہ سرا کو گولی مارنے کا یہ پہلا واقعہ ہے‘ ورنہ اس مظلوم مخلوق پر اس طرح کے ظلم کی خبریں خیبر پختونخوا سے یا پھر پنجاب کے کچھ علاقوں سے ملتی ہیں۔
ان کے ساتھ مذاق، جملے بازی، مشکوک اشارے معمول بن چکا ہے۔ انہیں ذلیل کرنا اور کمتر سمجھنا کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی۔ کسی کو احساس نہیں کہ کیا یہ مخلوق اپنی مرضی سے اس طرح پیدا ہوئی ہے؟ ان کے پاس آپشن تھا‘ لیکن انہوں نے تیسری جنس بننا پسند کیا‘ لہٰذا یہ وہ جرم ہے جس کی سزا انہیں پیدائش سے مرنے تک ملتی رہنی چاہیے؟ کسی سگنل پر یا کسی اور جگہ یہ لوگ آپ کو نظر آئیں تو سب سے پہلے ہمارے اندر کا حیوان بیدار ہو جاتا ہے‘ اور ہم سب کوئی طریقہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان سے تفریح کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس بے چاری مخلوق کو معاشرے میں شودر کا درجہ دے دیا گیا ہے لہٰذا ان کیلئے زندگی میں اس کے علاوہ کوئی کام نہیں بچاکہ وہ اپنے سے برتر انسانوں کو خوش کرنے کیلئے کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہو جائیں تاکہ ان کی روٹی روزی چلتی رہے۔ ان کو کوئی نوکری نہیں دیتا۔ اگر کہیں مل جائے گی تو پورا دفتر ان کی جان عذاب میں ڈال دے گا۔ کوئی انہیں گھر میں ملازم نہیں رکھے گاکہ بچے خراب ہو جائیں گے۔ پچھلے دنوں ایک بینک نے خواجہ سرائوں سے معاہدہ کیاکہ وہ ڈوبے ہوئے قرضے ریکور کرانے میں مدد دیں‘ معاوضہ ملے گا۔ مطلب یہ کہ وہ اس بندے کے گھرکے باہر جاکر تماشا لگائیں گے تو وہ بندہ شرم کرکے انہیں قرضہ واپس کر دے گا۔ بینک کو اس سے غرض نہیں کہ اس مخلوق کا لوگ کیا تماشا بنائیں گے۔ اب وہ مخلوق کیا کرے کہ اسے دن میں روٹی تو رات کو چھت چاہیے۔ وہ یہ کام نہ کریں تو کیا کام کریں‘ جب انہیں اپنے گھر والوں سے لے کر معاشرے تک سب نے پہلے ڈس اون کیا اور پھر تماشا بنا لیا۔
ان کا اب کیا کام ہے؟ یہ کہاں سے روٹی کمائیں؟ پھر یہ ذاتی محفلوں میں جاتے ہیں تاکہ دوسروں کا دل خوش کریں، ان کے ذلت آمیز جملے اور حرکات خوشی سے برداشت کریں تاکہ کچھ پیسے ملیں اور وہ اپنا گھر چلائیں اور پھر کبھی انہیں کے ہاتھوں قتل بھی ہوجائیں۔
جب کچھ دیر اس خواجہ سرا کے افسوسناک قتل پر بات ہوئی تو میں نے کہا: یار میرے پاس تو ٹی وی شو نہیں ہے ورنہ ضرور اس پر عامر متین کے ساتھ پروگرام کرتا کہ اب اسلام آباد جیسے شہر میں ایسے پُرتشدد واقعات ہونے لگے ہیں۔ اب اس شہر میں ایسے لوگ آ گئے ہیں جن کے ہاں ہتھیار ہیں اور وہ اسلام آباد کو ویسے ہی برباد کر رہے ہیں جیسے کراچی برباد ہوا یا قبائلی علاقوں کا حشر ہوا۔ اس شہر میں مختلف علاقوں سے لوگ آگئے ہیں جو اپنے ساتھ قبائلی رسوم، دیہی علاقوں کی دوستیاں دشمنیاں، نفرتیں اور عصبیتیں بھی لائے ہیں۔ وہ شہر میں بھی قبائلی یا گائوں والی زندگی پر رواں دواں ہیں اور یوں یہ شہر تشدد اور جرائم کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ راولپنڈی پہلے ہی ہوچکا ہے اور اب اس کے اثرات اسلام آباد پر بھی پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔
میں نے کہا: راجہ عدیل صاحب آپ کا دکھ اپنی جگہ لیکن آپ کے پاس ایک پروگرام ہے‘ جس کا ارشد شریف جیسا ٹاپ اینکر ہوسٹ ہے۔ آپ اس خواجہ سرا کے قتل پر پروگرام کیوں نہیں کرتے؟ آپ شہزاد اکبر صاحب‘ جو ہر دوسرے تیسرے دن آپ کے شو میں بیٹھے اپنی کرامات ہمیں سنا رہے ہوتے ہیں‘ سے بات کیوں نہیں کرتے کہ ان کی حکومت کیوں اس شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے میں ناکام ہورہی ہے؟ آپ آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار کو شو میں بلاکر کیوں نہیں پوچھتے؟ آپ بڑے بڑے اینکرز شہروں میں بڑھتے ہوئے جرائم کو فوکس کیوں نہیں کررہے؟ سب اینکرز وزیروں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ آپ ان وزیروں سے کیوں نہیں پوچھتے: یہ ظلم کون کررہا ہے؟
راجہ عدیل اور ارشد شریف چپ رہے۔ ان کی خاموشی سے مجھے دو سینئر اینکرز یاد آئے۔ ایک سے ہمارے دوست وسیم حقی کے گھر میں نے کہا تھا: سر جی سی ڈی اے ایمبیسی روڈ پر سڑک کے نام پر ساڑھے تین سو درختوں کا قتل عام کررہا ہے‘ اس پر میں اور عامر متین اپنے پروگرام میں آواز اٹھارہے ہیں، آپ بھی پلیز آواز اٹھائیں۔ وہ بولے: ہمارا پروگرام قومی ایشوز اٹھاتا ہے یہ ایشوز ہمارے پروگرام کا موضوع نہیں بن سکتے‘ بن گئے تو بھی کسی نے نہیں دیکھنا۔ دوسرے اینکر دوست کو کہا تو اس نے کہا: میری آپ سے رائے مختلف ہے‘ درخت کٹنے دیں۔ میں چپ ہو گیا۔ بات ان کی بھی ٹھیک تھی۔ سب کچھ ریٹنگ کے لیے ہی کرنا ہے، عوام یا انسانوں کے لیے کیا کریں؟ عامر متین اور میں نے درختوں کے بے رحمانہ قتل پر بیس پروگرام کیے ا ور جب کچھ لوگ مظاہرے کے لیے باہر نکلے تو یقین کریں صرف بیس لوگ اکٹھے ہوئے‘ جن میں دس لوگ میری پروڈکشن ٹیم کے تھے۔ اس کے بعد کیوں ٹی وی شوز میں اینکرز اپنی ریٹنگ خراب کریں۔ یہ اور بات ہے کہ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور سی ڈی اے کو روکا‘ لیکن اس وقت تک پچاس سال پرانے دو سو درخت کاٹے جا چکے تھے۔
فیس بک دیکھ رہا تھا۔ ایک دوست ساجد قاضی کی پوسٹ نے پھر دل دکھا دیا۔ اسلام آباد کی مشہور اور خوبصورت شاہراہ پر پائن کا پچاس سالہ درخت کوئی کاٹ کر گھر لے گیا۔ اس کٹے درخت کی تصویریں دیکھ کر آپ کا دل دکھی ہوجائے گا۔ ارشد شریف اور عدیل راجہ بھی اسی وجہ سے چپ رہے کہ کون دیکھے گا اورکہاں سے ریٹنگ ملے گی؟ اس خواجہ سرا کی ایف آئی آر کٹی؟ کوئی اس کا مدعی بنا؟ کوئی پتہ نہیں اور اس کا قاتل کون تھا، کسی کو علم نہیں۔ کوئی مدعی بن بھی گیا تو وہ کل کلاں دو تین لاکھ روپے قاتل سے لے مقدمہ راضی نامہ پر ختم کرا دے گا یا پھر پولیس خود ہی پیسے لے کر مقدمہ ختم کر دے گی کہ ایک خواجہ سرا کی زندگی کی معاشرے میں کتنی اہمیت ہے کہ امریکہ کی طرح ایک امریکن افریقی کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد لاکھوں امریکی گھروں سے باہر نکل آئیں گے۔
ارشد شریف اور راجہ عدیل نے خواجہ سرا کے اسلام آباد میں قتل پر پروگرام کرنے کی کوئی ہامی نہیں بھری۔ اب سوچ رہا ہوں اس نوجوان خواجہ سرا اور پچاس سالہ پائن کے درخت کے قتل کی ایف آئی آر کہاں اور کس کے خلاف درج کرائیں؟ سرائیکی کے بڑے شاعر رفعت عباس یاد آئے:
ہے کوئی اینجھی چوکی رفعت، ہے کوئی اینجھا تھانڑاں
ہیر سیال دے قتل اتے، ونج پرچہ درج کریجیے