بھارت کی پارلیمنٹ نے پچھلے سال 11 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کی منظوری دی۔ اس قانون کی منظوری سے پہلے ہی بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند تھی اور اس قانون کا مسودہ متعارف ہونے کے بعد سے مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو بل کی منظوری کے بعد بھی جاری رہے۔ ان مظاہروں کے دوران مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت کا بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا گیا اور درجنوں مظاہرین جان سے گئے۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں دہلی میں مسلم مخالف فسادات بھی کرائے گئے جو مودی کی فاشسٹ حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ان مظاہروں کو دنیا بھر کے میڈیا نے نمایاں جگہ دی لیکن میڈیا کا ایک مزاج یا مجبوری ہے کہ ایک خاص دورانیہ کے بعد کسی بھی ایشو میں اس کی دلچسپی یک لخت ختم ہو جاتی ہے اور پھر اسے نئے ایشوز سے فرصت نہیں ملتی۔ میڈیا کوریج ختم ہونے پر معاملہ دنیا بھر کے عام شہریوں کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کسی ایشو یا کسی معاملے کا انجام کیا ہوا؟ اس عرصے میں اس ایشو پر اس قدر پیشرفت ہو جاتی ہے یا معاملہ اس قدر الجھ جاتا ہے کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
بھارت کے شہریت ترمیمی قانون کا بظاہر ہدف ریاست آسام تھی‘ آسام میں 19 لاکھ باشندوں کو شہریت کی فہرست سے باہر رکھا گیا ہے‘ جن میں کئی لاکھ مسلمان بھی ہیں۔ آسام میں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر کے بنگالی ہندوؤں کو شہریت دی جانا تھی‘ لیکن اس قانون کا اصل مقصد بھارت کو ہندو اکثریتی جمہوریت میں تبدیل کرنا ہے‘ جس میں مسلمانوں اور مسیحی شہریوں کی حیثیت برابری کی نہیں بلکہ ثانوی ہو گی۔ بھارت کے مسلمانوں نے پورے ملک میں اس قانون کی اس لیے مخالفت کی کہ اگر مستقبل میں پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا گیا تو اس قانون کے تحت شہریت سے باہر ہونے والے ہندوؤں کو تو دوبارہ شہریت مل جائے گی‘ لیکن متاثرہ مسلمانوں کی شہریت ختم ہو جائے گی۔ ان مسلمانوں کے یہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں‘ کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی آڑ میں مسلمانوں اور اس قانون کی مخالفت میں کھل کر سامنے آنے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں‘ بھارتی میڈیا کا غالب حصہ مسلم دشمن ہے لیکن باقی میڈیا کی توجہ کو بھی کورونا وائرس کی وبا نے جکڑ لیا‘ اور اس کے بعد چین کے ساتھ سرحدی تصادم اور نیپال کے ساتھ سرحدی علاقوں پر خود مختاری کے تنازع نے بھارت کے میڈیا کو شہریت ترمیمی قانون کے مظاہروں کے فالو اَپ کی فرصت ہی نہ دی۔
جب شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج جاری تھا‘ تب بی جے پی مغربی بنگال کے صدر دلیپ گھوش نے ایک ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ جو لوگ شہریت کے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں اور جو عوامی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں انہیں گولی مار دینی چاہیے‘ جس طرح ان کی حکومت اُتر پردیش‘ آسام اور کرناٹک میں کر رہی ہے۔ اُتر پردیش کے ایک وزیر نے بیان دیا تھا کہ جو لوگ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ یا وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگائیں گے میں انہیں زندہ دفن کر دوں گا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہروں کے دوران تخریب کاری کون کر رہے ہیں‘ یہ ان کے لباس سے واضح ہے۔
بی جے پی قیادت کے بیانات سے مسلم دشمنی اور نفرت صاف جھلک رہی تھی۔ مظاہروں کے خاتمے کے بعد بھی نفرت کی یہ آگ دہک رہی ہے اور بھارت بھر میں بی جے پی حکومت کی انتقامی کارروائیاں عروج پر ہیں۔ ابھی دو دن پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل عثمانی کو اعظم گڑھ میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ شرجیل کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان یا تصدیق نہیں کی گئی۔ شرجیل کی گرفتاری کے لیے سادہ لباس پولیس اہلکار بھیجے گئے۔ شرجیل کے بھائی نے ان اہلکاروں کی آمد کی وجہ پوچھی تو جواب ملا: تمہیں جاننے کی ضرورت نہیں‘ شرجیل کو پتہ ہے ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ شرجیل کے گھر کی تلاشی لی گئی اس کا سامان قبضے میں لینے کے بعد تمام اہلِ خانہ اور رشتہ داروں کی بھی تصاویر اتاری گئیں اور ہر رشتے کی تفصیل نوٹ کی گئی۔ شرجیل کی گرفتاری کے روز ہی لکھنؤ میں پچاس سے زیادہ مظاہرین پر گینگسٹر ایکٹ لاگو کر کے انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔ یہ سب گرفتاریاں دسمبر میں ہونے والے مظاہروں کے تناظر میں ہوئیں۔ لکھنؤ انتظامیہ نے‘ جہاں مودی کے چہیتے یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت ہے‘ دسمبر میں مظاہرے کرنے والوں کی املاک ضبط کرنے کی کارروائی بھی شروع کر رکھی ہے۔ جائیداد قرقی کے لیے لکھنؤ میں ایک سو‘ مراد آباد میں 200‘ بجنور میں 43‘ گورکھپور میں 33 اور فیروز آباد میں 29 مظاہرین کو نوٹس جاری کئے گئے تھے اور لکھنؤ میں دو جائیدادوں کی قرقی اپریل میں ہو بھی گئی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ جنوبی ایشیا ریجن کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر بیان جاری کیا اور کہا کہ وزیر اعظم مودی نے کورونا وائرس کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی اپیل کی‘ لیکن ان کی طرف سے مسلم مخالف تشدد اور امتیازی سلوک کے خلاف لڑائی میں متحد ہونے کی اپیل کرنا ابھی باقی ہے۔ مودی حکومت پولیس زیادتیوں کی جانچ کرے اور مسلم مخالف پالیسیوں کو تبدیل کرے۔
بھارت کے نوجوان اور پڑھے لکھے مسلمانوں کی گرفتاریاں‘ جائیدادوں کی قرقی‘ گینگسٹر ایکٹ لاگو کیا جانا اور گرفتاری نوجوانوں کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کا ریکارڈ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر اس قانون کی مخالفت سے نہ صرف روک رہی ہے بلکہ مسلمانوں کی املاک قرق کر کے انہیں بے گھر بھی کر رہی ہے۔ مودی حکومت شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور اطلاق کے بعد بھی کئی قوانین میں ترمیم کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے جن میں مسلمانوں کے طرزِ زندگی اور مذہبی حقوق کو نشانہ بنایا جائے گا۔ مودی کی حکومت میں ریاست اور معاشرے کے مختلف ادارے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ منظم طریقے سے تفریق برت رہے ہیں۔
بھارت چین کے ساتھ سرحدی تصادم کے بعد خطے میں تنہا ہوتا جا رہا ہے‘ نیپال کی حکومت نے سیاسی اور انتظامی طور پر ملک کے نئے نقشے جاری کئے جن میں بھارت کے ساتھ سرحد پر تین علاقوں پر نیپال نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا ہے۔ اب نیپال میں بھی شہریت ترمیمی قانون پارلیمنٹ میں پیش ہو چکا ہے۔ اس قانونی مسودے پر بھارتی میڈیا نے شور مچانا شروع کر دیا اور اسے بھارت نیپال تعلقات میں رخنہ قرار دے رہا ہے۔ نیپال کے مجوزہ قانون میں نیپالی شہریوں کی غیر ملکی بیویوں کو سات سال تک شہریت نہ دینے کی تجویز ہے۔ نیپال کے شہری بھارت سے دلہنیں لاتے ہیں۔ بھارتی میڈیا نیپال بھارت تعلقات کو ''روٹی بیٹی‘‘ تعلقات سے تعبیر کرتا آیا ہے ‘یعنی ایسے تعلقات جو محض ہمسائیگی پہ مبنی نہیں بلکہ شادی کے مضبوط بندھن ہیں۔ نئے بل کی منظوری کے بعد ''روٹی بیٹی‘‘ تعلقات کو بڑا دھچکا لگے گا‘ لیکن کیا بھارت نیپال کے شہریت ترمیمی قانون پر احتجاج کا حق رکھتا ہے؟ دوسری طرف بنگلہ دیش بھی چین کے ساتھ قربت بڑھا رہا ہے جس کا مطلب بھارت سے دوری ہے‘ چین نے بنگلہ دیش کی 97 مصنوعات پر ٹیکس کے مکمل خاتمے کی پیشکش کی ہے‘ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت 38 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ بھارت کی اس علاقائی تنہائی کا فائدہ پاکستان کو اٹھانا چاہئے اور نہ صرف کشمیریوں بلکہ بھارتی مسلمانوں کے حقوق کیلئے سفارتی مہم تیز کرتے ہوئے بھارت کو عالمی دباؤ میں لانے کی پالیسی اور حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔