تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     12-07-2020

آواز تو نہیں دبے گی!

''خدا کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم‘ لیکن ان ہلاکت خیزاداروں کی بے حسی اور نالائقی کا کرب ناقابل برداشت ہے‘‘۔ یہ ایک دکھی والد کی صدا تھی جس کی اہلیہ اور تین بچے پی آئی اے کے خوفناک حادثے میں جاں بحق ہوگئے ۔ میں نے یہ مضمون کسی صحافی ‘تجزیہ کار یا سیاست دان کے طور پر نہیں‘ بلکہ ایک انسان ہونے کے ناتے لکھا ہے ۔ اداروں کی تباہی کی کہانی دراصل بے حسی‘ سفاکی‘ سنگدلی اور بے ضمیری کی کہانی ہے ۔ غور کیجیے ‘ گزشتہ دس برسوں کے دوران یہ پاکستان کی قومی ایئرلائنز کا چوتھا حادثہ تھا ۔ ان حادثات میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوگئیں۔ اُن سے وابستہ ہزاروں زندگیاں اور خاندان اجڑ گئے ۔ مبصروں ‘ تجزیہ کاروں‘ سیاست دانوں اور صحافیوں کا عمومی رد ِعمل یہ رہا '' دیکھو‘ اس خبر کی وجہ سے پی آئی اے اور پاکستان کو کتنی ندامت کا سامنا کرنا پڑا‘ساکھ تباہ ہوگئی‘‘۔ صحافی اور تجزیہ کار ساکھ تباہ ہوتی دیکھ رہے ہیں ‘ جبکہ سیاست دانوں نے اسے پالیسی کی ناکامی کہا ہے ۔ 
یقینا جہاز کی تباہی ایک دل خراش صدمہ تھی لیکن اس رپورٹ کے منظر عام پر لانے پر تجزیہ کاروں اور ٹوئٹر ماہرین کا رد ِعمل پریشان کن اور ذہن کو مائوف کردینے والا ‘ بلکہ دل خراش تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اور صحافتی وابستگی کے باوجود میں اُن کیلئے آواز بلند کررہی ہوں جن کے عزیزوں کا خون ان سب کی گردن پر ہے جو ہلاکتوں کے اس سلسلے اور انسانی جانوں کے زیاں کو نرم الفاظ میں چھپانے کی کوشش میں ہیں۔ دس برسوں میں چار فضائی حادثے اس سچائی کو چھپانے کی وجہ سے ہوئے کہ نام نہاد تجزیہ کار وں نے نااہل اور نالائق حکومت پر تنقید کو ''اداروں کی ساکھ مجروح ‘‘کرنا قرار دیا۔دوسری طرف انہیں ہزاروں تباہ شدہ زندگیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ 
میری آواز حادثے کا شکار ہونے والوں اور اُن کے پسماندگان کیلئے ہے ۔ چند لمحوں کیلئے ایک والد کا احساس کریںجو اپنا خوبصورت خاندان کھو بیٹھا یا ایک بیٹا جو اب اپنے والدین کو کبھی نہیں مل سکے گا ‘یا وہ والدین جو عید کی خوشیاں منانے آرہے تھے ‘یا چار افراد پر مشتمل ایک خاندان جو اپنے بزرگوں سے ملنے جارہا تھا۔ ان کے احساسات کیا ہوں گے؟ اگرتحقیقات کا وعدہ کیا جاتا ہے لیکن حسب ِروایت تحقیقات نہ ہوپاتیں؟یا اگر تحقیقات ہوتی ہیں لیکن ''ادارے کی ساکھ بچانے ‘‘ کے نام پر انہیں منظر عام پر نہ لایا جاتا یا جزوی طور پر افشا کیا جاتا ہے؟یااگر تحقیقات ہو کر منظر ِعام پر بھی آجاتیں لیکن ان پر کوئی کارروائی عمل میں نہ آتی ؟ بنیادی سوال یہی ہے کہ ان افراد کے احساسات کیا ہوتے ؟اور اگر ''ساکھ بچائو ‘‘ والوں کااس حادثے میں کوئی ذاتی نقصان ہوجاتا تو کیا اُن کا پھر بھی یہی مؤقف ہوتا؟ سچ بولنے کا وقت آچکا ہے۔ کچھ متاثرہ خاندان سوال کررہے ہیں کہ رپورٹ کو سامنے لانے پر جو لوگ حکومت کے غیر محتاط رویے پر تنقید کررہے ہیں ان کا یہی رویہ ہوتا اگر ان کا کوئی اپنا عزیز حادثے کا شکار ہوجاتا ؟ میڈیا پر پوسٹ کرنے اور تنقید کرنے سے پہلے یہ سوال پوچھا جانا ضروری ہے ۔ جب آپ غلطیاں چھپاتے ہیں تو اُن کے دہرانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ان کے عمودی اور افقی پھیلائو میں اضافہ ہلاکت خیز ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں اداروں کے ساتھ یہی کچھ ہوا‘ اورپی آئی اے تو اداروں کی تباہی کی ایک مثال ہے ۔
مشرف دور کے بعد پی آئی اے ہمیشہ خسارے میں چلی‘اس کے نقصان اور خسارے کا حجم بڑھتا چلا گیا۔ پانچ سو ارب روپے کے مجموعی نقصانات‘ قرضہ جات‘ ناقص سروس‘ کبھی طیارے کی چھت سے ہیروئن جیسی منشیات کی برآمدگی‘ کئی غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے سیفٹی وارننگ‘ لیکن کچھ بھی تبدیل نہ ہوا۔ کیوں؟اس کا سبب ہے ہماری حکومتوں کی ان اداروں کے ذریعے بدعنوانی کی پرانی عادت اور انہیں ذاتی ملکیت سمجھ کر اجاڑنا ۔ پانچ عوامل سے ادارے بنتے ہیں اور انہی کی وجہ سے برباد بھی ہوتے ہیں: قیادت‘ میرٹ‘ کارکردگی‘ کلچر اور احتساب۔ 
1۔ قیادت کے بجائے اقربا پروری: رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر جعلی ڈگریاں اور لائسنس رکھنے والے پائلٹوں کو 2010 ء اور 2018 ء کے درمیان ملازمت دی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان پائلٹوں کو ملازمت پر رکھنے والے افراد کی اپنی سیاسی سندجعلی تھی ۔ جنہیں ملازمت دی اور جنہوں نے ملازمت دی وہ خود جعلی تھے ۔ وزرائے اعظم خود بھی نااہل تھے ۔ (ن) لیگ کے دور میں پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو چلانے والے دونوں افراد نااہل تھے ۔ 2014 ء میں ایک جرمن ‘ برنڈ ہلڈنبرانڈ کو سی ای او لگایا گیا لیکن وہ گریجویٹ بھی نہیں تھا بلکہ وہ پی آئی اے کا ایک طیارہ بھی چرا کر لے گیا ۔ بعد میں یہ طیارہ جرمنی کے ایک عجائب گھر سے برآمد ہوا۔ میڈیا کے شور مچانے پر اُسے عہدے سے ہٹا کر اُس کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ‘ تاہم اُس وقت کے ایک وزیر نے ای سی ایل میں نام ہونے کے باوجود اُسے ملک سے فرار کروادیا۔ اس طرح جعلی ڈگریاں اور قوانین کی خلاف ورزی کی روایت اوپر سے شروع ہوتی ہے۔
2۔ میرٹ کے بجائے فروخت : تمام اہم ادارے اور عہدے اُن افراد کو دیے گئے جو اس اہل نہیں تھے ۔ شجاعت عظیم کو وزیر اعظم کا ہوابازی کا مشیر لگایا گیا۔ اُنہیں سپریم کورٹ نے اس لیے ہٹا دیا کیونکہ ان کا پی اے ایف سے کورٹ مارشل ہوا تھا۔ وہ رائل ایئرسروسز میں شراکت دار بھی تھے جسے سی اے اے کا کنٹریکٹ دیا گیا تھا۔ اس طرح جعلی لائسنس اورمسافروں کی جان خطرے میں ڈال کر طیارہ اُڑانے کی اجازت دینا اُن افراد کا وتیرہ تھا جن کی اپنی اسناد مشکوک تھیں۔ 
3۔ کارکردگی کے بجائے لین دین: جب نجی شعبے سے باصلاحیت افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تو وہ بھی اپنا بچائو نہیں کرپاتے ۔ نجی شعبے سے ایک ماہر سی ای او طارق کرمانی کی خدمات حاصل کی گئیں‘ اُنہوں نے ملازمین کی کارکردگی کی جانچ کا سخت معیار طے کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ کاغذ پر کارکردگی شاندار یا بہت اچھی بتائی گئی ہے ۔ جب کرمانی نے پوچھا کہ اتنی اچھی کاکردگی کے باوجود ایئرلائن کی کارکردگی اتنی خراب کیوں ہے ؟تو اُن کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا ۔وہ دیر تک پی آئی اے میں نہ ٹھہر سکے ۔ 
4۔ کام نہ کرنے کا کلچر : پی آئی نے دنیا کی 36فضائی کمپنیوں کیلئے معیار طے کئے تھے‘لیکن یہ خود سیاسی نامزدگیوں کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ملازمتوں پر پابندی کے باوجود ایک ہزار افراد کو ملازمت پر رکھا گیا‘ ان میں سے بہت سے گھوسٹ ملازمین تھے جو تنخواہیں تو لیتے تھے لیکن کام نہیں کرتے تھے ۔ 
5۔ احتساب کے بجائے وفاداری: دس برسوں میں چار حادثے ہوئے لیکن احتساب نہ ہوا۔ نہ آزاد تحقیقات کرائی گئیں اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی ۔ ایئربلیو کریش انکوائری کبھی منظر ِعام پرنہ آسکی ۔ اس طرح ایئرلائنز مسلسل غلطیاں کرتی رہی اور سینکڑوں انسانوںکی زندگیوں سے کھیلتی اور ملک اور ادارے کیلئے شرمندگی کا باعث بنتی رہی ۔ 
سینیٹ میں ہوابازی کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد اﷲ کا تبصرہ چشم کشا ہے ۔ اُن کا کہنا تھا ''کسی کو بھی جعلی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت سے نہ نکالا جائے کیونکہ وہ روز ی کمانے سے محروم ہوجائیں گے ‘‘۔یہاں اُن سے میرا سوال ہے : اپنے پیاروں کو کھونے اور بددیانت ملازمین کی ملازمت کے ختم ہونے میں کیا کوئی فرق نہیں؟جس دوران بے گناہ افراد کی جانیں ضائع ہورہی ہیں‘ ایک سینیٹر کا مؤقف ہے کہ دھوکہ دینے ‘ جھوٹ بولنے اور دروغ گوئی سے کام لینے والوںاور ان سینکڑوں افراد کی ہلاکتوں کا باعث بننے والوں کی ملازمت نہیں جانی چاہیے ۔ مبصرین سے آخری سوال یہ کہ آپ غلطیاں چھپا کر ادارے تعمیر کرسکتے ہیں؟ خاص طورپر وہ غلطیاں جن کی وجہ سے سینکڑوں افراد کی جان چلی جائے؟ جب اُن کا کہنا ہے کہ رپورٹ کو احتیاط سے سامنے لانا چاہیے تھاتو سوال یہ ہے کہ میڈیا کی موجودہ دنیا میں کیا کچھ مخفی رکھا جاسکتا ہے ؟کیا آپ بطور انسان حقائق کی ملمع کاری کرتے ہوئے حادثات سے بچ سکتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو اُن سے پوچھ کر دیکھیں جنہوں نے حادثے میں اپنے والدین یا بچے کھو دیے ہیں۔کیا ہم ایک لمحے کے لیے اپنے تمام تعصبات ‘ مؤقف ‘ سیاسی وابستگی ‘ معاشی مفاد اور پس ِ منظر بھول کر صرف انسان نہیں بن سکتے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved