تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     13-07-2020

آکسفیم‘ چین اور آئی ایم ایف

ہر دور کے مسلم سماج کے لیے مشکل حالات میں تین چیزوں کو طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا: کائنات کے مالک کی ذات پر مکمل بھروسا‘ صبر و سکون کا مظاہرہ اور اور قیامِ نماز کا سہارا۔ یہ تو ہم سب پہلے سے ہی جانتے ہیں مگر COVID-19کے بعد ایک اہم سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ ہم انسان کی باڈی اور روح کے لیے قدرت کے بنائے ہوئے ان تین فارمولوں کو عملی طور پر کتنامانتے ہیں ؟ میں اس پر اپنی کوئی رائے پیش نہیں کر سکتا۔یہاں یہ سوال فوڈ فار تھاٹ کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ بہت عرصہ پہلے لاء آفس والی لائبریری میں با با کے ڈیسک پر ایک موٹی اور بھاری کتاب پڑی ہوئی دیکھی۔ اس کتاب کا ٹائٹل تھا ''کلیاتِ شورش‘‘۔ میں نے صرف ورق اُلٹنے پلٹنے کے لیے کتاب کا ایک صفحہ کھولا جس پر پرنٹ شدہ شعر میرے ذہن میں ہمیشہ کے لیے پرنٹ ہو گیا۔ یہ شعر تقریباً آج سے 50-60 سال پہلے آغا شورش صاحب مرحوم نے لکھا ہوگامگر آج کے کورونا وائرس منظر نامے پر 100فیصد فِٹ آتا ہے ۔
COVID-19کی عالمگیر وبا صرف ہمارے ملک تک محدود نہیں ہے‘ اس منظر نامے نے دنیا بھر کے بڑے بڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بڑی بڑی معاشی منڈیاں اُجڑ رہی ہیں۔ تھرڈ ورلڈ کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی بات کو رہنے دیتے ہیں‘اس وقت مارکیٹ اکانومی اور نظامِ سرمایہ داری کے بڑے بڑے بُرج بھی اُلٹ جانے پر مجبور نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں بیمار اور کمزور معیشتوں کا ہسپتال‘ ہم جس کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے نام سے جانتے ہیں‘ بھی بول اٹھا ہے۔ گزرے ہوئے ہفتے میں آئی ایم ایف نے گلوبل اکانومی کے حوالے سے دو اہم ترین تحقیقاتی جائزے پیش کئے‘ان میں سے پہلے جائزے کے مطابق پاکستان کو ان ملکوں میں شامل کیا گیا ہے جن کے ہاں معیشت کی بحالی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ دوسری جانب واہگہ بارڈر سے پار بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کووڈ19 پر قابو پانے کیلئے ایسے قدم اُٹھائے جن سے بھارت غربت کا قبرستان بنتا جارہا ہے۔ اس کے دو حوالے معاشی تفتیش کاروں کے خیال میں یوں ہیں:
پہلا حوالہ: بھارت میں کروڑوں لوگ بے روز گار ہو کر کُھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں۔شہری مزدور ‘دیہاڑی دار ڈیلی ورکرز سب روزی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ دوسرا حوالہ: بے ڈھنگے اور ظالمانہ لاک ڈائون کے نتیجے میں بھارت دنیا کا تیسرا ملک بن گیا ہے جو بے گناہ لوگوں کی اموات کی بد قسمت لائن میں سب سے آگے ہے۔ اس تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے کورونا وائرس والے فیصلوں کے نتیجے میں وائرس سے زیادہ بھارتی بھوک سے مر سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا حل نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کے دو بڑے ماہرین نے اگلے روز ایک ایسا جائزہ پیش کیا جس نے آئی ایم ایف کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔ آئی ایم ایف فِسیکل پالیسی کے چیف وائیٹر گیسپر اور آئی ایم ایف کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے مشترکہ بلاگ پوسٹ کی ہے جس کے اہم نکات آنکھیں کھول دینے کے قابل ہیں‘ خاص طور پر ان اندھا دھند تبصرہ کاروں اور سیاست کاروں کی آنکھیں جو بیمار معیشت کی ریکوری کے بارے میں اکّڑ بکّڑ تبصروں سے اپنے ہی ملک کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمیشہ سے قرض مانگنے والے ملکوں کو یہ پالیسی گائیڈلائن دیتا آیا ہے کہ وہ پبلک کے لیے گورنمنٹ کے فنڈز کا استعمال کم سے کم کریں ‘لہٰذا ہر مقروض کے ساتھ ڈائیلاگ کے دوران آئی ایم ایف کی جانب سے پبلک فنڈنگ پر کَٹ لگانا ٹاپ ایجنڈا آئٹم چلتا آیا ہے ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اب ایسا کیا ہوا ‘کیوں آئی ایم ایف نے اپنے اس ٹاپ ایجنڈا آئٹم کو پلٹا کے رکھ دیا۔ آپ اس پالیسی پر یو ٹرن کی وجہ جاننا چاہیں گے۔ آئیے پہلے آئی ایم ایف کے ان دو اعلیٰ عہدیداروں کے الفاظ دیکھ لیں:
Government spending will need to remain supportive and flexible until a safe and durable exit from the crisis is secured.
وجہ نمبر ایک1:آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرسٹ ریٹس میں ریکارڈ کمی آئی ہے ۔قرض کے نمبرز ایک طرف اور چھوٹے ملک بھی ایک طرف۔اس وقت بہت ایڈوانس معیشت والے ملکوں میں بھی خسارہ‘ COVID-19 سے پہلے کے اندازوں سے پانچ گُنا بڑھ گیا ہے۔
وجہ نمبر 2: ہیلتھ کرائسس اور کاروبار کے شَٹ ڈائون کے ذریعے کورونا وائرس کو روکنے کا جو طریقہ نکالا گیااس کے نتیجے میں 11ٹریلین یو ایس ڈالرز کی سپورٹ لوگوں کے گھر چلانے اور اداروں کے دیوالیہ ہونے سے روکنے پر خرچ ہو چکے ہیں۔
وجہ نمبر3: اس پبلک پالیسی رسپانس پر بھاری بھرکم اخراجات کے نتیجے میں پبلک ڈَیٹ تاریخ کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گیا ہے۔یہ سطح ہے گلوبل جی ڈی پی کے مقابلے میں 100فیصد سے بھی اوپر۔ان ماہرین کے مطابق گلوبل جی ڈی پی کو ایسا اضافہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
وجہ نمبر4: واشنگٹن میں کرائسس کے دوران قرض دینے والے سب سے بڑے ادارے نے تاریخی طور پر ہمیشہ حکومتوں کو کیش مارکیٹ میں لانے سے منع کیا ‘لیکن آج ان کی پالیسی سٹیٹ منٹ کہتی ہے:Urging officials to flood their countries with cash۔اس کے ساتھ ہی آ ئی ایم ایف کے ماہرین کہتے ہیں کورونا وائرس ہمیں دھوکا دے کر پھر حملہ آور ہوسکتا ہے اس لیے گلوبل لیڈرشپ کو ایسے ری بائونڈ کیلئے بھی تیار رہنا پڑے گا۔ 10جولائی 2020ء کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں پہلی بار قرض کو مرض بتایا گیا۔ چلئے آگے بڑھتے ہیں۔ آکسفیم بین الاقوامی ادارہ ہے ‘اس کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق معاشی بحران کورونا سے زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہوا۔خاص طور پر بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں معاشی بحران شدید تر ہو گیا ہے۔ساتھ ساتھ کچھ نئے ممالک پر بھی شدید بھوک کا خطرہ منڈلانے لگا ہے جن میں بھارت بھی شامل ہے۔اللہ تعالیٰ کا خاص کرم یہ ہو ا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کسی دبائو میں نہیں آئے۔ایک ہی وقت میں وبا اور غربت کے ساتھ نمٹ لینے کی شاندار پالیسی کی وجہ سے آکسفیم نے ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کو شامل نہیں کیا جہاں پہ ممکنہ معاشی بحران آنے کا خطرہ ہے۔
17مارچ اور21اپریل2020ء کو وزیر اعظم نے یہی موقف اپنایا ''اگر ہم شہر بند کردیتے ہیں تو ہم ایک طرف سے بچائیں گے کورونا سے‘ دوسری طرف یہاں لوگ بھوک سے مر جائیں گے‘‘۔پاکستانی ارسطو ‘سمارٹ لاک ڈائون کا مذاق اُڑاتے رہے۔ انٹرنیشنل ادارے اور کورونا کا فرنٹ لائن ملک چین عمران خان صاحب کی پالیسی سے کس قدر متاثر ہیں سُنئے پاکستان میں چین کے سفیر جناب یائو جِنگ سے۔ وہ کہتے ہیں ''40دن میں اسلام آباد میں آئسولیشن ہسپتال بننا معجزے سے کم نہیں۔میں وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں این سی او سی کے کمانڈ سسٹم سے بہت متاثر ہوااسی لیے پاکستان کو خطرناک وائرس کی روک تھام میں مدد ملی‘‘۔
آغا شورش کاشمیری مرحوم نے کہا تھا: 
ترس گئے ہیں نوا ہائے دل کُشا کے لیے
پکار وادیِ خاموش سے! خدا کے لیے 
پاکستان کے مستقبل پر سجے ‘اندھیرے فروشی کے بازار میں اُمید کا دیا جلانے کے لیے بو لئے۔دنیا نیوز کے کامران خان صاحب تو مشعل لے کر نکل پڑے ہیں۔شورش کی روح کامران خان پر راضی ہے۔ قائداعظمؒ اِن پر ضرور مسکرا رہے ہوں گے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved