10 جولائی 2020 کو ایک بار پھر وہ صدا فضا میں بلند ہوئی جسے 86 سال پہلے جبراً بلند ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ ایک ترک عدالت نے اپنے فیصلے سے وہ رکاوٹ مسمار کر دی جس نے آیا صوفیہ کو مسجد کا تشخص دینے سے روک رکھا تھا۔ ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت 'کونسل آف سٹیٹ‘ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ دستاویز کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس عمارت کو مسجد کے لیے مختص کیا گیا‘ اس لیے اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ترک حکومت نے یہ مناسب فیصلہ بھی کیا کہ مسجد کی حیثیت بحال ہونے کے باوجود یہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کھلی رہے گی۔ آیا صوفیہ کے بالکل قریب نیلی مسجد اس کی ایک مثال ہے۔ نمازوں کے اوقات میں جماعت قائم ہوتی ہے لیکن مسجد کا ایک حصہ سیاحوں کے لیے کھلا رہتا ہے۔ آیا صوفیہ سے اذان کی صدا بلند ہوئی تو اس تاریخی لمحے کا عینی شاہد بننے کے لیے بہت سے لوگ اس کے سامنے جمع تھے۔ اپنے قومی پرچم لیے بہت سے ترک اپنی دیرینہ خواہش پوری ہونے کے منتظر تھے۔ یہ لمحہ 86 برس کے بعد لوٹ کر آیا تھا۔
مسلمانوں نے 1453 میں صدیوں کی بد عہدیوں اور خلاف ورزیوں کے بعد بازنطینی سلطنت کی طرف سے صلح کے پیغامات مسترد کر دئیے تھے اور لڑ کر بے شمار شہادتوں کے بعد قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔ اس سے 217 سال پہلے، سپین میں جامع مسجد قرطبہ اور دیگر مساجد صلح کے معاہدوں اور وعدوں کے برخلاف زبردستی کلیساؤں میں بدل دی گئی تھیں۔ یہ زخم مسلمانوں کے دل سے کبھی گیا نہیں۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد آیا صوفیہ کو مسجد میں بدلنے کا اعلان کیا اور جمعہ کی نماز آیا صوفیہ میں ادا کی لیکن شبیہیں کھرچوائیں نہیں حالانکہ انہیں بہ آسانی ختم کیا جاسکتا تھا۔ انہیں رنگ کرکے چھپا دیا گیا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ استنبول میں آیا صوفیہ کے بعد دوسرا بڑا کلیسا یونانی کلیسا کے طور پر برقرار رکھا گیا۔ موجودہ ترکی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے‘ بیان کیا جا رہا ہے کہ اس مقدمے میں ترکی حکومت کے مؤقف میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ یہ جگہ سلطان محمد فاتح کی ذاتی ملکیت تھی جو اس نے مسجد کے لیے وقف کی تھی۔ اس کی تفصیل علم میں نہیں لیکن شاید اس سے مقدمے کا رخ بدل جاتا ہے۔ آیا صوفیہ اس کے بعد سے صدیوں تک مسجد رہی۔ 481 سال یہاں اذان بلند ہوتی رہی اور نمازیں ادا کی جاتی رہیں حتیٰ کہ کمال اتاترک نے 1934 میں اس کی مسجد کی حیثیت جبراً ختم کردی اور اسے میوزیم بنا دیا۔
مؤقف کئی طرح کے ہیں۔ باقی دنیا کی بات ایک طرف رہی، مسلم دنیا میں بھی اس بارے میں کئی ذہن پائے جاتے ہیں۔ ایک اکثریتی طبقہ وہ ہے جسے آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت بحال ہوتے دیکھ کر دلی خوشی ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں یہی حق تھا۔ ایک طبقہ وہ ہے جو خود کو سیکولر کہتے ہوئے بھی بدترین تعصب کا شکار رہتا ہے۔ اس طبقے کو ہندوازم، بدھ ازم، عیسائیت، یہودیت، قادیانیت وغیرہ کسی مذہب سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان سب مذاہب اور ان کے مذہبی پیشواؤں کا احترام اس کی تحریروں سے پھوٹا پڑتا ہے‘ سوائے اسلام اور مسلمانوں کے۔ کوئی مسجد میوزیم میں بدل جائے یا مسمار کردی جائے یا کسی ملک کا عدالتی فیصلہ اس کے خلاف آجائے تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ اس طبقے کا سیکولرازم اس سے اوپر نہیں جاتا۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اسلام اور مسلمان دشمن بہرحال نہیں‘ لیکن وہ کسی بھی مذہب اور عبادت گاہ کے ساتھ تعصب اور زیادتی کے خلاف ہے۔ ان کے ذہن میں آیا صوفیہ کے معاملے پر بھی یہ شکوک موجود ہیں۔
میں ان لوگوں میں ہوں جو موجودہ دور میں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کا تشخص اور حیثیت بدلنے کے خلاف ہیں۔ تاریخ کو ہم صدیوں کے بعد تبدیل نہیں کر سکتے، اس لیے اتنی دور ماضی میں جاکر ناانصافیوں اور غلطیوں کا ازالہ (اگر وہ واقعی ناانصافیاں اور غلطیاں ہیں) کسی فرد یا حکومت کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ ماضی کو برا بھلا کہنے سے بھی حال کو کوئی فرق نہیں پڑتا، چاہے آپ ساری عمر ایک ہی معاملے پر ٹویٹس اور سٹیٹس کے ڈھیر لگادیں۔ ممکن صرف یہ ہے کہ کوئی حکومت اور معاشرہ اپنے اختیار کے ساتھ کسی مذہب و مسلک کے ساتھ یا کسی عبادت گاہ کے ساتھ زیادتی نہ ہونے دے۔ خواہ وہ اکثریت ہو یا اقلیت۔
اکثریت اور اقلیت کا معاملہ بھی وہ خط عبور کرچکا ہے جسے خطِ اعتدال کہنا چاہیے۔ بہت سے معاشروں میں تو اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک ہے جہاں انہیں برابرکے انسانی اور شہری حقوق ملنا بھی عملی طور پر محال ہے خواہ وہ انہیں آئینی طور پر حاصل ہوں۔ دوسری طرف مسلم حکومتوں کا یہ بھی المیہ ہے کہ وہ بیرونی دباؤ کے تحت اکثریت کی خواہشات کو بھی پامال کرکے گزرتی رہی ہیں۔ وہ حقوق بھی اکثریت کو دینے سے انکار کردیا گیاجو انہیں آئینی طور پر حاصل تھے اور جن کیلئے ریاستیں بنائی گئی تھیں۔ اور سچ یہ ہے کہ اکثریت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف بہت کم کچھ کہا گیا ہے۔
ظلم چاہے اکثریت کے ساتھ ہو یا اقلیتوں کے ساتھ، ایک حد سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ وہی ہوتا ہے جو اب ترکی میں ہو رہا ہے جہاں اکثریت کی خواہشات کا بے دریغ قتل کیا گیا۔ آیا صوفیہ مسجد کو عجائب گھر میں بدل دیا گیا۔ تمام مسجدوں میں عربی زبان میں اذان پر پابندی لگادی گئی۔ رسم الخط بدل دیاگیا اورقوم اپنے تہذیبی ورثے سے مکمل محروم کردی گئی۔ روایتی اور دیرینہ لباس اتروا کر یورپین لباس پہنا دیاگیا اور یہی ترقی کا راستہ بتایا گیا۔ یہ اکثریت کے ساتھ وہ ظلم تھا جو انصاف کے نام پر روا رکھا گیا۔ کیا کوئی سوال کرسکتا ہے کہ رسم الخط کی تبدیلی، عربی اذان پرپابندی اور لباس کی تبدیلی سے ترکی نے کیا ترقی کی؟ کیا وہ اس عروج پر بلکہ اس کے عشرعشیر تک بھی پہنچ سکاجو اسے سلاطین عثمانی کے دور میں نصیب تھا؟
میں نے اوپر ذکر کیا کہ اس فیصلے پر شکوک و شبہات بھی موجود ہیں اور مؤقف بھی مختلف ہیں‘ لیکن کچھ سوالات میرے دل میں بھی ہیں۔ کیا ان پر توجہ مل سکے گی؟
1۔ اگر کسی عبادت گاہ کا تشخص بدل دینا جرم ہے اور عثمانی سلاطین اس کے مرتکب ہوئے تھے تو یہی جرم ترک انقلاب کے داعیوں کا بھی ہے۔ انہوں نے 481 سالہ مسجد کی حیثیت بدل کر عجائب گھر بنانے کا جرم کیوں کیا؟ 2۔ اگر آیا صوفیہ کی چرچ کی حیثیت میں بحالی ہی عدل و انصاف تھا تو یہ انصاف ان کے ممدوح کمال اتاترک نے کیوں نہیں کیا؟ اس انصاف کی رو سے اسے کلیسا کے بجائے عجائب گھر بنادینا کون سا عدل تھا؟ 3۔ کسی ملک کے باشندوں کا جبراً سرکاری طور پر صدیوں سے جاری رسم الخط، لباس اور مذہبی زبان بدل دینا کون سے سیکولر اصول کے تحت جائز ہے؟ 4۔ جو لوگ کسی معاملے پر یہ کہتے ہیں کہ یہ فلاں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ ہے، اس عدالت نے پوری تحقیقات کے بعد ہی نتائج نکالے ہوں گے، وہ اعلیٰ ترین ترک عدالت کے فیصلے پر نکتہ چینی کا کیا جواز رکھتے ہیں؟ 5۔ ایسے ہی لوگوں اگر یہ کہتے ہیں کہ فلاں ایشو کسی ملک کا داخلی معاملہ ہے اور باقی دنیا کو مداخلت کا حق نہیں تو آیا صوفیہ ترکی کا اندرونی معاملہ کیوں نہیں ہے؟ 6۔ مسجدِ قرطبہ سمیت اندلس کی تمام سابقہ مساجد کلیسا میں بدل دی گئی تھیں حالانکہ ان میں اکثر جگہ عیسائی قبضے کے وقت یہ معاہدے کیے گئے تھے کہ مسلم عبادت گاہوں کو برقرار رکھا جائے گا۔ جو دوست صرف 86 سالہ عجائب گھر کی بحالی کے حق میں ہیں‘ وہ ان سات سو سالہ مساجد کی بحالی کے بارے میں کب آواز اٹھائیں گے؟ 7۔ اگرکمال اتاترک 481 سال سے موجود مسجد کی حیثیت یہ سمجھتے ہوئے بدلنے کا حق رکھتے تھے کہ اسے مسجد بنانا غلط تھا، اور کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کی پروا نہیں کرتے تو موجودہ ترک حکمران 86 سالہ میوزیم کی حیثیت بدلنے کا حق کیوں نہیں رکھتے؟ کیا یہ حق 1934 کے بعد ختم ہوگیا؟ (جاری)