ایک بار پھر منتخب ایوان میلے اور کبڈّی کے میدان کا سماں پیش کرنے لگے ہیں۔ الزام تراشی ایک بار پھر عروج پر ہے۔ اور الزامات بھی ایسے بھونڈے کہ غور کرنے پر ہم بھانڈوں کو بھول جائیں! جب کوئی بھی معقول نقطۂ اختلاف نہ مل رہا ہو تب کسی بھی شخصیت کو اُس کے شخصی اوصاف کی بنیاد پر مطعون کرنا بھی ہمارے ہاں سیاست کے زُمرے میں رہا ہے۔ یہ ''تابندہ روایت‘‘ ہمارے اہلِ سیاست نے کبھی ترک نہیں کی۔ بہت سوں کے نزدیک میلے کی رونق اِسی تابندہ روایت کو مزید تابندہ بنانے کی مشق سے مشروط ہے!
حکومت کو قائم ہوئے دو سال ہونے کو آئے ہیں۔ اِس دوران کئی گھوٹالوں نے سَر اٹھایا ہے، بلکہ سَر چڑھ کر بولے ہیں۔ آٹے کے بحران میں عوامی مفاد گُندھ گیا۔ چینی کے بحران نے سَر اٹھایا تو عوام نے تلخی محسوس کی۔ پٹرول کم آگ لگاتا ہے، اُس کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل سے زیادہ آگ لگتی ہے۔ یہ تینوں بحران عوام سے کھیل چکے ہیں۔ چینی برآمد کرکے ملک میں اُس کی قیمت بڑھانے کا منصوبہ تیار کیا گیا اور اِس منصوبے پر اِس طور عمل ہوا کہ حکومت دیکھتی ہی رہ گئی۔ جب ہر شعبے میں مافیا کا راج ہو تو ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔ اور اگر معاملات کو لگام نہ ڈالی گئی تو ایسے تماشے ہوتے ہی رہیں گے۔
22 ماہ کے دوران عمران خان کی مخلوط حکومت کیا کر پائی ہے اور کیا نہیں اِس کا تجزیہ کرنا زیادہ دشوار نہیں۔ اگر آپ سوشل میڈیا کے دَھنی نہ ہوں‘ تب بھی بہت کچھ دیکھ اور پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت اب تک مجموعی طور پر ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی کا تجزیہ کئی زاویوں سے کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا گیا تھا۔ اس نعرے کا خوب غلغلہ رہا۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ تحریِکِ انصاف کی حکومت قائم ہوگی تو انقلاب برپا ہوجائے گا، سب کچھ درست ہو جائے گا، کرپشن کی ندیاں سُوکھ جائیں گی، بے ایمانی کے بازار کی ساری گرمی جاتی رہے گی اور پاکستان حقیقی معنوں میں مملکتِ خداداد ہو رہے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ سات عشروں کا بگاڑ محض دو سال کی سی قلیل مدت میں کیونکر ختم ہو سکتا تھا یا کیا جا سکتا تھا؟ عمران خان اول تو کھلاڑی ہیں۔ اگر کوئی انہیں حقیقی سیاست دان کہے تب بھی وہ اول و آخر سیاست دان ہی رہیں گے۔ وہ کوئی جادوگر تو ہیں نہیں کہ چھڑی گھمائی اور تمام معاملات کو اُن کی اصل ڈگر پر ڈال دیا۔ اور قوم نے تو چھڑی بردار جادوگر بھی ناکام ہی ہوتے دیکھے ہیں!
عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہیں خوشامدیوں نے گھیر رکھا ہے۔ درست مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کب نہیں تھا؟ کون تھا جس کے گرد خوشامدیوں کا ٹولا نہیں تھا؟ اگر خوشامدیوں نے عمران خان کو ناکامی سے دوچار کیا ہے تو کون ہے جو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے اور برسرِ عام اعلان کرے کہ اُس کا بھی یہی معاملہ نہیں تھا؟ دوسروں کی آنکھ میں تنکا تلاش کرنے والے اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
سوشل میڈیا نے عوام کو بہت حد تک آگہی دی ہے۔ اِس آگہی کو شعور تو قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اب تک صرف جاننے کی منزل تک پہنچے ہیں، سمجھنے اور کوئی نتیجہ اخذ کرنے کا معاملہ ابھی دور کی بات ہے۔ خیر، یہ منزل بھی کبھی نہ کبھی آ ہی جائے گی۔ جی! تو معاملہ یہ ہے کہ لوگ اب بہت کچھ جان گئے ہیں۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ کوئی بے سَر و پا بات کی جائے گی اور لوگ آنکھ بند کرکے یقین کرلیں گے۔ بے پَر کی اڑانے والوں کو عوام روک تو خیر نہیں سکتے مگر اُن کی باتوں کا بھونڈا پن اچھی طرح سمجھ ضرور سکتے ہیں۔ اور سمجھ بھی رہے ہیں۔ یہ فہم بھی عذاب ہی کی ایک صورت ہے۔ حکومت پر الزام لگانے والوں سے کوئی امید وابستہ رکھنا بھی بے عقلی کی علامت ہے۔ اُنہیں بھی تو کئی بار آزمایا جا چکا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو ناکام تو ہونا ہی تھا۔ اب سبھی کچھ حکومتوں کے ہاتھ میں ہوتا کب ہے؟ بہت کچھ ہے جو حکومتی دائرے سے باہر ہے اور خوب پنپ رہا ہے۔ غیر معمولی اثر و رسوخ رکھنے والوں نے اپنی ذاتی یا گروہی سلطنتیں قائم کر رکھی ہیں۔ کاروباری اداروں نے مل کر ایسے اجارہ دار گروپ بنا رکھے ہیں جو مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور معاملات کو اپنی مرضی کی سمت موڑ دیتے ہیں۔ معیشت کے اہم ترین شعبوں پر ان گروپوں نے قبضہ کر رکھا ہے یا سیدھے لفظوں میں کہیے کہ مافیاز نے معیشت کو نرغے میں لے رکھا ہے۔ یہ معاملات ایسے ڈھکے چھپے بھی نہیں کہ وزیراعظم کو دکھائی نہ دیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اُنہیں یہ معاملات پریشان نہ کرتے ہوں۔ اُن کی پریشانی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سی خرابیوں کو وہ خواہش کے باوجود روک نہیں سکے اور اب عوام کی نظروں میں مطعون ٹھہرے ہیں۔
آٹے اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ متعین کرنے کے معاملے میں وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کی ناکامی بالکل واضح رہی ہے مگر اِس بنیاد پر ہم وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کو ناکام نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ سب کچھ تو دوسری جماعتوں کے ہر دورِ حکومت میں بھی ہوتا رہا ہے۔ اب پٹرولیم مافیا بھی میدان میں ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ گرنے پر عوام کو جو فائدہ پہنچنا چاہیے‘ وہ دیر سے پہنچنے دیا گیا اور وہ بھی ایک خاص حد تک۔ پھر پٹرول مافیا سے صبر نہ ہوا تو اُس نے حکومت کو بائی پاس کرتے ہوئے من مانی کی اور قوم سے پھر وصولی شروع کر دی۔
حکومت کی پریشانی اور بدحواسی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی اپوزیشن کی بدحواسی بھی قابلِ دید و قابلِ داد ہے۔ پی پی پی اور نون لیگ دونوں ہی کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گی اور یہ کہ حکومت کو اپنی میعاد پوری کرنی چاہیے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ مطالبہ بھی ہے کہ ''مائنس ون‘‘ کا فارمولا حرکت میں لایا جائے یعنی عمران خان کو نکال باہر کیا جائے۔ خوب! بلکہ بہت خوب۔ گویا پی ٹی آئی عمران خان سے ہٹ کر کچھ ہے! عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کی کون سی حکومت بن سکے گی؟ اور اگر عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لیے یہ میلہ سجا بھی لیا گیا تو ملک و قوم کا کیا بھلا ہوگا؟ اس وقت ایک بیمار حکومت قائم ہے۔ وہ کچھ نہیں کر پا رہی تو اپاہج حکومت کون سے تیر مار لے گی؟
کورونا کی وبا کے آگے بند باندھنے کے نام پر قوم کو چار ماہ سے شدید الجھن میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ عالمی ایجنڈے کے تحت معیشت کو درگور کرنے کی کوشش اب بھی جاری ہے۔ ایسے میں حکومت پر کسی بھی ناکامی کا الزام عائد کرنا قرینِ دانش تو نہیں۔ عمران خان کے لیے اول تو مافیاز سے نمٹنا دشوار ثابت ہوا ہے اور رہی سہی کسر کورونا کی وبا نے پوری کر دی ہے۔ عمران خان ابتداء ہی سے لاک ڈاؤن کے خلاف رہے ہیں۔ اُن کا اختلاف بجا تھا۔ اب یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ لاک ڈاؤن نے قومی معیشت کی حالت دگرگوں کر دی ہے۔ دانش یہی کہتی ہے کہ اپوزیشن اِس وقت حکومت کی بساط لپیٹنے کی کوشش نہ کرے، اپنے جذبات قابو میں رکھے اور ملک و قوم کو ایک بار پھر نراجیت کی سی کیفیت سے دوچار نہ کرے۔ اگر عمران خان ناکام رہے ہیں تو ناکام کون نہیں رہا؟ پھر بھی سب اپنی میعاد پوری کرکے ہی ہٹے۔ عصری تقاضا ہے کہ حکومتی سطح کی اکھاڑ پچھاڑ سے گریز کیا جائے۔