بند کمرے کا اجلاس بلایا گیا تھا ‘ سیانے اور سمجھدار زعما ایک بڑے ڈرائنگ روم نما ہال میں موجود تھے‘ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہر اور تجربہ کار لیکن مختلف خیالات اور نظریات رکھنے والے ماہرین بلائے گئے تھے۔ اکثریت پڑھے لکھے پروفیشنلز کی تھی۔ شرکا میں پی پی پی‘ مسلم لیگ (ن)‘ عمران خان صاحب کے حامی اور معتدل رائے رکھنے والے ‘ یعنی سبھی قسم کے لوگ موجود تھے۔ اجلاس میں مدعو کیے جانے والوں کی اکثریت کوعلم نہیں تھا کہ اس بیٹھک کی وجہ تسمیہ کیا ہے‘ البتہ شرکائے محفل میں سے چند بڑوں کو بخوبی علم تھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔بڑے صاحب کا انتظار تھا‘ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئے سب اپنی نشستوں سے اٹھ کر احتراماً کھڑے ہوگئے۔ کورونا سے بچاؤ کیلئے کم وبیش تمام شرکانے چہروں پر ماسک چڑھائے ہوئے تھے۔ چند رسمی مکالموں کے بعد صدرِ محفل نے باری باری سب سے پوچھنا شروع کیا کہ بتایا جائے کہ ان کی نظر میں موجودہ حکومت جاری رہے گی یا پھر حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟ شرکانے باری باری اپنی رائے کا اظہار کیا اور تمام کے تمام شرکانے بتایا کہ حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔پھر پوچھا گیا کہ سول ملٹری تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ کیا بدگمانی پیدا ہوچکی ہے ‘ کیا دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہوچکے ہیں؟ جواب میں پھر تمام شرکانے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس بارے میں ایسی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ صدرِ محفل نے پوچھا کہ پھر یہ جو میڈیا میں ایک طوفان بپا ہوا ہے‘ جس میں مائنس ون اور نظام کو سمیٹے جانے کی خبریں پھیلائی جارہی ہیں ‘ان خبروں کا سورس کیا ہے؟ شرکا نے محتاط انداز میں اپنا اپنا تجزیہ بتایا اور سب کی رائے اس بارے میں مختلف تھی‘ لیکن اکثریت کا خیال تھا کہ حکومت کے کمزور ہونے اور وزیر اعظم کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا تاثر پھیلنے کا سبب کسی غیر نے نہیں بلکہ اپنوں ہی نے پھیلایا اور خاص طور پر ایسی وزارتوں میں مسائل زیادہ ہیں جہاں دو یا اس سے زیادہ اتھارٹیز ایک وزارت کو چلانے پر مامور ہیں۔ بظاہر تو وہ لوگ اپنی کارکردگی بڑھانے کے چکر میں اپنے دوسرے کولیگ کو نیچا دکھانے کے چکر میں حکومت کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں اور پھر دوسری کیٹیگری ان وزرا کی ہے جو اپنی وزارتوں پر توجہ دینے کی بجائے دوسری وزارتوں اور غیر نصابی سرگرمیوں پر زیادہ جان لڑاتے نظر آتے ہیں ‘جس کی وجہ سے حکومت کے اچھے اچھے اقدامات بھی منظرِعام پر نہیں آتے اور میڈیا میں زیر بحث موضوعات سے منفی تاثر ابھرتا ہے ۔لیکن شرکا کا خیال تھا کہ اس سارے منفی تاثر کی ذمہ داری میڈیا پر نہیں ڈالی جاسکتی‘ کیونکہ میڈیا کو کابینہ ارکان اپنی انفرادی پی آر کے چکر میں ایسا مواد فراہم کرجاتے ہیں کہ تعمیری اقدامات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ حکومتی بیانیے کے بجائے وزارتی اور انفرادی بیانیے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے تاکہ ان کی وزارتیں عہدے برقرار رہیں۔یہ بھی تجزیہ بھی آیا کہ بعض وزرا‘ مشیر اور معاونین اتنے تیز ہیں کہ ہمیشہ چکما دے جاتے ہیں اور تبدیلی آتے آتے رہ جاتی ہے۔
شرکاکے خیال میں حکومت کے بارے میں پھیلنے والے منفی تاثر کا دوسرا سبب اتحادی جماعتیں ہیں جو اپنے مسائل کے حل کیلئے میڈیا کا استعمال کرتی ہیں اور اتنا آگے چلی جاتے ہیں کہ حکومت کے گرنے اور اشاروں کا تاثر تقویت پکڑ جاتا ہے ۔پھر ایک طوفان برپا ہوتا ہے اور جب تک اس ڈیمیج کو کنٹرول کیاجاتا ہے بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے ۔ناتجربہ کار کابینہ اراکین اپنی نااہلی کی پردہ پوشی اور اپنا عہدہ بچانے کے لیے بند کمروں کے فیصلوں کو بیان کرنے میں قومی رازداری کے تقاضوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔ کابینہ کا آج تک ہونے والا شاید ہی کوئی اجلاس ایسا ہو کہ جس کی خبریں لیک نہ ہوئی ہوں۔
شرکائے محفل کھل کر اپنا اپنانقطہ نظر پیش کررہے تھے کیونکہ صدرِ محفل نے بیٹھک شروع ہونے سے پہلے ہی بتادیا تھا کہ جھجکنے کی ضرورت نہیں ‘جو گفتگو ہوگی وہ باہر نہیں جائے گی‘ موبائل فون ڈیوائسز پہلے ہی باہر جمع ہوگئی تھیں۔صدرِ محفل نے اگلا سوال داغا کہ اکانومی کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ جو شرکا معیشت کو کْچھ سمجھتے تھے انہوں نے فرمایا کہ اکانومی اچھی نہیں ہے ‘صدرِ محفل نے دلائل دے کر ثابت کیا کہ اکانومی پہلی بار اچھی ہونے جارہی ہے اور معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے پہلی بار ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں ‘ ملمع کاری نہیں کی جارہی۔صدر ِمحفل نے بتایا کہ آنیوالے دن ملکی معیشت اور عوام کیلئے اچھے ہوں گے اور معاشی اور کاروباری سرگرمیاں بڑھنے والی ہیں‘ خاص طور پر کنسٹرکشن انڈسٹری میں انقلاب آنے والا ہے۔ حکومت کا تعمیراتی شعبے کو دیا جانے والا پیکیج دوررس نتائج مرتب کرے گا‘ اس لیے اس حکومتی اقدام کو اجاگر بھی کرنا چاہئے اور سرمایہ کاروں کو بھی آگے آنا چاہیے۔ شرکائے محفل نے تائید میں سر ہلایا پھر کورونا صورتحال پر حکومتی اقدامات پر رائے لی گئی اور کہا گیا کہ اب ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ شرکا نے کورونا پر حکومتی اقدامات اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے کام کی تعریف کی اور تجویز دی کہ اس ادارے کو مستقل ہونا چاہیے تاکہ اس فورم سے مستقبل میں بھی استفادہ کیا جاسکے۔ صدرِ محفل نے بتایا کہ ہمیں مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی استحکام اس وقت قومی ضرورت ہے‘ اداروں کو برباد کرنے والوں اور ملک لوٹنے والوں سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور جو جاچکے ہیں انہیں واپسی کیلئے کوئی محفوظ راستہ نہیں ملے گا۔ احتساب عدالتوں کا قیام اگر بروقت ہوگیا تو نیب زدہ اکثر اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔
پھر چند شرکا نے سوال کیا کہ کابینہ میں تبدیلیاں کیوں نہیں کی جارہیں اور مسائل پیدا کرنے والوں کو فارغ کرنے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ جواب ملا کہ کوشش کی جارہی ہے‘ لیکن کوئی نہ کوئی بچانے کے لیے آجاتا ہے اور کچھ منت ترلا شروع کردیتے ہیں‘ لیکن صفائی ہونی ہے اور جلد ہونی ہے ۔تجویز آئی کہ وزیراعظم ایک ہی بار کابینہ تحلیل کریں اور نئی کابینہ تشکیل دی جائے اور ایک ہی بار تمام مسائل کو ایڈریس کیاجائے‘ پرابلم چائلڈز سے ون گو میں جان چھڑا لی جائے۔ کہا گیا کہ تجویز اچھی ہے‘ ایسا ہوجائے تو آئیڈیل ہوگا اور ایک تازہ دم کابینہ اگلے تین سال کام کرے ۔پھر تجویز دی گئی کہ تمام دانشور اور سوشل میڈیا پر ایکٹیو وزرا‘ معاونین اور مشیران کو ایک ٹاسک فورس میں جمع کردیا جائے جن کے ذمے بیمار صنعتی یونٹوں کی بحالی کا ٹاسک ہو۔ ایسے صنعتی ادارے اور کارپوریشنز جو قومی خزانے پر بوجھ ہیں ان کو منافع بخش بنایا جائے اس اقدام سے تمام دانشور وزرا اور معاونین کی مخفی صلاحیتیں کھل کر سامنے آجائیں گی۔ سب سے زیادہ اس تجویز کو سراہا گیا‘ صدرِ محفل نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے اقدامات کو اب عالمی سطح پر بھی پذیرائی مل رہی ہے‘ ستمبر میں آنے والا اقوام متحدہ کا اجلاس اور اس میں وزیراعظم کی تقریر اہم ہوگی ‘مقبوضہ کشمیر پر مودی سرکار کے اقدامات کو دنیا نے قبول نہیں کیا اور اس کا سہرا کشمیریوں کو جاتا ہے جو ہر روز اپنے جوانوں کا خون پیش کررہے ہیں۔ چین انڈیا تنازعے پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا۔
نشست طویل ہوچکی تھی‘ موضوعات ابھی باقی تھے‘ شرکا نے کہا کہ ایسی بیٹھکیں ہوتی رہنی چاہئیں تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں اور صورتحال کو سمجھنے کا بھی موقع ملتا رہے۔بالعموم یہ بات ایسی ہر بیٹھک میں ہوتی ہے‘ اتفاق کیا جاتا ہے لیکن پھر پرانی ڈگر پر چلنا شروع کردیتے ہیں‘ بہرحال نشست کا اختتام ہوا اورتمام شرکا نے اپنے اپنے گھروں کا رخ کیا اور دیگر شہر وںسے آنے والے ہوٹلوں کی طرف روانہ ہوگئے ۔دیکھتے ہیں کہ اس بیٹھک کے اثرات کب تک عمل پذیر ہوتے ہیں۔