مگر وہ آزادی کا احساس اور اس کی بے کراں مسرّت ۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہے کہ جب اور جس سمت چاہے ، آدمی گامزن ہو سکے ۔ کوئی مجبوری اور کوئی زنجیر نہ ہو ۔ حکم دینے والا کوئی نہ ہو اور کسی کی اطاعت نہ کرنی پڑے۔ بادشاہت بھی ایک چیز ہے مگر ایک چیز اس سے بھی بالا ۔ سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی مفکر محمد اسد کی خودنوشت ـ\"Road to Mecca\"کے دوسرے حصے میں ، جناب اکرام چغتائی نے ، مفہوم و معانی کی جہات سے ہم آہنگ ہو کر جس کا دل نواز ترجمہ کر ڈالا ہے ، علّامہ اقبالؔ سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے ۔ ذاتی دوستی کی نمود اور اس گہری طمانیت کا ، جو بالآخر فلسفی کو حاصل تھی۔ جس نے انہیں تاجدار بنا دیا تھا۔ تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں؟ غریبی میں نگہبانی خودی کی حتیٰ کہ ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل ۔ کچھ دن اس سوال پر ہم لوگوں نے غور کیا۔ ایک فوزیہ قصوری ہی نہیں ، دوسرے لوگ بھی ہیں ۔ انہی کی طرح ممتاز ، معتبر اور موثر ۔سیاسی ہنی مون کا زمانہ گزر جانے کے بعد 2014ء کے موسمِ بہار میں اگر مینارِ پاکستان پر ویسا ہی خیرہ کن اجتماع منعقد کیا جا سکے ؟ پھر اس امر کاجائزہ کہ موجودہ سیاسی پارٹیاں اپنے کارکنوں کی 90فیصد توانائی کس طرح برباد کر ڈالتی ہیں اور کس طرح اس سے بچا جا سکتاہے ؟ کچھ اور بنیادی مخمصے بھی ۔ خوش بختی سے ہمارا قبیلہ وہ ہے ، جس کے سارے سربلند اقتدار کی آرزو سے آزاد ہیں…تو! مناصب انہیں سونپ دئیے جائیں جو مستحق اور آرزومند ہوں ۔ ردا بُن لی گئی اور گل بوٹے جب کاڑھے جا چکے تو دفعتاً اس مردِ کامل نے یہ کہا ’’مگر آزادی سے بڑھ کر کیا کوئی دوسری نعمت بھی ہوا کرتی ہے؟‘‘ جہاں جہاں ہم موجود ہیں ، وہیں وہیں اپنے حصے کا چراغ جلا سکتے ہیں ، اس کھکھیڑ میں پڑنے کی ضرورت کیا ؟ غیر ضروری بوجھ کیوں اٹھایا جائے ؟ دوسروں کا حال وہ جانیں، جہاں تک اس ناچیز کا تعلق ہے ،پھر بہجت و شادمانی کا جو تجربہ ہوا، اس سے پہلے کبھی خواب تک میں دیکھا نہ سنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نادر العصر اسد اللہ خان کی بارگاہ میں ہوں اور لہک لہک کر وہ گارہے ہیں ۔ غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس برق سے کرتے ہیں روشن‘ شمع ماتم خانہ ہم نہ کوئی غم نہ کوئی شکوہ ، کوئی زخم نہ ملال۔ زمینوں اور ستاروں کے اس پروردگار کی قسم ، جس کے قبضہ ء قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے ، رتی برابر آزردگی بھی دیارِ دل کے کسی گوشے میں نہ پائی۔ ہاں! مگر یہ احساس کہ اپنے معاملات اب وہ خود سلجھائیں ۔ جو گرہیں اپنے مضبوط ہاتھوں سے وہ لگاتے رہے، اپنے دانتوں سے اب وہ خود کھولیں ۔ فتح و شادمانی کا پھر جشن مناتے پھریں۔ سایۂ ابر گریزاں سے مجھے کیا لینا ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں ایسا انبساط کبھی تھا ہی نہیں ۔ ناکامی کا ماتم تب ہو ، اگر اس سے واسطہ پڑا ہوتا۔ کیا تیسرا راستہ کھل نہیں گیا؟ کیا آج کی حکمران جماعت وہی ہے کہ جو کبھی تھی ؟ کیا وہ اسی طرح من مانی کرنے کے لیے آزاد ہیں ؟ کیا وہ اب بھی اپنے معززین کو مزارعوں کی طرح ہانک سکتے ہیں؟حتیٰ کہ مزارعین کی بھی کیا اسی طرح تذلیل کر سکتے ہیں ؟ چند برس میں اتنی ہی پیش رفت ممکن تھی ، جو ہو چکی ۔ قوموں کی تاریخ میں ایک آدھ عشرے کی حیثیت کیا؟ حادثے کو بہرحال رونما ہونا تھا کہ ہمارا تجزیہ بعض اعتبار سے نامکمل تھا۔ناقص کامل اعتماد کا نتیجہ ایک دن ہمیں بھگتنا تھا۔ قرآنِ کریم کی عظیم الشان اس آیت پر غور کیا توتھا: ایک چیز سے تمہیں کراہت ہوتی ہے ؛حالانکہ اس میں تمہارے لیے خیر پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ایک چیز سے تم محبت کرتے ہو ؛حالانکہ اس میں شر پوشیدہ ۔ معانی مگر اس کے اب کھلے ہیں اور الحمد للہ ایسے کھلے ہیں کہ سوا نیزے پرڈٹے، آفتاب کے چہار جانب بادِ صبا گاتی ہے‘ وہ الوہی گیت جو زندگی میں آدمی خال ہی سنتاہے اور جب سنتاہے تو سوچتا ہے کہ بہشتِ بریں کے نظارے کیا اس سے بھی سوا ہوں گے ؟ مضطرب ہوکر مخلص کارکن یہ کہتے ہیں : اس نیک دل خاتون سے تم بات کرو اور ان پتھر دل لوگوں سے ، جو درد کی شدّت میں بہہ نکلنے والے بے ساختہ آنسوئوں کی قدر و قیمت سے آشنا نہیں ۔ ان کے اضطراب کا احترام !بات ان خاتونِ محترم سے کی ہے ۔ صاف صاف اپنی رائے سے انہیں آگاہ کر دیاہے کہ سیاسی اژدہوں سے ازراہِ کرم دور رہیں ۔ وہاں تو دل کا قرار ہی لٹا۔ یہ وہ ہیں کہ ضمیر کی متاع بیچتے اور دوسروں کو بھی اسی کی ترغیب دیا کرتے ہیں ۔ پارٹی لیڈروں سے کیوں بات کی جائے ؟ قانون یہ ہے کہ بونے والے ہی کو کاٹنا چاہیے ۔ اوّل تو کیا یہ لازم ہے کہ داستان رقم کی جائے ؟ لکھی بھی تو پوری بات ابھی نہ لکھوں گا۔ اوّل اس لیے کہ کپتان کے زخم بھرے نہیں اور ہمدردی کا وہ حق دار ہے ۔برہمی کی ایک رمق بھی نہیں ، بے تعصبی مگر دیر تک سوچ بچار کا مطالبہ کرتی ہے ۔ اپنی ذات کی جس میں پوری طرح نفی کی جا سکے ، ہر فریق کا نقطۂ نظر پورے انہماک اور توجہ سے سماعت کرنے کا ۔ حتیٰ کہ صداقت عباسی ، حتیٰ کہ شاہ محمود اور ’’چیف جسٹس‘‘ حامد علی خان صاحب مدظلہ العالی کا بھی ۔ ترتیب جس جہاں کو دیا جاگ جاگ کر اب آنکھ بند کر کے اسے دیکھنا بھی ہے پھر وہ غلطیاں ، جس کے مرتکب ہم خود ہوئے ۔ کشتی بھٹک کر جب دوسرے کسی جزیرے کی طرف چل نکلی تو چشمِ نگراں کہاں تھی؟ کسی ترکش میں کوئی زخم نہ آتے دیکھا زخم دل میں تھا، خلش دل میں تھی، پیکاں میں نہ تھی فوزیہ قصوری کے آنسو سچے مگر ان سے میں یہ کہتاہوں کہ رکیے۔ آپ سے پہلے اس جنگل سے میں گزرا ہوں ۔ کم کوش اور بے خبر ہی سہی مگر جو اوّل ہو ، وہ بعد میں آنے والوں کی مدد ضرور کر سکتاہے ۔ آپ سے انہیں کوئی غرض نہیں ، پکارنے والوں کو ۔ وہ اپنی خوئے انتقام کی تسکین چاہتے ہیں ۔ آدمی پر اللہ اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کی رحمت دائم جاگتی رہتی ہے مگر اس کے لیے جو صبر پہ قائم رہ سکے ۔خود کو انہیں تاجروں کے ہاتھ نہ بیچ دینا چاہیے ۔ بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے فوزیہ نے جو کچھ گنوایا تھا، اس سے بہت زیادہ کمالیاہے ۔ بلّھے شاہ کی پڑوسن کو اندازہ نہیں ہورہا کہ دل جب ٹوٹتا ہے تو اس خرابے میں کیسے کیسے اور کتنے جہان آباد ہو چکنے کے امکانات جنم لیتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے دل ہی میں روشنی اترتی ہے ۔ اگر اسے تھام لیا جائے تو وہ دائمی ہو سکتی ہے ۔کیا وہ شام کبھی انہیں یاد آتی ہے ، جب کسی نے وہ دعائیں انہیں بتا دی تھیں ، جو ابوالقاسم ؐ کی زبان سے ادا ہو کر بابرکت ہوئیں اور بند دروازے لازماً اور بہرحال کھول دیا کرتی ہیں ۔ آدمی اگر اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اگر کھوٹا نہ ہو تو ایک در بند ہو نے پر سودروازے اس پر کھل جاتے ہیں ۔ ٹوٹے ہوئے دل کی قیمت خدا خود لگاتاہے ۔ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں پتھر دلوں کے باب میں خدا بے نیاز ہے ۔ تکبّر سے انہیں اپنی راہ چلنے دیتاہے کہ برباد ہوں اور عبرت کا نشان بن جائیں ۔ درد کی متاع تو وہ انہیں عطا کرتاہے ، جن پر کرم فرمانے کا اس نے ارادہ کر لیا ہو ۔ اقبالؔ کا دل کیسا تڑپ اٹھا ہو گا، جب فارسی کے مصرعے پر انہوںنے گرہ لگائی تھی ۔ بہ ملک جم نہ دہم مصرعۂ نظیریؔ را کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ما نیست (جسے زخم نہ لگا، وہ میرے قبیلے کا ہو نہیں سکتا) وہی تو در ہے جو صحرا کی سمت کھلتا ہے وہی تو سر ہے، جسے زانوئے جہاں نہ ملے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved