تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     14-07-2020

آیا صوفیہ: میوزیم سے مسجد تک

مجھے سیر و سفر کی غرض سے دنیا کے بہت سے ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے مگر ترکی پہنچ کر میں جتنا ''ایٹ ہوم‘‘ محسوس کرتا ہوں دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں کرتا۔ کئی برس پہلے جب میں پہلی مرتبہ ترکی ''سیاحت و صحافت‘‘ کے لیے بیگم کے ساتھ گیا تو ہم نے آٹھ دس روز ترکوں کی مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھایا اور کرائے کی گاڑی کو خود ڈرائیو کر کے صرف استنبول ہی نہیں‘ انقرہ تک کی سیاحت بھی کی۔ تب استنبول میں دو تین روز گزار کر ہمارا پہلا تاثر بہت دلچسپ تھا جسے میں نے اپنے سفرنامے ''کنارے کنارے‘‘ میں لکھا تھا۔ استنبول فی الواقع مشرق و مغرب کا سنگم ہے۔ یہاں اکل مشرقی اور شرب مغربی ہے‘ آواز مشرقی اور ساز مغربی ہے‘ اطوار مشرقی اور انداز مغربی ہے‘ چال مشرقی اور ڈھال مغربی ہے‘ زبان مشرقی اور لہجہ مغربی ہے اور سکارف مشرقی اور لباس مغربی ہے۔ غرضیکہ یہاں قدم قدم پر مشرق و مغرب گلے ملتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
اس وقت آیا صوفیہ کو بچشم ِخود دیکھ کر جو میرا احساس تھا اسے میں نے اپنی ڈائری میں یوں قلم بند کیا تھا - مسجد سلطان احمد کے عین سامنے ''آیا صوفیہ‘‘ ہے۔ یہ ایک عظیم عمارت ہے۔ ایسی بارعب عمارت کہ جسے دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اس عمارت کو بعض مصنفین و مورخین نے دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہاں بازنطینی عیسائی حکمرانوں نے کلیسا تعمیر کیا تھا۔ یہ کلیسا معبد کم اور بازنطینی سلطنت کا مرکز زیادہ سمجھا جاتا تھا۔ کلیسا کو سلطان محمد فاتح نے ترمیم و اضافہ کر کے 1453 میں فتح استنبول کی یاد میں مسجد بنا دیا۔ اس مسجد سے تقریباً پانچ صدیوں تک دن میں پانچ مرتبہ اذان بلند ہوتی رہی۔ 16ویں صدی عیسوی میں ایک ترک ماہرِ تعمیرات سنان اعظم نے مسجد میں تزئین و تجمیل کا کام نہایت عمدگی سے انجام دیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جدید ترکی کے بانی اتاترک نے 1934 میں مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا اور یہاں ربِّ ذوالجلال کے حضور جبینِ نیاز جھکانے پر پابندی عائد کر دی۔ جب پندرہ بیس برس قبل ہم آیا صوفیہ گئے تو ایک طرف اللہ‘ رسولؐ‘ چاروں خلفاؓء اور امام حسنؓ و امام حسینؓ کے نام دیواروں پر نظر آتے تھے اور اُن کے ساتھ ساتھ ٹائیلوں سے بنی ہوئی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی تصویریں اور مجسمے دکھائی دیئے تھے۔ ہم اس وقت کوئی بہت زیادہ دقیق تحقیق نہیں کر سکے تاہم سرسری مطالعے سے جو معلومات حاصل ہوئیں اُن کے مطابق 1924 میں برسراقتدار آکر کمال اتاترک نے 1930 میں مسجد کو مقفل کرا دیا اور اس دوران نہایت کوشش کے ساتھ مسیحی تصاویر اور آثار کو نمایاں کروایا گیا جو پلستر اور پینٹ کے نیچے چھپ گئے تھے۔
اب 86 برس کے بعد 10 جولائی بروز جمعتہ المبارک ایک ترک عدالت کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اسی روز میوزیم کے ٹائٹل کو بدل کر اسے ایک بار پھر مسجد میں بدل دینے کے صدارتی احکامات جاری کر دیئے ۔ اس اعلان پر ترکوں کی اکثریت نے سجدئہ شکر بھی ادا کیا اور علی الاعلان ترکی میں جشن بھی منایا۔ اسی طرح اکثر اسلامی ممالک میں بھی مسجد کی واپسی پر مسرت و بہجت کا اظہار کیا گیا ہے۔ جہاں تک مغربی دنیا کا تعلق ہے تو وہاں کے کئی اداروں اور شخصیات کی طرف سے اس عدالتی فیصلے پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وہاں کے چرچ لیڈرز نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیسکو کے تحت ایک میوزیم کے عالمی ورثے کی مسجد میں تبدیلی بالکل مناسب نہیں۔ امریکی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مقام بازنطینی عیسائیوں اور سلطنت عثمانیہ کا یادگار ورثہ ہے۔ دنیا بھر سے ترکی آنے والے اکثر سیاح آیا صوفیہ ضرور وزٹ کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ویٹی کن سٹی سے پوپ فرانسس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے سے انہیں بہت دکھ پہنچا ہے۔ پوپ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ اپنا دکھ درد ترک حکمرانوں تک پہنچا رہے ہیں۔ یونان آیا صوفیہ کا خود کو وارث سمجھتا ہے۔ یونان کے آرتھوڈکس چرچ کے آرچ بشپ اور یونانی کلچرل وزیر نے بھی اس فیصلہ پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور اسے ''مہذب دنیا‘‘ کو طیش دلانے والا فیصلہ قرار دیا ہے۔ یونان کے وزیراعظم نے ترکی کے فیصلے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف ترکی اور یونان کے تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے بلکہ ترکی اور یورپین یونین‘ یونیسکو اور عالمی کمیونٹی کے درمیان بھی تعلقات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے اس لیے ترکی کو چاہئے کہ وہ میوزیم کو بحال رہنے دے۔ روس کے آرتھوڈکس چرچ نے بھی اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ تقریباً ساری دنیا میں پھیلے ہوئے 30 کروڑ آرتھوڈکس عیسائیوں کے روحانی سربراہ بارتھالومیو نے کہا کہ مسیحی دنیا کو اس فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے۔ 
اردگان نے واضح کیا کہ ہم اپنی خودمختاری پر کسی طرح کا کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں۔ اردگان نے کہا کہ جو اپنے ملکوں میں اسلاموفوبیا کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتے وہ ترکی کو اس کی مذہبی خودمختاری سے محروم کیوں کرنا چاہتے ہیں۔
مجھے اس معاملے کی شرعی و فقہی حیثیت کا مکمل ادراک نہیں تاہم میں نے بعض علمائے کرام کی آراء معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترک عدالت کے سامنے سوال صرف اتنا تھا کہ کیا کمال اتاترک کو ملکیت رکھنے والی ایک آباد مسجد کو میوزیم میں بدل دینے کا اختیار تھا یا نہیں؟ عدالت نے کئی سال کی تحقیق و تفتیش کے بعد یہ فیصلہ دیا ہے کہ انہیں ایسا کرنے کا ہرگز اختیار نہیں تھا اس لیے میوزیم سے مسجد واگزار کرائی جائے۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ 900 برس تک استنبول میں قائم رہنے والے کلیسا کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حق سلطان محمد فاتح کو حاصل تھا یا نہیں۔ کتب فقہ میں موجود مفصل بحثوں کا خلاصہ میں یہ سمجھا ہوں کہ فتح ہونے والے علاقوں میں اسلامی ریاست پر صلح کے ذریعے طے شدہ شرائط کی پابندی لازم ہوتی ہے جیسے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب کے دورِ خلافت میں صلح سے فتح ہونے والے بیت المقدس میں مسیحیوں کے مقاماتِ مقدسہ کو برقرار رکھا گیا۔ بزورِ قوت فتح ہونے والے ممالک کے بارے میں فقہا کی ملی جلی آراء ہیں۔ بعض کے نزدیک مفتوح قوم کی تمام عبادت گاہوں کا تقدس برقرار رکھا جائے اور بعض کے خیال میں مسلمان فاتح کو اُن پر تصرف کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ بعض علماء کی رائے میں بزورِ شمشیر فتح ہونے والے ممالک میں مفتوح قوم کی عبادت گاہوں کا برقرار رکھا جانا تالیف قلب کے طور پر افضل ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول اللہﷺ نے اہلِ خیبر کے ساتھ معاملہ کیا تھا اور خلفائے راشدین نے اپنے مفتوحہ ممالک میں کیا تھا۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ کیا مسجد آیا صوفیہ کی تقریباً پانچ سو سالہ تاریخ میں عیسائیوں نے سلطنت ِعثمانیہ کی کسی عدالت سے اپنا کلیسا واگزار کرانے کی درخواست کی تھی یا نہیں۔ اگر آج 1500 برس کے بعد ترکی کی عدالت میں کلیسا کی واپسی کے لیے درخواست دائر کی جاتی ہے تو اس کا فیصلہ کیا ہو گا؟ جناب طیب اردگان سے یہ بیان بھی منسوب ہے کہ انہوں نے کہا کہ پندرہ سو سال پرانا آیا صوفیہ مسلمانوں‘ عیسائیوں اور ٹورسٹوں کے لیے کھلا رہے گا۔ اسلام کی عالی ظرفی اور تالیف قلبی سے کام لیتے ہوئے اگر طیب اردگان آیا صوفیہ کا ایک حصہ عیسائیوں کی عبادت گاہ کے طور پر مختص کر دیں تو اس سے ایک تو عالمی شوروغوغا اور تنقید کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ نیز غیرمسلم ممالک میں مساجد اور اسلامی مراکز اور اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی تقویت ملے گی۔ اور مسلمان مغربی دنیا میں ہر طرح کے معاندانہ رویے سے محفوظ رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved