تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-07-2020

دیپک کا دیپ بُجھ گیا

ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ایک آئین توڑ کر اقتدار پر قابض ہوئے اور پھر ایک نیا آئین لکھوایا۔ نیا آئین ان کی خواہشات اور ضروریات کے پیش نظر مرتب کیا گیا تھا‘ مگر لطیفہ یہ ہے کہ جب اقتدار کا سورج غروب ہوا تو ایوب خان نے خود اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے آئین کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور آئین کے مطابق اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کو سونپنے کی بجائے یحییٰ خان کو منتقل کر دیا۔ جو شخص آئین توڑ کر اقتدار میں آیا وہ آئین کو دوسری بار توڑکر مسندِ اقتدار سے نیچے اُتر گیا۔ اقتدار تو فانی چیز ہے‘ آج ہے تو کل نہیں۔ نہ مل جانے سے بڑا زلزلہ آتا ہے اور نہ چلے جانے سے کوئی قیامت ٹوٹتی ہے۔ اصل اور بڑا اور ناقابلِ تلافی نقصان ہمارے ملک کو پہنچا جو دوسرے آمر کے دورِ اقتدار کے دو سال بھی برداشت نہ کر سکا اور دسمبر 1971 میں دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ عظیم المیہ رونما ہونے سے برسوں پہلے ماسوائے ایک شخص کے کسی کو بھی ایوب خان کے بنائے ہوئے آئین کے خلاف آواز اُٹھانے کی توفیق نہ ہوئی اور وہ بہادر شخص تھا حبیب جالب۔ جب صحافیوں اور وکلا کی اکثریت بے حس و حرکت بیٹھی تھی‘ اُس دور میں حبیب جالب کی آواز گونجی۔ دستور کے عنوان سے لکھی نظم کا پہلا ایک چوتھائی حصہ یہ تھا۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کومیں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
آپ پہلے مصرع کا پہلا لفظ ملاحظہ فرمائیں۔ جالب نے دیپ کا لفظ سنسکرت زبان سے لیا۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کا ترجمہ ہے دیا یا چراغ۔ کالم نگار نے آکسفورڈ اُردو لغات سے رجوع کیا اوردیپ کا مطلب پڑھا تو حیرت ہوئی کہ چراغ سے ملتے جلتے ایک پھول کا نام بھی دیپ ہے (جو چمپا کا ہم معنی ہے) اور علم ِنباتات میں اس کا نام ہے Michelia champaca جیسے سفیدی مائل نارنجی پھول لگتے ہیں۔ مندرجہ بالا سطور لکھنے کا واحد جواز جو شاید میرے قارئین کیلئے معقول نہ ہو‘ یہ ہے کہ آج کا کالم جس دانشور کے بارے میں لکھا جائے گا اُس کا پورا نام تھا: دیپک کمار لال۔ ظاہر ہے کہ دیپ اُن کا ماخذ ہے۔ وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو برطانیہ کے سب سے بڑے اخبار The Times نے ماہ جون کے آخر میں اُن پر ایک تعریفی اور تعزیتی مضمون شائع کیا۔ دیپک 3 جنوری 1940 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور 30 اپریل کو لندن میں اسی برس کی عمر میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئے۔ وہ ساری عمر اس تعلق کا اُسی فخر سے ذکر کرتے رہے جس کی سرزمینِ لاہوراپنے ہر فرزند سے توقع رکھتی ہے ۔اسی کی دہائی میں میرا ایک بیٹایونیورسٹی کالج لندن میں پڑھتا تھا‘دیپک وہاں معاشیات کے پروفیسر تھے‘ میری اُن سے صرف ایک مگر سیر حاصل اور یادگار ملاقات ہوئی۔ پروفیسر کے ساتھ لاہوری پنجابی میں بے تکلفی سے کھل کر گفتگو میں میں نے پروفیسر صاحب کو بصدادب کہا کہ اگرچہ میں علم و دانش میں اُن کا عشرِ عشیر ہوںمگر میں اُن کے نظریات اور افکار سے اتنا شدید اختلاف رکھتا ہوں کہ اگر اُن کی جنم بھومی لاہور نہ ہوتی (جہاں کالم نگار کی رفیقہ حیات کا آبائی گھر ہے) تو میں اتنے ذوق و شوق سے تین گھنٹے کا سفر کر کے اُنہیں ملنے ہر گز نہ آتا۔ ملاقات ختم ہوئی تو میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب تو کوئی شک و شُبہ باقی نہیں رہا کہ ہمارے درمیان بعد المشرقین ہے اور زندگی میں دوبارہ ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ وہ روایتی پنجابیوں کی طرح زور سے ہنسے اور مجھے گلے لگایا اور کہا کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اس لئے سورگ جانے کی اُمید رکھتا ہوں‘ اگر آپ بھی وہاں پہنچ جانے میں کامیاب رہے تو پھر خوشگوار ملاقات ہوگی۔ 
اگست 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو دیپ کمار اپنے خوشحال والدین کے ساتھ لاہور سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اور رشتہ داروں کے دیئے گئے عطیات کی بدولت اُنہیں ہندوستان کے سب سے مشہور پرائیویٹ سکول اور پر دہلی کے St. Stephen's College(جو جنرل ضیا الحق کا بھی مادر علمی تھا) میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ ہونہار بروے کو اس کالج میں اپنے چکے چکنے پات دکھانے کا پہلا موقع ملا۔ اُس نے تین سال کا ڈگری کورس دو سال میں مکمل کر لیا۔ اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے وہ ٹاٹا فائونڈیشن کا وظیفہ لے کر آکسفورڈ چلا آیا۔PPE(فلسفہ‘ معاشیات‘ سیاسیات) پڑھے اور یہاں بھی کمال کر دکھایا اور تین سال کا کورس دو سالوں میں مکمل کر لیا۔ بھارتی فارن سروس میں چند سال ملازمت کرنے کے بعد وہ چھٹی لے کر پھر آکسفورڈواپس آئے اور BPhil کی ڈگری حاصل کی۔ جب آکسفورڈ یونیورسٹی نے اُنہیں تدریسی ملازمت (بطور لیکچرر) کی پیش کش کی تو اُنہوں نے جھٹ قبول کر لی اور فارن سروس کو خیر باد کہہ دیا۔ آکسفورڈ میں سات سال پڑھانے کے بعد وہ اپنی امریکی بیوی کو لے کر دہلی چلے گئے جہاں انہیں ایک بڑا عہدہ دیاگیا‘ مگر سرکاری ملازمت اُنہیں پہلے کی طرح راس نہ آئی اور وہ لندن واپس آگئے جہاں وہ 1984سے 1991 تک پروفیسر رہے۔ بقیہ زندگی عالمی اداروں کے ساتھ بطور مشیر کام کرتے گزری۔ وہ 40 کتابوں کے مصنف تھے۔اُن کے تین گھر تھے وسطی دہلی‘ مغربی لندن اور جنوبی فرانس جہاں اُنہوں نے زندگی کے آخری 20سال لکھنے پڑھنے‘ موسیقی سننے اور سورگ کے خواب دیکھنے میں گزارے۔ خوش لباس‘ خوش گفتار‘ خوش شکل اور خوش مزاج‘ یہ ساری خوبیاں اپنی جگہ مگر کالم نگار کی نظر میں (جو یقینا سند کا درجہ نہیں رکھتی) اُن کی دو نظریاتی خامیوں نے اُن کی تمام ذہنی خوبیوں اور عقلی کمالات کو خاک میں ملا دیا۔ پہلی خامی یہ تھی کہ وہ برطانوی نوآبادیاتی راج کی برکتوں کے ہمہ وقت گن گاتے رہتے تھے۔ اُنہیں برٹش راج کا ایک بھی منفی پہلو مثلاً عوام دشمن معاشی پالیسی کے ذریعے پانچ بار قحط پیدا کرنے اور 20 لاکھ کے قریب افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری نظر نہ آتی تھی۔ وہ 2002 میں ایک فورم کی دعوت پر لیکچر کیلئے بلائے گئے تو اُنہوں نے اپنی تقریر اُس خط سے شروع کی جو افریقی ملک کیمرون کے دو بڑے قبائل سرداروں نے 1881 ء میں برطانوی وزیراعظم William Gladstone کو لکھا تھا جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ اُن کے ملک کو برٹش راج کا حصہ بنایا جائے چونکہ صرف وہی امن و امان قائم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ مکتوب نگاروں کا ملک خانہ جنگی کا شکار تھاجس طرح ہندوستان مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں۔ فدویان نے گزارش کی کہ سفید فام فوج اُن کے ملک پر قابض ہو جائے تو وہ امن و انصاف کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور مغربی تہذیب اور مسیحی مذہب کی بالادستی سے فیض یابی کی دوسری خامی یہ تھی کہ دیپک کمار مارکیٹ اکانومی کو الہامی کتابوں کی طرح مقدس درجہ دیتے تھے۔ وہ ریاست کی مداخلت اور مثبت کردار کی ادائیگی کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ 
جب ہماری اکلوتی ملاقات ہوئی تو میں نے پروفیسر صاحب کی توجہ ناروے‘ سویڈن‘فن لینڈ اور ڈنمارک جیسی فلاحی مملکتوں کی طرف دلانے کی ناکام کوشش کی جو جمہوریت اور اشتراکی نظریات کے درمیان بہترین توازن کی زندہ مثالیں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس مہلک بیماری نے دیپک کمار کی جان لی اُس کاسدباب اور تدارک صرف ریاستی سطح پر کیا جا رہا ہے اور کیا جا سکتا ہے۔ غالباً اُنہیں بسترِ مرگ پر اس سچائی کا ادراک تو ہوا ہوگا مگر تب دیر ہو چکی تھی۔ دیپک کی کامیاب زندگی کا چراغ ٹمٹایا اور بجھ گیا۔ نہ دیپ رہا اور نہ دیپک ۔ اب وہ اپنی ''سورگ‘‘ میں آرام سے بیٹھے اپنے ایک کڑے نقاد کا انتظار کر رہے ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved