کورونا لاک ڈائون کے آشوب سے نکلنے کے بعد قومی سیاست کے تالاب میں ایک بار پھر اضطراب کی لہریں اٹھنے لگی ہیں اور اس ناقابلِ پیش گوئی ماحول میں بھی مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی ملاقاتوں کو اہمیت دے کر ایوانِ اقتدار میں بڑی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں کرنے میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں جمہوری نظام کو ہمہ وقت غیر معمولی تغیرات کے لئے تیار رکھا جاتا ہے لیکن فی الحال کسی وسیع تبدیلی کے امکانات بعید از قیاس ہیں۔ البتہ ہمارے پالیسی سازوں کو فی الوقت سیاسی ماحول پہ چھائے جمود کو تحلیل کرنے اور سیاست کے کھیل میں کسی بنیادی ردّ و بدل کی راہ ہموار بنانے کی خاطر ایک خاص قسم کی سیاسی ہلچل ضرور درکار ہو گی تاکہ اسی جدلیات کی دھند میں قومی سیاست کے وجود سے لپٹے مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات کے علائم کو جدا کیا جا سکے۔ لاریب ہماری مقتدرہ درجنوں برسر پیکار گروہوں کو ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فن سیکھا دیتی ہے، بالغ النظر سیاستدان کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمن بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ کورونا لاک ڈائون، نئی کشمیر پالیسی، مالیاتی سال دوہزار بیس- اکیس کے بجٹ کی منظوری اور اسلام آباد میں مندر تعمیر کرنے کی ڈپلومیسی سمیت قومی سیاست کے فرسودہ نظام میں چند بنیادی تبدیلیوں لانے کی خاطر پی ٹی آئی، مسلم لیگ اور پی پی پی کے مابین کامل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ صحت مند سیاسی مقابلہ کے فطری رجحان اور تمام تر روایتی سیاسی اختلافات کے باوجود سیاست کا یہی تال میل ان تینوں سیاسی جماعتوں کی بقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت اپنی حتمی سوچ میں آخرکار عوامی آرزوئوں کی تسکین کے بجائے ریاست کے وسیع تر مقاصد کا آلہ کار بننے کو ترجیح دیتی ہے۔ معمول کے سیاسی وظائف کی تکمیل کے لئے مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف نے بھی بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ کر کے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد بارے مشورہ ضرورکیا لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں فی الحال پی ٹی آئی حکومت کو گرانے پہ متفق نہیں ہو سکیں گی۔ پنجاب میں جڑیں رکھنے والی نواز لیگ اپنے پالیسی امور میں گہری تفریق اور داخلی تضادات کی وجہ سے قدرے مضمحل ہوکے کچھ پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہو گئی، سپریم لیڈر نواز شریف اور ان کی جانشین مریم نواز کی مقتدرہ کے ساتھ ٹکرانے کی پالیسی پارٹی ہرارکی کے اندر زیادہ حمایت حاصل نہ کر سکی‘ اس لئے تھک ہار کے نواز شریف کو رضاکارانہ جلا وطنی اور مریم نوازکو زبان بندی قبول کرنا پڑی، ہرچند کہ پارٹی کے اندر شہباز شریف کی مفاہمانہ سوچ کو مناسب پذیرائی ملی لیکن ان کی سیاسی حکمت عملی بھی برگ و بار لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ساری نیاز مندیوں کے باوجود پارٹی کی فعال قیادت پہ مقدمات کا دبائو کم ہوا نہ قومی سیاست میں مسلم لیگ کو توانا رول ادا کرنے کی گنجائش مل سکی۔گویا نواز لیگ مجموعی قوت کو مرکزی نقطہ پہ مجتمع کر کے اپنی سیاسی نشو و نما ممکن نہیں بنا سکی، اس لئے اب وہ بے یقینی اور تذبذب کی تاریکیوں میں ہچکولے کھاتی نظر آتی ہے۔ افسوس کہ ملک کی سب سے زیادہ مقبول جماعت اپنی ہی حکمت عملی کے خم و پیچ میں الجھ کے اقتدار تک رسائی پا سکی نہ موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے قابل ہوئی۔
دوسری طرف دو ہزار اٹھارہ کے بندوبست کی مین بنیفشری ہونے کے ناتے پیپلز پارٹی روز اول ہی سے ایوانِ اقتدار اور اپوزیشن بینچوں کے مابین جھولتی نظر آتی ہے، بلاشبہ پی پی پی نے سندھ جیسے بڑے صوبہ میں اقتدار سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پہ بلاول کی پرموشن کے گداز عمل کو نہایت باریک بینی سے پروان چڑھایا، انہوں نے مقتدرہ کے ساتھ نہایت مہارت کے ساتھ معاملات طے کر کے ایک موثر جدلیاتی عمل کے ذریعے وفاقی حکومت کو سہارا دینے کے علاوہ اپوزیشن کو بھی انگیج رکھنے میں کامیابی پائی، مقبولیت میں بتدریج کمی کے باوجود اسی سودا بازی کی صلاحیت کے باعث پیپلز پارٹی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں قابلِ لحاظ اکثریت اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں دو تہائی نمائندگی حاصل کر کے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم بنا لیا۔ آصف علی زرداری اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ ریاستوں کا عالمی نظام اب اس قدر مربوط اور طاقتور ہو چکا ہے کہ انہیں کسی عوامی تحریک کے ذریعے جھکانا یا کسی انقلابی جدوجہد کے ذریعے اقتدار سے الگ کرنا ممکن نہیں رہا، اس لئے کانفلیکٹ مینجمنٹ کے ذریعے پیش قدمی کر کے ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا جا سکتا ہے اور شاید اسی لئے انہوں نے روایتی طور طریقے ترک کے اقتدار تک پہنچنے کا یہی محفوظ راستہ اختیار کیا؛ تاہم اس مقصد کے حصول کے لئے انہیں اپنے نظریات اور اصولوں سے دستبردار ہوکے خالصتاً پیشہ ورانہ طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت پڑی۔ بلاشبہ کسی زمانہ میں خوبصورت نصب العین ہی سیاسی طاقت کے حصول کا بنیادی وسیلہ تھا لیکن وقت کے ساتھ جب عام لوگوں پہ یہ راز کھل گیا کہ سیاست اور کاروبار میں نصب العین ہمیشہ چھپی ہوئی آرزوئوں کا معقول لباس ہوتا ہے تو اس جدلیات کی کشش از خود کم ہوتی گئی۔
بہرحال، اٹھارہویں ترمیم سمیت کچھ معاملات میں گہرے اختلافات کے باوجود اس وقت بھی پیپلز پارٹی موجودہ سسٹم کو چلانے میں بھرپور تعاون کر رہی ہے اور بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ وہ ہر صورت عمران خان کو پانچ سال پورے کرانے کی سیاسی حکمت عملی کو جلد تبدیل نہیں کرے گی، عزیر بلوچ کیس میں جے آئی ٹی کی رپوٹ کے مندرجات کو افشاکر کے پیپلزپارٹی پہ دبائو تو برھایا جائے گا لیکن اس حد تک نہیں جایا جائے گا کہ پیپلز پارٹی جیسی عوام میں جڑیں رکھنے والی جماعت ہاتھ سے نکل جائے، اس لئے حالیہ کشمکش سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ اس گھٹن زدہ سیاسی ماحول میں کچھ ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاستدان ماضی کی غلطیوں کی تلافی کے لئے اپنی سوچ اور طرزِ عمل پہ نظر ثانی کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔ لاریب مقتدرہ نے انہیں اُس وقت ٹریپ کر کے اپنی پوری قوت ایک بے مقصد مہم میں جھونکنے پہ آمادہ کر لیا تھا جب وہ انتخابی شکست اور بدعہدیوں کے زخم کھانے کے بعد شدید صدمہ کی حالت میں تھے، مولانا نے غلط وقت پہ دھرنے کا فیصلہ کرکے اپنی عمر بھر کی سیاسی متاع کو دائو پہ لگانے کے علاوہ اپوزیشن کی اجتماعی قوت کو ناقابل تلافی ضعف پہنچایا، جس کا تدارک اب ممکن نہیں ہو گا۔ انہیں آصف علی زرداری سمیت میاں شہبازشریف نے اس وقت بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کو کچھ وقت دیں لیکن‘ انہیں اس دلدل میں کھینچنے والوں کے اشارے، ان مخلصانہ مشورں سے زیادہ پُرکشش ثابت ہوئے، اس لئے مولانا نے اپنے جذباتی نصب العین کی تکمیل کی خاطر اپنی پوری سیاسی قوت کو بے مقصد مہم جوئی میں جھونکنے سے گریز نہ کیا، مولانا اگر جلدی نہ کرتے تو اب عمرانی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد کا بہترین وقت تھا لیکن افسوس کہ اِس وقت مولانا فضل الرحمن کے پاس میدان میں نکلنے کی قوت باقی بچی نہ اپوزیشن اس قابل رہی کہ وہ کوئی موثر مزاحمتی تحریک برپا کر سکے۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن اب پولیٹکل ڈپلومیسی کے سہارے اپنی بارگینگ پوزیشن بہتر بنانے کے علاوہ طاقت کے مراکز کے ساتھ اپنے معاملات درست کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن اب شاید انہیں حصول مقصد میں پوری کامیابی نہ مل سکے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اگر کوئی کرشمہ رونما نہ ہوا تو تمام اپوزیشن جماعتیں سایوں کی طرح ابھرتے مٹتے امکانات کے سہارے باقی تین سال بھی گزار لیں گے اور پی ٹی آئی حکومت بھی اسی طرح گرتے پڑتے اپنے اقتدار کا دورانیہ پورا کر لے گی۔