تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-07-2020

زندگی بھر کی تعلیم

جہاں اور بہت کچھ داؤ پر لگ چکا ہے‘ وہیں اب تعلیم بھی اُس مقام پر ہے جہاں سے آگے کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کے اہم ترین معاملات میں سے ایک کو ہم نے بخوشی تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا ہے۔ تعلیم کسی بھی معاشرے کے لیے نظامِ تنفس کی حیثیت رکھتی ہے۔ گزری ہوئی نسلوں نے جو کچھ کیا‘ اُس سے اکتسابِ فن کرتے ہوئے نئی نسلوں کو تیار کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل کو زیادہ سے زیادہ تابناک اور محفوظ بنایا جا سکے۔ آج دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ ماضی کی تعلیم ہی کا نتیجہ ہے۔ مختلف ادوار کے علوم و فنون نے ترقی پاتے پاتے جدید ترین شکل اختیار کی ہے اور اِس کے نتیجے میں دنیا کو ایسا بہت کچھ ملا ہے جو زندگی کو آسان بناتا جا رہا ہے۔ 
تعلیم عمر کے کسی خاص حصے کا معاملہ نہیں۔ یہ تو زندگی کا بھر معاملہ ہے۔ کسی درسگاہ سے بچہ صرف کھانے کمانے جتنی لیاقت ہی حاصل نہیں کرتا بلکہ ڈھنگ سے جینے کے آداب بھی سیکھتا ہے۔ معاملہ صرف اِتنا نہیں ہے کہ ہم کسی بچے کو درسگاہ بھیجیں اور وہاں اساتذہ کسی ایسے شعبے میں اُس کی تعلیم کریں جس کی معاشی اہمیت تسلیم شدہ ہو۔ اگرچہ یہ بھی درست ہے‘ مگر ایک حد تک۔ درسگاہ میں بچے کو محض کمانے کے قابل نہیں بنایا جاتا بلکہ زندگی کرنے کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے اور یہی تدریس و تعلیم کے فن کا بنیادی مقصد ہے۔
پاکستانی معاشرے میں تعلیم کا معاملہ بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ انتہائی زرخیز زمین بھی تیاری کے بغیر فصل تیار نہیں کرتی مگر ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہماری نئی نسل بہت کچھ اپنے طور پر سیکھے گی اور آگے بڑھے گی۔ ہر نسل میں چند افراد غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ کسی خاص شعبے میں کچھ کر دکھانے کا میلان رکھتے ہیں، ایسا کرنے کا جذبہ پروان چڑھاتے ہیں اور یوں اُن کی لیاقت و محنت کا نتیجہ بھی ہمیں دکھائی دے جاتا ہے۔ یہ سب کچھ خالص انفرادی سطح پر ہوتا ہے۔ آج ہمیں چند شعبوں میں نمایاں ترین افراد دکھائی دے رہے ہیں تو اس لیے کہ اُنہوں نے کچھ کر دکھانے کا عزم کیا اور اُس عزم کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی۔ اگر اُنہوں نے کچھ پایا ہے تو اپنے ذاتی میلان اور لگن کے نتیجے میں۔ اُنہوں نے کچھ سیکھا تو محض اس لیے کہ اُنہیں کچھ سیکھنے کا شوق تھا۔
المیہ یہ ہے کہ ریاستی مشینری کو عملی سطح پر یہ تسلیم کرنے کی توفیق اب تک نصیب نہیں ہوئی کہ تعلیم ہی وہ عمل ہے جو بہتر زندگی کے ساتھ ساتھ بہت حد تک تحفظ و بقا کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ آج ہمیں جتنی بھی طاقتور اقوام دکھائی دے رہی ہیں اُن کے بارے میں تفصیل سے پڑھنے کی صورت میں معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے کسی بھی مرحلے پر فطری اور بشری علوم و فنون کو نظر انداز کیا نہ تساہل کا مظاہرہ کیا۔ ایک طرف تو اُنہوں نے ہمیشہ اس حقیقت کا ادراک کیا کہ اِس دنیا میں اگر کچھ کرنا ہے تو نئی نسل کو ڈھنگ سے تیار کرنا پڑے گا۔ لازم ہے کہ نئی نسل کو گزری ہوئی نسلوں کے کارناموں کا علم ہو۔ یہ علم اُنہیں کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ پھر اس نکتے پر بھی توجہ دینا ہوتی ہے کہ نئی نسل آنے والے زمانوں کے حوالے سے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرے۔ سوال انفرادی مستقبل سے زیادہ اجتماعی مستقبل کا ہے۔ 
پسماندہ اقوام کو دوسروں سے بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی سے بھی اسباق لینا ہیں۔ اپنی گزری ہوئی نسلوں کی ہر بڑی غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اُس سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں ہی کو لیجئے۔ قدم قدم پر جہالت کے ڈیرے ہیں۔ علم دوستی برائے نام رہ گئی ہے۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی ذوق و شوق کی بنیاد پر کچھ سوچتے ہیں اور کر گزرتے ہیں تاہم اِسے معاشرے کا عمومی چلن نہیں کہا جا سکتا۔ چند افراد اپنی ذاتی کوششوں کے ذریعے کچھ حاصل کر بھی لیں تو اِس کامیابی کو ایک خاص حد تک ہی بیان کیا جا سکتا ہے‘ اس کا پورے معاشرے کو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر کسی خاندان کا کوئی نوجوان اپنے ذاتی ذوق و شوق کی بنیاد پر محنت کرتے ہوئے ڈاکٹر، انجینئر، کھلاڑی یا کچھ اور بن جائے تو نام اور دام دونوں کمائے گا مگر اِس سے معاشرے میں کوئی بڑی اور بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ معاشرہ تو خیر دور کی بات ہے، اُس کے اپنے خاندان پر بھی کچھ زیادہ مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
معاشرہ اُس وقت ترقی کرتا ہے جب پوری توجہ سے کی جانے والی منصوبہ سازی کے نتیجے میں ایسا ماحول یقینی بنایا جائے جس میں ہر باصلاحیت بچے کے لیے کچھ کر دکھانے کی گنجائش موجود ہو۔ تعلیمی نظام میں اِتنا دم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی بچہ کچھ کر دکھانے کا عزم لے کر سامنے آئے تو اُس کے لیے متعلقہ شعبے میں کچھ کرنے کی گنجائش ہو، متعلقہ سیٹ اَپ موجود ہو اور بچے کے والدین کو اس حوالے سے کچھ خاص مالی بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے۔
آج ہم کہتے ہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی اردو میں کہا جاتا تھا 'تعلیم کی جاتی ہے‘ جس طور پر تعظیم اور تنظیم کی جاتی ہے۔ تعلیم کرنا یا تعلیم دینا عمر کے ایک خاصے حصے کا عمل نہیں کہ اُس مدت کے گزر جانے پر مطمئن ہوکر بیٹھ رہیے۔ کسی بھی بچے کو جب ہم کچھ سکھاتے ہیں تو اِس خیال و یقین کے ساتھ کہ وہ مرتے دم تک اپنی اصلاح پر مائل رہے گا۔ تعلیم زندگی بھر سیکھتے رہنے کا عمل ہے۔ کسی درسگاہ سے کچھ سیکھنے کی ایک خاص عمر ہو سکتی ہے مگر بحیثیتِ مجموعی ہمیں آخری سانس تک بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ جو آخری سانس تک سیکھنے پر یقین نہیں رکھتے وہ تباہی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی کتنی بے ترتیب اور بے رنگ ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے۔ 
ہمیں ہمارے خالق و رب نے زندگی سی نعمت اس لیے عطا نہیں کہ بے ذہنی کے ساتھ زندہ رہیے، کچھ نہ سیکھیے، کچھ نہ کیجیے اور بے نیل و مرام دنیا سے چلے جائیے۔ زندہ رہنے کا مطلب زبردستی جینا نہیں بلکہ پورے دل کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ سیکھنے کا عمل اگر زندگی پر محیط ہو تو انسان کسی بھی مرحلے پر بے مزا نہیں ہوتا‘ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیکھنے کا عمل ہی تو زندگی کا اصل مزا ہے۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے تو ہر انسان کے لیے بھی ہر آن بدلنا لازم ہے۔ مختلف شعبوں میں پیش رفت کا عمل جاری ہے۔ بعض شعبوں میں پیش رفت اِتنی زیادہ ہے کہ اُس کا احاطہ کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔ فی زمانہ طب یعنی طریقِ علاج، دوا سازی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور نظم و نسقِ کاروبار کے شعبوں میں اِتنا کچھ ہو رہا ہے کہ کسی فرد کے لیے سب کچھ جان لینا ممکن نہیں رہا۔ پھر بھی اپنی سی کوشش فرض ہے‘ جو کی جاتی ہے۔ 
ہم اُس عہد کے نصیب میں لکھے گئے ہیں جس کے نصیب میں ہر آن بدلنا لکھا گیا ہے۔ جو سیکھے گا وہ پائے گا اور سیکھنا بھی زندگی بھر ہے۔ زندگی بھر کی تعلیم کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کسی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مطمئن ہوکر نہ بیٹھ رہے بلکہ کچھ نہ کچھ سیکھتا رہے۔ سیکھنے کا آسان ترین طریقہ مطالعہ ہے۔ ملاقاتیں بھی بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ کسی بڑی، کامیاب شخصیت سے مل کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ سیکھنے کے عمل میں کون کون سی رکاوٹیں عبور کرنا ہوتی ہیں اور اس عمل کو کس طور آسان بنایا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان خود کو عقلِ کُل نہ سمجھے، سیکھنے پر مائل ہو اور کسی سے بھی سیکھنے میں تامّل کا مظاہرہ نہ کرے۔ آئی ٹی اور ٹیلی کام سیکٹر کی برق رفتار ترقی نے سیکھنے کے عمل کو ہمارے لیے خاصا آسان بنا دیا ہے۔ اب اتنا کرنا رہ گیا ہے کہ ہم مثبت فکر و عمل کے حامل ہوں، رویّہ درست رکھیں، سیکھنے میں دلچسپی لیں اور زندگی کا معیار بلند کرتے رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved