جمہوری دور کا یہ تاریخی منظر پہلی بار رقم ہوا ہے اور تمام تر جمہوری روایات کو تازہ کرتے ہوئے مملکتِ خداداد میں جمہوری بقائے باہم کی ایسی بہار کبھی آئی تھی؟ ذوالفقار علی بھٹو دوسری بار وزیراعظم بننے والے تھے کہ پھانسی چڑھا دیئے گئے۔ بی بی بے نظیر بھٹو نے جب تیسری بار قسمت آزمائی کی تو سرِعام گولی کا نشانہ بنا دی گئیں۔ میاں نواز شریف کتنے خوش قسمت ہیں کہ کامیاب فوجی بغاوت کا شکار ہونے کے باوجود بھی تیسری بار وزیراعظم بن چکے اور انہیں قید کرنے والے معذرت کے ملتجی۔ اب کی بار وہ زیادہ بردبار، بہت سنجیدہ اور دل گرفتہ دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دان سے زیادہ ریاست دان! ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ دوسرے وزیراعظم ہیں جو اخلاقی پزیرائی اور عوامی مقبولیت کے ساتھ بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں مگر نعرہ بازی اور سبز باغ دکھائے بغیر۔ اعتماد کا ووٹ ملتے اور حلف اُٹھاتے ہی، پھر سے اور ہر طرف سے طرح طرح کے ہوشربا مطالبوں کی فرمائش کے ساتھ ساتھ ’’قدم بڑھائو نواز شریف‘‘ کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ پہلے بھی اِسی طرح کے ’’اشتعال انگیز‘‘ نعرے بلند کیے گئے تھے۔ اور جب انہوں نے قدم بڑھایا تو کچھ ہی تھے جنہیں اُن کے نقشِ پا پہ چلنے کی توفیق ملی۔ اب الیکٹرانک میڈیا پورے ڈرامائی اثر کے ساتھ اُن کے کندھوں پر ذمہ داریوں کے ایسے ایسے بوجھ لاد رہا ہے کہ جیسے وہ دوسری سپرپاور کے وزیراعظم ہوں۔ خدا کی پناہ! انتخابات کے فوری بعد یومِ تکبیر کی ایک تقریب میں کچھ خاص قسم کے لوگوں نے اُن سے کشمیر کی بازیابی کے لیے نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کی ترغیب دی‘ جیسے یہ جنگ کے ہتھیار ہوں۔ نیوکلیئر جنگ سے کشمیر تو کیا ملنا ہے، جو ہے اس کا نام و نشان بھی نہ ملے گا۔ داستان بھی نہ رہے گی داستانوں میں۔ اُن کا نعرہ یوں بنتا ہے: ’’ایٹمی قیامت لائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ انا للہ و انا الیہ راجعون!۔ انتخابات کے بعد جو ڈرون حملہ ہوا اور اُس میں کئی دہشت گرد مارے گئے تو عمران خان بسترِ استراحت سے نعرہ زن ہوئے۔ ڈرون روکو یا مارو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ (نہیں) ہیں۔ پختون خوا کے وزیراعلیٰ دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے پختون بھائیوں کے قتل پہ تو خاموش ہیں اور خارجہ پالیسی و سلامتی کے موضوعات پر بہت زیادہ متحرک! پختون خوا اسمبلی میں پھر قرارداد لائی جا رہی ہے، جس میں ڈرون کے ہاتھوں مرنے والوں کے لیے گہرے جذباتِ یکجہتی کا اظہار تو ہے، لیکن دہشت گردوں کے ہاتھوں صبح شام مارے جانے والے معصوم لوگوں کے لیے ایک لفظ نہیں۔ ان کا نعرہ ہے: ڈرون گرائو، امریکا سے ٹکرائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی کرپشن ختم کر کے، لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر کشکول توڑنے اور معیشت کو سرپٹ دوڑانے کے نسخۂ جات والے نیم حکیم حضرات جنہیں معاشیات کی ابجد بھی نہیں آتی، میدان میں پہلے ہی روز سے اُتر آئے ہیں۔ اتنی بڑی معاشرتی برائی اور اتنی زیادہ اداراتی لوٹ کو ایک پلک میں صاف کر دینے کا تقاضا کرنے والے بھی وہ ہیں جو انہی کی تنخواہوں پہ پلتے ہیں جو اِس بہتی گنگا میں صبح شام اشنان کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایسے ایسے اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں جن کا سر ہے نہ پیر۔ کوئی کہتا ہے 100 ارب ڈالر باہر پڑے ہیں۔ کوئی کہتا 5000 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کی مجموعی دولت کا آدھا کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ ایسے بے پر کے جوتشیوں کی کنڈلیوں سے معیشتیں ٹھیک ہوتیں تو معاشی علوم کی یونیورسٹیوں کی نوبت کیوں آتی۔ صبح شام کسی جلاد کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی جیبوں سے سکے نکلوا کر فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کے خواب کی تعبیر چاہنے والے حضرات یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ بس پھر سے احتساب کے نام پر میاں نواز شریف موٹے پیٹوں والوں اور سیاسی حریفوں پر جھپٹ پڑیں۔ لوٹی دولت واپس لائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں! اور لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں تڑپتے عوام کا درد رکھنے والے یہ حضرات جو کبھی ایئرکنڈیشنوں سے باہر نہیں نکلتے اور توانائی کے زیاں پر اُن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، اب باجماعت نعرہ زن ہیں۔ بجلی دو ابھی نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جمہوری وزیراعظم پارلیمان کی تکریم اور آئین کی حکمرانی کے طرح طرح کے نومولود علم بردار جنہوں نے کبھی بے چاری جمہوریت کے لیے کوئی زخم کھانا تو کجا ایک آنسو بھی نہیں بہایا تھا، میدان میں بڑے کروفر سے اُتر آئے ہیں اور وہ بھی جنہوں نے جنرل مشرف کی فوجی بغاوت پہ مٹھائیاں بانٹی تھیں اور اُس کے ریفرنڈم میں آگے آگے تھے، بیک آواز کہہ رہے ہیں کہ بس آئین کی دفعہ چھ لگانے کا وقت آ گیا ہے۔ جنرل مشرف کو پھانسی لگائو بھی تو اس کیس میں جو اُس کی آئینی جمہوری نظام کے خلاف بڑی بغاوت کا شاخسانہ ہے۔ جو کبھی کسی جرنیل کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتا، اسمبلی میں کھڑا ہوا اور اُس نے کہا جو بھی فوجی بغاوت میں شامل تھا، خواہ براہِ راست یا بالواسطہ، یا اس کا قانونی جواز فراہم کرنے والا اور اُس کے دورِ آمریت سے مستفید ہونے والا، سب کو کٹہرے میں لائو، فقط مشرف کے ڈرامے سے بات نہیں بنے گی یا پھر ماضی کے حساب چکانے کے بھنور میں پھنسنے کی بجائے آگے کی طرف دیکھو اور جمہوری نظام کو ہر طرح کی آفات سے بچائو۔ فرزندِ عبدالصمد اچکزئی محمود خان کی اِس بات پر جب میاں نواز شریف زیرِ لب مسکرائے تو ٹیلی ویژن پر خوب پھبتیاں کسی گئیں۔ کس کو اُکسا رہے ہیں یہ حضرت، وزیراعظم کو یا مسلح افواج کو؟ اِن کا نعرہ ہے: غدار جنرل مشرف کو پھانسی دو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ بھانت بھانت کے یہ جغادری حضرات تاک میں بیٹھے ہیں کہ جب نواز شریف ان کے نسخہ ہائے خودکشی پر عمل کرنے سے اجتناب کریں تو یہ اُن کے مبینہ مینڈیٹ کے خود ساختہ امین بن کر میدان میں نکلیں گے کہ اب تمہارے ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ انتظار کیا جا رہا ہے کہ نئی جمہوری حکومت جونہی کاروبارِ مملکت شروع کرے یہ میدان میں پھر سے اُتریں اور اُس کی مختلف اسامیوں پہ تقرریوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں کہ یہ اُن کی صالحانہ فہرست کے مطابق نہیں اور پھر یہ لپکیں دستک دینے کو عدالتِ عظمیٰ و عالیہ کے دروازوں پر۔ پھر ایک نئی منتخب انتظامیہ کو غیرمنتخب سول ادارے عضوِ معطل بنا کر رکھ دیں جیسے گزشتہ دور کے ساتھ ہوا۔ بجٹ بھی سر پر آن پہنچا ہے اور لوڈشیڈنگ کا بھوت بھی منہ کھولے کھڑا ہے اور یہ کہہ رہے ہیں عالمی مالیاتی اداروں کا بائیکاٹ کرو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔وزیراعظم نواز شریف اِن سوراخوں سے کئی بار ڈسے جا چکے ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ کیا کرنے کا کیا نتیجہ نکلے گا اور کیا نہ کرنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ قدم سنبھالو نواز شریف! (کالم نگار سارک کے صحافیوں کی تنظیم سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سافما) کے سیکرٹری جنرل اور سہ ماہی سائوتھ ایشین جرنل کے مدیر ہیں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved