تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     15-07-2020

بھیک یا روزگار؟

چار مہینے پہلے ایک دوست نے بتایا تھا کہ ان کا چھوٹا بھائی سیالکوٹ میں کاروبار کرنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے مالی مدد کی ضرورت ہے۔ جس بھائی کی وہ بات کررہے تھے میں اسے بچپن سے جانتا ہوں۔ سکول میں ذہین بچہ تھا جو اپنی محنت کے بل پر کراچی کے ایک معروف اعلیٰ تعلیمی ادارے سے مکینکل انجینئر بن کا نکلا تھا۔ تعلیم مکمل ہوئی تو امریکہ کی ایک معروف کمپنی نے اسے اپنی ملازمت میں لے لیا۔ کراچی میں پلا بڑھا یہ نوجوان نوکری کے سلسلے میں سیالکوٹ آنے جانے لگا تو وہاں اسے کچھ بنانے کا خیال آیا۔ میں جن دنوں کی بات کررہا ہوں‘ کورونا وائرس کے مریض پاکستان میں سامنے آنا شروع ہوگئے تھے‘ اور مارکیٹ میں ماسک کی طلب بڑھ رہی تھی۔ اس نوجوان نے ماسک بنانے کا ہی فیصلہ کیااور کباڑ میں پڑی کچھ مشینیں منتخب کیں‘ جن کی خریداری کے لیے سات لاکھ روپے کی ضرورت تھی۔ انہی سات لاکھ روپوں کے لیے اس نے بھائی سے مدد مانگی تھی اور اس فیصلے کے لیے میں ان کا مشیر تھا۔ ان کے کہنے پر میں نے چھوٹے بھائی سے بات کی تو وہ اعتماد سے بھرا تھا۔ میں نے کباڑ کی مشینوں پرسوال اٹھایا تواس نے چٹکی بجا کر کہا‘ میں انہیں یوں چلا لوں گا۔ اس کا حوصلہ دیکھتے ہوئے میں نے اپنے دوست سے کہاکہ ماسک اس وقت ہر شخص کی ضرورت ہے‘ اس لیے سرمایہ کاری کے لیے وقت بہت مناسب ہے۔ وہ تو پہلے ہی اپنے بھائی کی مدد کرنا چاہتے تھے‘ میری بات سن کر انہوں نے بے فکری سے اپنے بھائی کو مطلوبہ رقم بھجوادی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اگر میں اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ چکا ہوتا تو محض کہانی سمجھتا۔ اس نوجوان مکینیکل انجینئر نے کباڑ کی ان مشینوں کو اپنی مہارت سے اس قابل کردیا کہ ماسک بنا سکیں۔ چھوٹی سی جگہ کرائے پر لی اور لوہے کے بھاؤ خریدی ہوئی مشینیں روزانہ چالیس ہزار ماسک بنانے لگیں۔ مال بنانے کے لیے کچھ اپنے جیسے دوستوں کو ساتھ ملایا اور ان کے بنے ماسک مارکیٹ میں بکنے لگے۔ سات لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے شروع ہونے والے اس کاروبار میں چھبیس آدمیوں کو براہ راست نوکریا ں ملیں اور آخری خبریہ ہے کہ نوجوانوں کے اسی گروپ نے نیا کارخانہ فیصل آباد میں لگا لیا ہے۔ گویا فیصل آباد میں چند مزید نوکریاں اور بالواسطہ طور پر کچھ نئے لوگوں کے لیے کاروبار میں اضافے کا موقع۔ اس نوجوان کا نام اس لیے نہیں لکھا کہ ہمارے ہونہار سرکاری اہلکار کہیں اس غریب سے بھتہ لینے نہ چل پڑیں۔
کامیابی کی ہر کہانی کی طرح اس کہانی میں بھی انسانی محنت سے لے کر قدرتی اتفاق تک بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن سوال صرف یہ ہے کہ اگر اس نوجوان کے بڑے بھائی کے پاس سات لاکھ روپے اسے دینے کے لیے نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا چھبیس نئی ملازمتیں پیدا ہوتیں؟ بہت سے لوگوں کے لیے سات لاکھ روپے معمولی رقم ہوگی لیکن اس معمولی رقم نے کتنے گھروں کو روشن کرڈالا! وہ نوجوان جن کے پاس کچھ کرگزرنے کا حوصلہ اور مہارت ہو لیکن پیسہ نہ ہو تو ترقی یافتہ ملکوں میں حکومت ان کی مدد کوآتی ہے۔ حکومت کی دیکھا دیکھی بینک اور کئی طرح کے سرمایہ کار پیسہ لے کر پہنچ جاتے ہیں جنہیں اس نوجوان کی صلاحیت پر بھروسا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی ادارہ نہیں جو کاروبار کے لیے نوجوانوں کی مدد کرے۔ 1998 میں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کے نام سے ادارہ وجود میں آیا تھا۔ بظاہر اس ادارے نے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی مدد کرنا تھی‘ لیکن یہ بھی دوسرے اداروں کی طرح دفتر‘ گاڑیوں‘ افسروں اور تنخواہوں کے چکر میں ایسا پڑاکہ آج اس میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جسے کاروبار کی عملی ضروریات کا احساس ہو۔ کتابی سی باتیں ہیں اور مختلف کاروبار کرنے کے جو تجاویز اس کی ویب سائٹ پر پائی جاتی ہیں ان پر عمل کرکے کم ازکم اس دنیا میں تو کوئی بزنس نہیں بن سکتا۔ یہی نہیں 'کامیاب جوان‘ پروگرام کا نام بھی آپ نے سنا ہوگا۔ یہ وہی پروگرام ہے جس کے تحت وزیراعظم پاکستان عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کو کاروبار کیلئے قرضے دیے جائیں۔ خیال یہ ہے کہ نوجوان کاروبار کریں گے اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بنیں گے۔ پہلے خبرآئی‘ پچاس لاکھ روپے تک قرضہ ملے گا‘ پھر خبر آئی قرضے کی حد بڑھا کر ڈھائی کروڑ کر دی گئی ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں اس پروگرام پر عملدرآمدہونا تھا لیکن اب تک کیا ہوا؟ وہی جو حکومت کے ہر منصوبے کا ہوتا ہے‘ یعنی کچھ نہیں۔ جب اس پروگرام کا اعلان ہوا تو میں نے قرض لے کر کوئی دھندا کرنے کے لیے بہت سے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے ویب سائٹ پر اپلائی بھی کیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ کسی نے پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔ جب نوجوانوں کو کاروبار میں لانے کے یہ ذمہ دار ادارے کچھ نہیں کررہے ہوں گے تواحساس پروگرام کے بارہ ہزار لینے کے سوا کیا راستہ بچتا ہے‘جس کے لیے کام کی ضرورت ہے نہ پیسوں کی واپسی کی‘ کیونکہ یہ واحد ادارہ ہے جو کام کررہا ہے‘ وہ بھی شاید اس لیے کہ اسے تحریک انصاف نے نہیں پیپلزپارٹی نے بنایا تھا۔ 
ہمارے وزیراعظم کا ارشاد ہے کہ زندگی میں انہوں نے بہت پیسہ اکٹھا کیا ہے کیونکہ پاکستان میں لوگ سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے وزیراعظم کے اس دعوے کی تردید تو ممکن نہیں لیکن انہیں یہ کون سمجھائے کہ فلاحی کاموں کے لیے مانگنا اور مانگتے چلے جانا معیشت نہیں۔ بے روزگار آدمی کسی کے صدقے خیرات کا محتاج نہیں‘ اسے کام چاہیے۔ کام کرنے والا آدمی اپنے اردگرد لوگوں کے حوصلے کا باعث بنتا ہے جبکہ صدقے خیرات پر پلنے والا گھات لگاکر بیٹھا رہتا ہے کہ کسی اسامی کو تاڑے اور اس کی جیب سے کچھ نکلوا لے۔ جب حکومت فخر سے بتاتی ہے کہ اس نے ایک کروڑبیس لاکھ خاندانوں کو بارہ بارہ ہزار کی مدد پہنچادی ہے تو خوف آتا ہے۔ خیرات کی یہ رقم پاکر ان لوگوں کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوجائے گی۔ اگر یہ سلسلہ یونہی بڑھتا رہتا ہے تو خدانخواستہ کہیں ایک بھک منگا معاشرہ تو وجود میں نہیں آجائے گا‘ جس کی نظر حکومت یا کھاتے پیتے لوگوں کی جیبوں پر لگی رہے گی؟ 
ہمارے وزیراعظم اور وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر بار بار ایک کتاب کا ذکر کیا کرتے تھے جس کے مصنف نے عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرکے یہ بتایا کہ کسی طرح یہ ادارے غریب ملکوں کی معاشی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ 'بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ ہو یا اپنے نئے نام کے ساتھ 'احساس پروگرام‘ دراصل انہی مالیاتی اداروں کی دی ہوئی معاشی پالیسی کے تابع ہیں۔ مجھے تو کبھی یہ لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے بنائے ہوئے اس پروگرام کا مقصد ہی غریب ملکوں کے عوام کو صدقے‘ خیرات پر زندہ رہنے کی عادت ڈالنا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لیا تو اسے بھی یہ خیراتی پروگرام چلانا تھا‘ وزیراعظم عمران خان خود بھی والہانہ انداز میں اس پروگرام کا حصہ بن کرمعیشت اور روزگار کے تقاضے بھلا بیٹھے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں بتاتاکہ وہ انجانے میں معاشی اور معاشرتی تباہی کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ احساس پروگرام کے تحت دو سو ارب روپے جھونک دینے کی بجائے وہ یہی رقم نوجوانوں کو مقامی مشینری خرید کر کام کرنے کے لیے دیتے تو بہت کچھ بدل جاتا۔ وزیر اعظم صاحب غربت کے خاتمے کے لیے چین کی مثال باربار دیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ چین نے اپنے شہریوں کی غربت نقد دے کر نہیں روزگار دے کر ختم کی۔ ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو بھیک دے کر کوئی سمجھے یہ معاشی ترقی ہے تو اس کے نالائق ہونے میں کوئی شک نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved