تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     15-07-2020

ارشد ملک کیس، اصلاحات کا موقع

تین جولائی کے روز معزز لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے‘جو سات سینئر ترین ججز پر مشتمل تھی اور جس کی سربراہی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کر رہے تھے‘ جج ارشد ملک کو جوڈیشل سروس سے برطرف کر دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے‘ جو ناگزیر دکھائی دیتا تھا‘ کو پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے بہت سراہا جبکہ پی ٹی آئی کے حلقے ارشد ملک کے (کمزور) بیانِ حلفی کی روشنی میں اس معاملے کو الٹ رُخ دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس بیانِ حلفی میں ارشد ملک نے الزام عائد کیا تھا کہ ان پر نواز لیگ کی قیادت کی جانب سے دبائو ڈالا گیا اور انہیں رشوت کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس شور میں اہم قانونی و ادارہ جاتی معاملات کہیں دور تہہ میں دبے جا رہے ہیں۔ ارشد ملک کے سارے معاملے کے عدالتی نظام کی ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ اس بات کویقینی بنانے کیلئے کہ دوبارہ کبھی ارشد ملک جیسے لوگ عدالتی منصب پر نہ پہنچ سکیں کون سی سٹرکچرل تبدیلیاں‘ اگر کوئی درکار ہیں‘ضروری ہیں؟ 
ارشد ملک کی کہانی میں موجود حقائق کریہہ ہیں۔ اگست2019 ء میں معزز سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ان حقائق پر روشنی ڈالی تھی۔ مسلم لیگ (ن)کا دعویٰ ہے کہ ارشد ملک کی خواہش پر ''ملاقات ہوئی ‘اس ملاقات کو ''مبینہ طور پر ‘‘ ریکارڈ کیا گیا اور اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ''ارشد ملک ایسے نکات بیان کر رہے ہیں‘‘ جو ان کے اپنے دیے ہوئے فیصلے کے خلاف اپیل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ ویڈیو سامنے آنے پر ردعمل میں ارشد ملک نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ویڈیو میں دکھائی جانے والی بات چیت کو ''توڑموڑ اور مسخ‘‘ کر کے پیش کیا گیا ہے اور یہ کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) نے انہیں ''رشوت کی پیشکش‘‘ کی اور انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے نواز شریف کو ''بری کرنے میں تعاون‘‘ نہ کیا تو انہیں ''سنگین نتائج ‘‘ بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ بعد ازاں ارشد ملک نے معزز عدالت کے سامنے ایک حلف نامہ جمع کرایا جس میں انہیں ''رشوت کی پیشکشوں اور انہیں لبھانے کیلئے کی جانے والی کاوشوں اور ان پر ڈالے جانے والے دبائو کی تفصیلات ‘‘شامل تھیں۔ اہم بات اس حلف نامے میں موجود یہ دعویٰ ہے کہ نواز خاندان اور اس کے دوستوں نے انہیں ''بھاری رشوت‘‘ پیش کی تا کہ ایسا فیصلہ حاصل کیا جا سکے جو نواز شریف کے حق میں جائے۔
اس پس منظر میں معزز عدالت سے درخواست کی گئی کہ وہ منجملہ دیگر چیزوں کے ''الزامات اور جوابی الزامات کی تہہ میں موجود حقائق تک پہنچے‘‘ اور اس بات کی تصریح بھی کر دے کہ ان انکشافات کا نواز شریف کی سزا اور ان کی زیر التوا اپیلوں پر کیا اثر‘ اگر کوئی ہو تو‘ مرتب ہو سکتا ہے۔ معزز سپریم کورٹ نے اس حوالے سے پانچ نکات کی نشاندہی کی: ( 1) اس ویڈیو کا مؤثر جائزہ کس عدالت/فورم پر لیاجا سکتا ہے؟ (2) کن بنیادوں پر اس ویڈیو کو ''حقیقی ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے؟‘‘ (3) کیسے یہ ویڈیو ''قانونی عدالت کے سامنے درست ثابت کی جا سکتی ہے؟‘‘ (4) اس ویڈیو کا نواز شریف کی سزا پر کیا ''اثر‘‘ ہو سکتا ہے؟اور (5) جج ارشد ملک کیلئے اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟یہ فیصلہ اُس وقت کے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا تھا اور انہوں نے مندرجہ بالا تمام نکات پر رائے دی تھی۔ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ‘ جہاں نواز شریف کی اپیلیں زیر التوا ہیں‘ واحد مناسب فورم ہے جہاں یہ ویڈیو پیش کی جا سکتی ہے تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ ان کا نواز شریف کی زیر التوا اپیلوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ معزز سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ (اپیلوں کی سماعت کے وقت) ہی وہ موزوں فورم ہے جو اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ'' (ارشد ملک ) کا کنڈکٹ‘‘جو اس ویڈیو میں دکھائی دیتا ہے‘ نواز شریف کے فیصلے میں ''کسی تعصب کا اظہار‘‘ کرتا ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے اگر اسلام آباد ہائیکورٹ اس نتیجے پر پہنچے کہ ''مقدمے کی کارروائی اور شہادت ریکارڈ کرنے کے عمل پرفاضل جج کے کنڈکٹ سے کوئی اثر نہیں پڑا‘‘ تو اسلام آباد ہائیکورٹ ''کے پاس یہ انتخاب ہو گا کہ وہ شواہد کو دوبارہ ریکارڈ کرے اور اپیل کا فیصلہ اس کے میرٹ پر کرے‘‘ یا ''وہ کیس کو دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیج دے کہ وہ اس کیس میں پہلے سے ریکارڈ شدہ ثبوتوں کی بنیاد پر دونوں پارٹیوں کے دلائل سن کر دوبارہ فیصلہ کرے‘‘۔ سپریم کورٹ نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ چونکہ کسی نے بھی ان شواہد پر انگلی نہیں اٹھائی جو پہلے ہی ریکارڈ پر آ چکے ہیں‘ اور تسلیم شدہ ہیں‘ اس لیے انہیں ٹرائل یا ایپلٹ کورٹ میں فیصلہ سنانے کے لیے صرف دوبارہ پیش کرنا کافی ہو گا۔ اور آخری نکتہ یعنی ارشد ملک کے حوالے سے معزز سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کے ''گھنائونے اور مکروہ طرزِ عمل نے ملک بھر میں موجود ہزاروں ایماندار‘ باکردار ‘ راست گو ججوں کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں‘‘ متعلقہ ہائیکورٹ کو ان کا فیصلہ قانون کے مطابق کرنا چاہیے۔
ارشد ملک کے معاملے میں متعلقہ ہائیکورٹ لاہور ہائیکورٹ تھی جس نے تین جولائی کو اپنا فیصلہ سنا دیا اور ارشد ملک کو جوڈیشل سروس نے برطرف کر دیاگیا‘ لیکن ان کڑے سیاسی نتائج سے ہٹ کر ارشد ملک کے معاملے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کس طرح پہلے ہی سے کمزور ہمارے نظام عدل کی ساکھ کو اس کیس نے دھچکا لگایا ہے۔ ارشد ملک کی ساری کہانی میں یہی نکتہ سب سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کا حامل ہے۔ یاد رہے کہ ارشد ملک کی ویڈیو ایک برس قبل مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک میڈیا پر اس حوالے سے متنازعہ مباحث جاری ہیں۔ اس معاملے کا حکومتی حکام اور معزز سپریم کورٹ نے خودجائزہ لیا؛تاہم اس سارے عرصہ میں نہ تو عدالت کی جانب سے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے ڈسٹرکٹ عدالتوں میں کسی اصلاحاتی عمل کی داغ بیل ڈالی گئی۔ صوبائی ہائیکورٹوں نے‘ جو ماتحت ڈسٹرکٹ عدالتوں کا انتظامی کنٹرول رکھتی ہیں‘بھی اس حوالے سے بہتر پالیسی یا عدالتی ضروریات کے معیار بلند کرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا کہ ارشد ملک جیسے لوگ دوبارہ مسندِ انصاف تک نہ پہنچ سکیں۔مگریہ اقدامات کئے بغیر ہمارے نظام انصاف کیلئے اپنا کھویا ہوا اعتبار حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ ارشد ملک کیس کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہماری سیاست و عدالت اس معاملے کے صرف ایک پہلو پر ہی زور دے رہی ہے یعنی نواز شریف پر اس سے مرتب ہونے والے اثرات‘ لیکن یہ بھی دیکھا پڑے گا کہ ارشد ملک جیسی دیگر شخصیات کے لئے کیا لائحہ عمل طے کیا جائے کیونکہ اس ملک کے ہزاروں عام لوگ مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس (معزز عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی ضمانتوں پر) تبصروں سے بھری پڑی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کی سماعت کے دوران معزز عدالتِ عظمیٰ کے بارے میں (غیر ضروری) تبصروں اور تجزیوں کو ایک سیلاب آیا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جو ناخوشگوار واقعہ ہوا اور اسی نوعیت کے گاہے گاہے سامنے آنے والے واقعات‘ اس بات کی واضح شہادت ہیں کہ ہمارے بار کے کلچر کی بھی مضبوط بنیادوں پر تطہیر کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں ارشد ملک کے کیس کو ایک ایسے امکان کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کو سامنے رکھ کر ہم اپنے سسٹم میں بامعنی اصلاحات لا سکیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو اس حوالے سے مکالمے کا ڈول ڈالنا چاہیے اور یہ ثابت کرنا چاہے کہ عدالتی اصلاحات کسی صورت بھی عدلیہ کی آزادی سے متصادم نہیں ہیں۔اگر ایسا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو عدالت کا اس پر کچھ خرچ نہیں ہوگا اور اس سارے عمل میں عین ممکن ہے ہماری عدلیہ ان مسائل سے نجات حاصل کر پائے جو ہمارے عدالتی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved