تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     15-07-2020

میوزیم سے مسجد تک …(2)

آیا صوفیہ سے متعلق بحثیں اور دلائل فیس بک پر جاری ہیں۔ میں گزشتہ کالم میں اپنی کچھ باتیں اور سوالات پیش کر چکا ہوں۔ لیکن سوالات ختم نہیں ہوئے۔ بہت سے باقی ہیں؛ تاہم مزید سوال پیش کرنے سے پہلے قارئین کا وہ مطالبہ پورا کرنا بہتر ہے جو انہوں نے آیا صوفیہ کی تاریخی حیثیت سے متعلق کیا ہے۔ میں کافی پہلے اس عمارت کے بارے میں ایک تحریر پیش کر چکا ہوں، لیکن کچھ اہم باتیں یہاں بھی۔
عظمت، ہیبت، سطوت، شکوہ۔ کون سا لفظ یا کون سے الفاظ ہونے چاہئیں جو آیا صوفیہ کے حسبِ حال ہوں یا جو اسے بیان کر سکیں۔ کیا کہیں گے ایک ایسی شاندار عمارت کو جس نے تاریخ دیکھی بھی ہو اور بنائی بھی ہو۔ تاریخ بھی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار سال کی۔ ہم مغل بادشاہوں یا سلاطینِ دہلی کی تاریخی عمارات کے جاہ و جلال کی بات کرتے ہیں لیکن عمرکے اعتبار سے تو یہ آیا صوفیہ کے سامنے کے بچے ہیں۔ لکھنے میں ''ہیگیا صوفیہ‘‘، پڑھنے میں آیا صوفیہ۔ یونانی زبان میں مطلب ہے مقدس دانش۔ یہ ''یونانی آرتھوڈاکس کرسچین پیٹری آرکل کیتھیڈرل‘‘ عیسائیوں کا وہ فرقہ جو بعد میں قریب قریب نابود ہوگیا۔ کچھ عرصے رومن کیتھولک کلیسا بھی رہااور اس قبضے پر جو خون بہایا گیا وہ بھی تاریخ میں درج ہے‘ لیکن یونانی کلیسا کی شناخت جلد لوٹ آئی۔ وہ کلیسا جوایک زمانے تک بازنطینی سلطنت کا مرکز و محور رہااور بے شمار تاریخی واقعات کا شاہد۔
تصور کیجیے کہ 537 عیسوی میں یہ عمارت بنائی گئی یعنی طلوع اسلام سے بھی پون صدی پہلے۔ کسریٰ اور قیصر کے محلات اپنی جگہ پُرشکوہ رہے ہوں گے لیکن آج بس ان کے کچھ ستون اور کچھ فصیلیں ان کا پتا دیتی ہیں لیکن آیا صوفیہ اُسی طرح موجود ہے۔ اپنے غیر معمولی بڑے گنبد اور بڑے ہال کے ساتھ۔ اس عمار ت کو قریب سے دیکھنا ایک عجیب تجربہ ہے۔ ہم عمارت میں داخل ہوئے تو چاردیواری اور اصل عمارت کے درمیانی احاطے میں عمارت کی پرانی اور متروکہ تعمیرات کے ستون، کتبے، قبریں اور دیگر آثار ہر حصے میں بکھرے پڑے تھے۔ متروکہ زبانوں میں وہ تحریریں لکھی ہوئی ہیں جو کسی زمانے میں محنت سے کھودی اور شوق سے پڑھ گئی ہوں گی اور اب ان کا حرف شناس بھی کوئی نہیں۔ صدیوں تک نسل در نسل آنے والے وہ تمام امرا، سارے سردار، سب کج کلاہ جن کی ایڑیوں کی دھمک سے دھرتی ہلتی تھی، یہاں اکٹھے موجود ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ناموجود ہیں۔ دراصل عارضی موجودگی ہوتی ہی دائمی ناموجودگی کے لیے ہے۔
میں نے چشمِ تصور سے یونانی کلیساکو رومن کیتھولک کے قبضے میں جاتااور اس فرقے کے لوگوں کا گلی کوچوں میں خون بہتے دیکھا۔ کیا کسی نے کبھی آیا صوفیہ کی تاریخ کا یہ حصہ بھی پڑھا ہے؟ پھر چشمِ تصور نے مسلمانوں کے خلاف جسٹنین کی بہادری کا منظر دیکھا۔ ہیبت ناک توپوں کی گولہ باری سے پتھروں کے پرخچے اڑتے دیکھے۔ مدافعین کو تھیوڈوسین فصیل اور آگے دُہری تہری فصیلوں کے شگاف بھرتے، سینٹ رومانس گیٹ کو مسمار ہوتے، ترکوں کو درانہ اندر گھستے دیکھا۔ محاصرے، حملہ آور، دفاع، خون۔ یہ سب قسطنطنیہ کیلئے تاریخ کا حصہ تھا لیکن آج تاریخ بدلنے والی تھی۔
آیا صوفیہ میں داخلے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ دروازہ بھی بہت بڑا نہیں؛ چنانچہ لوگوں کی مسلسل آمدورفت لگی رہتی ہے۔ کون سا ملک ہوگا جس کے سیاح یہاں ہروقت موجود نہیں ہوتے؟ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہی اندرکے منظر کا رعب دل پر چھانے لگتا ہے۔ بہت بڑا ہال جس میں داخلی دروازے سے سامنے کی دیوار تک کی وسعت حیران کرتی ہے۔ بہت اونچا مرکزی گنبد‘ جس کی بلندی کے سامنے فرش پر چلتے پھرتے لوگ بونے نظر آتے ہیں۔ چھت کی نصف سے زیادہ اونچائی پر دائیں بائیں محراب دار گیلریاں۔ بڑے بڑے اور چوڑے ستون۔ ہال کا اندر کا حصہ زیادہ ترزرد اور پیلے رنگ سے مزین۔ گنبد سے کچھ نیچے چاروں طرف خلفائے راشدینؓ کے نام اعلیٰ عربی خطاطی میں خط ثلث میں لکھے ہوئے۔ دیوارپر منقش شبیہیں جو عیسائی عقائد کی مظہر تھیں۔
میں ہال دیکھ کر دائیں طرف کے تنگ اور قدیم زینے سے ہوتا ہوا اوپر کی دائیں گیلری میں پہنچا۔ یہاں سے آیا صوفیہ کی عمارت کی بلندی اورہال کی وسعت کا منظر زیادہ قابلِ دید ہے۔ تادیر اس محرابی گیلری سے نیچے ہال کواور اوپربلند گنبد کو دیکھنا اور اپنے آپ کو بازنطینی اور ترک تاریخ سے متصل محسوس کرنا ایک عجیب اور ناقابل فراموش احساس ہے۔ ہم وہ زمانہ تھے‘ جو دو زمانوں کے درمیان سانس لے رہے تھے۔
مصطفی کما ل اتاترک نے 1923ء میں جب عثمانی خلافت ختم کرکے ایک قوم پرست سیکولر ترکی کی بنیاد ڈالی تو دوررس نگاہوں نے اسی وقت دیکھ لیا تھاکہ یہ اس صدی میں مسلم دنیا کی ممکنہ وحدت پرایک کاری ضرب ہے۔ برصغیر کے مسلمان اس پورے عرصے میں جس طرح ترک مسلمانوں اور سلطان کے ساتھ کھڑے رہے، وہ ایک مثال ہے۔ اس کے بعد متمدن مغرب کے لیے ترکی کوقبول کرنے میں کیا رکاوٹ رہ گئی تھی؟ کوئی نہ کوئی آڑ ہمیشہ موجود رہی جس نے ترکی کواس حلقے سے باہر رکھا۔ دیکھا جائے تو ترکی کی مسلم شناخت ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کا ادراک اب ترکی کوبھی ہے۔
یورپ کے دہانے پر موجود یہ ملک ہرلحاظ سے یورپی یونین میں شامل ہونے کا حق دار تھا لیکن مطالبوں کے باوجود اسے شمولیت کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ 2013ء میں کروشیا کوبھی یورپی یونین میں شامل کرلیا گیا لیکن ترکی پر پابندی لگادی گئی۔ کیا یہ باتیں ان سوالوں کو جنم نہیں دیتیں: 1۔ سیکولر، مذہب بیزار، یورپی رہن سہن اختیار کرلینے والا ترکی مغربی اقوام کوپھر بھی قبول کیوں نہیں ہوسکا؟ آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت ختم کرنے، رسم الخط اورلباس تبدیل کر لینے اور مذہب کو نکال باہر کرنے کے بعد ترکی کو محبوب بننے کیلئے کیاکرنا چاہیے تھا؟ 2۔ دنیا کے دیگر غیرمسلم ممالک میں ترکوں سے اجنبیت کے برتاؤکی وجہ کیا رہی ہے؟ سوائے مسلم شناخت کے؟ 3۔ مصطفی کمال کا دورِ اقتدار خود غیرمسلم مؤرخین کے نزدیک بھی ڈکٹیٹرشپ کا دورتھا۔ وہ فوجی بغاوت کے ذریعے کرسی تک پہنچا تھا اور جمہوریت نام کی کوئی چیز وہاں موجود نہ تھی۔ اگران سب کے باوجود وہ قابلِ ستائش ہے تو انتخابی عمل سے جمہوری صدر بننے والے طیب اردوان کے دورمیں کیا قباحت ہے؟ 4۔ کیا طلاق کے اسلامی طریقے کو جبراً سرکاری طور پر منسوخ کر دینے کے بعد خود مصطفی کمال اس طریقے پرعمل کرنے کا مجاز تھا؟ 
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مصطفی کمال نے لطیفہ اساکلی گل نامی ترک خاتون سے شادی کی۔ لطیفہ یورپ کی تعلیم یافتہ ایک خوبصورت ترک خاتون تھیں جو ترک جدوجہد کی مہمات میں پیش پیش رہتی تھیں۔ مصطفی کمال انہیں ترک عورتوں کی آزادی اور برابری کی ایک علامت بناکر پیش کرتے تھے۔ 1923ء میں مصطفی کمال نے لطیفہ سے جب شادی کی تو وہ اس سے بیس برس چھوٹی تھیں۔ دوسال کے بعد مصطفی کمال نے بہت برہمی کے ساتھ اس بنیاد پر لطیفہ سے علیحدگی اختیار کرلی کہ وہ ان کے فیصلوں پر اعتراض کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ لطیفہ اتاترک کے انتقال کے بعد چالیس سال زندہ رہیں لیکن انہیں عدالت نے اپنے خطوط اور ڈائری چھاپنے کی اجازت نہیں دی۔غالب نے کہا تھا ع
اسدؔ کا قصہ طولانی ہے لیکن مختصر یہ ہے
مختصر یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی حکومتوں اور حکمرانوں کے غلامانہ، خوشامدانہ، معذرت خواہانہ رویے دیکھتے دیکھتے تھک چکے ہیں۔ صاف نظرآتا ہے کہ تمامتر ذلت اور سبکیوں کے باوجود ان خوشامدوں، التجاؤں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پس انہیں ہروہ آواز اپنی طرف کھینچتی ہے جومسلم دنیا کی اکثریت کی خواہش کے مطابق جم کر برابری کی بات کر سکے۔ طیب اردوان کی بڑی کشش یہی لہجہ ہے۔ کیا یہ بات مسلم حکمران سمجھ سکتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved