تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-07-2020

کاک ٹیل

وزیراعظم ہٹ جائیں ورنہ گھسیٹ کر نکال دیں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم ہٹ جائیں ورنہ گھسیٹ کر باہر نکال دیں گے‘‘ اور گھسیٹنے کی بات اس لیے جائز ہے کہ شہباز شریف نے والد صاحب کو گھسیٹنے کی دھمکی دی تھی اور میں بھی صرف دھمکی ہی دے رہا ہوں ورنہ میرے اگر بس میں ہوتا تو کب کا یہ کام کر چکا ہوتا لیکن فی الحال تو احتساب والے ہم سب کو گھسیٹنا چاہتے ہیں اور یہ محض دھمکی نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے کام میں خاصے سنجیدہ ہیں۔ حالانکہ اس ادارے کا چیئرمین ہم نے ہی مقرر کیا تھا۔ اس لیے امید ہے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے حالانکہ حرکت ہی میں برکت ہوا کرتی ہے لیکن یہ برکت بھی کافی بے برکتی واقع ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کر رہے تھے۔
سرکاری ملازمین کو جبری ریٹائر کرنے کا
معاملہ اسمبلی میں اٹھائیں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سرکاری ملازمین کو جبری ریٹائر کرنے کا معاملہ اسمبلی میں اٹھائیں گے‘‘ کیونکہ اگر ملک سے باہر نہ جانے دیا گیا تو آخر کچھ نہ کچھ تو ضرور کرنا ہی ہے، اگرچہ ہمارے دور میں سرکاری ملازمین کو جبری ریٹائر ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا کیونکہ وہ ہماری طرح اور ہمارے ساتھ ساتھ خوشحال ہی اس قدر ہو چکے ہوئے تھے کہ وہ خود ہی نوکری چھوڑنا چاہتے تھے۔ اگرچہ اب بھی وہ کافی حد تک دال دلیا کر رہے ہیں ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
کیونکہ ہم اُن کے لیے پورے مولوی مدن ہی ہوا کرتے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور سے بیان جاری کر رہے تھے۔
منفرد اصلاحات سے عوام کو ان کا حق واپس کر رہے ہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''منفرد اصلاحات سے عوام کو ان کا حق واپس کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ کسی کا جو حق سلب کر لیا جائے، خوش اخلاقی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مناسب وقفے کے بعد اسے واپس بھی کر دیا جائے جبکہ اصلاحات تو ایک طرف رہیں، ہمارا تو ہر کام انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے کیونکہ اکثر اوقات بظاہر میں وہ ہوتا ہے جو دراصل ہوتا ہی نہیں کیونکہ ہم جس کام کی نیت کر لیں، یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ہو بھی چکا ہے کیونکہ نیت ہی اصل چیز ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں بلوچستانی وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
اپوزیشن یکجہتی کی بات کرے تو حکومت سمجھتی
ہے، این آر او مانگ رہے ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن یکجہتی کی بات کرے تو حکومت سمجھتی ہے، این آر او مانگ رہے ہیں‘‘ حالانکہ اب این آر او مانگنے کا سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ حکومت کے کافی مطالبات تسلیم کر چکے ہیں اور باقی کی ٹھوس ضمانت دے چکے ہیں البتہ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ بلکہ برخورداروں کا معاملہ اسی طرح لٹک رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بھائی صاحب نے حکومت کی جتنی باتیں مان لی ہیں وہی کافی ہیں اور حکومت محض لالچ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں شریک تھے۔
مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ ناقابلِ
برداشت، جلد آزاد ہوگا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ ناقابلِ برداشت، جلد آزاد ہوگا‘‘ کیونکہ اب تک تو قدرے قابلِ برداشت رہا ہے، اسی لیے اب اسے ناقابل برداشت کہہ رہے ہیں کہ ہر چیز کی طرح ناجائز قبضے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور اسی طرح ہماری برداشت کی بھی، اس لیے اب اسے خود ہی آزاد ہو جانا چاہیے یا بھارتی حکومت کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں جو اگر ان کے پاس نہیں ہیں تو ہم انہیں مہیا کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس فالتو پڑے ہوئے ہیں جنہیں ہم نے کبھی استعمال نہیں کیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شاید
ایک صاحب سے اُن کا ایک دوست ملنے کے لیے آیا تو ان کا کتا بھونکتا ہوا ان کی طرف لپکا تو وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے، اس پر وہ صاحب بولے: ڈرنے کی ضرورت نہیں، کیا آپ نے پڑھا ہوا نہیں ہے کہ جو بھونکتے ہیں کاٹا نہیں کرتے۔ ''میں نے تو پڑھا ہوا ہے‘‘۔ دوست بولا۔ ''شاید آپ کے کتّے نے نہ پڑھا ہوا ہو‘‘۔
مزید
وکیل نے بحث کے دوران قاضی کو ایک قانون کی کتاب پیش کرتے ہوئے جس میں دس ہزار کے نوٹ رکھے ہوئے تھے، کہا: ''جناب والا، اس کے صفحہ نمبر 420 پر وہ نظیر درج ہے جو میرے مقدمے کو ثابت کرتی ہے‘‘۔ قاضی نے کتاب کھولی اور نظروں ہی نظروں میں نوٹ گن کر کہا: ''یہ مقدمہ ثابت کرنے کے لیے اس طرح کی دو نظیریں مزید درکار ہیں!‘‘
اور، اب پشاور سے محمد اسحاق وردگ کی شاعری:
جب خسارے ہی کا سرمایا ہوں میں
پھر زمیں پر کس لیے آیا ہوں میں
ٹوٹے کرداروں کا ملبہ جوڑ کر
اک نیا قصہ بنا لایا ہوں میں
خواب تک تو ٹھیک تھا لیکن میاں
جاگنے کے بعد گھبرایا ہوں میں
جس کی بنیادوں میں شب کا حسن ہے
ایسی کالی دھوپ کا سایا ہوں میں
اب زمین پر یہ تعارف ہے مرا
آسماں سے بھاگ کر آیا ہوں میں
اس صدی کی جنگ کے میدان میں
اپنے ہی اعصاب پر چھایا ہوں میں
اے پشاورؔ آخری کوشش ہے یہ
خواب سے اک فاختہ لایا ہوں میں
......
آج بیمار پڑا ہوں تو مجھے یاد آئے
خاص کچھ لوگ جنہیں چارہ گری آتی ہے
روشنی ساتھ نبھانے سے جہاں ڈر جائے
ان اندھیروں کو وہاں ہم سفری آتی ہے
زندگی سے بھی کوئی تازہ خبر ملتی نہیں
اور اخبار سے بھی بے خبری آتی ہے
آج کا مقطع
آخری چال غلط چل گیا تھا خود ہی ظفرؔ
اس طرح جیتا ہوا کھیل بھی ہارا میں نے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved