ہم ترکی کے ساتھ کھڑے رہیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''ہم ترکی کے ساتھ کھڑے رہیں گے‘‘ جبکہ ہمیں کسی نہ کسی کے ساتھ کھڑا رہنے کی ویسے بھی عادت پڑی ہوئی ہے جیسا کہ پہلے ہم کشمیریوں کے ساتھ کافی عرصہ کھڑے رہے، اور اب ہم نے انہیں اللہ کے سپرد کر دیا ہے لیکن ہمیں کھڑا دیکھ کر موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بعض مافیاز بھی آ کر ہمارے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، حالانکہ ہم ان کے ساتھ نہیں بلکہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور بیٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ حالانکہ انہیں کئی بار کارونا کا ڈر اوا بھی دیا گیا ہے لیکن وہ نہیں مانتے اور جو کارونا کے پھیلائو کی سب سے بڑی وجہ بھی ہیں، حتیٰ کہ سمارٹ لاک ڈائون کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
سپورٹس کمپلیکس روک کر اربوں کا نقصان کیا گیا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''سپورٹس کمپلیکس روک کر اربوں کا نقصان کیا گیا‘‘ کیونکہ میرا نقصان بھی قوم ہی کا نقصان ہے کہ میں بھی اس قوم کا حصہ ہوں اور کروڑوں کا نقصان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اربوں کا نقصان تو ویسے بھی آدمی کی چیخیں نکال دیتا ہے جبکہ وہ سارے کا سارا زمانہ فائدہ اٹھانے کا تھا، نقصان اٹھانے کا نہیں۔ لیکن اس کو روک کر بہت بڑی غریب مار کی گئی ہے کیونکہ حقیقت میں تو میں بھی ایک غریب بلکہ مفلوک الحال آدمی ہوں اور اپنی غریبی دُور کرنے کا مجھے پورا پورا حق حاصل ہے لیکن حق تلفی کے اس دور میں کسی شریف آدمی کی حق رسی ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عید پر کارونا روکنا ضروری ہے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عید پر کارونا روکنا ضروری ہے‘‘ کیونکہ اب تک عوام نے ہمارا کہا نہ مان کر اور کارونا پھیلانے کا شوق کافی حد تک پورا کر لیا ہے۔ اس لیے جو اس کا نشانہ بننے سے بچے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بکروں وغیرہ کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی قربانی بھی دینی پڑ جائے، اس کے علاوہ اس قربانی کے بعد جو لوگوں کی تعداد میں کمی آئے گی اس کی وجہ سے ہمارا کام بھی کافی حد تک آسان ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہورمیں راجہ ریاض اور احسان نواز سے ملاقات کر رہے تھے۔
کچھ ریکارڈ کی درستی بارے
قارئین نے نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ عرصے سے میں نے ریکارڈ کی درستی کا سلسلہ موقوف کر دیا ہے کیونکہ میرا شکر گزار ہونے کے بجائے کالم نویس خواتین و حضرات نے الٹا شکایتیں شروع کر دی تھیں۔ یعنی نیکی برباد، گناہ لازم۔ ان لوگوں کا مسئلہ بھی ہے کہ یہ شعر کے اوزان سے واقف نہیں ہوتے اور بظاہر اپنے کالم کو خوبصورت بنانے کے لیے اشعار شامل کرتے ہیں لیکن شعر کو غلط یا وزن کا خیال رکھے بغیر درج کرنا شعر کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے اور شاعر کے ساتھ بھی لیکن جہاں خود شعراء ایسی غلطی کریں وہ کہیں زیادہ تشویش انگیز ہے جس کی نشاندہی از بس ضروری ہے اور شعراء کو آپس میں یہ کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ وہ بھلائی ہے جو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے رہنی چاہیے۔ میں اگر ایسا کرتا ہوں تو یہ ایک دعوتِ عام بھی ہے کہ خدارا میری غلطیوں کی بھی نشاندہی کریں تا کہ میں اپنی اصلاح کر سکوں اور آئندہ ایسی غلطی سے اجتناب کروں کیونکہ غلطیاں تو ہم سب کرتے ہیں جو کم علمی کی بنا پر بھی ہوتی ہیں اور لاپروائی کی وجہ سے بھی، کہ یہ تقاضائے بشریت بھی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی میرے شعر میں کسی غلطی کی نشاندہی کرے تو میں اسے اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ اس لیے یہ ایک اچھا کام ہے اور کرتے رہنا چاہیے بلکہ میرا تو ایک عرصے سے ماٹو ہی یہ شعر چلا آ رہا ہے ؎
شرمندہ بہت ہیں‘ ظفرؔ ‘ اس عیبِ سُخن پر
اور‘ اس کے سوا کوئی ہنر بھی نہیں رکھتے
اور جتنی بھد اپنی شاعری کی خود میں نے اڑائی ہے، کوئی اور کیا اڑائے گا بلکہ میں تو سیلف پیروڈائزیشن میں یقین رکھنے والا آدمی ہوں اور تعلّی کا کوئی شعر میرے ہاں ڈھونڈنے ہی سے ملے گا جبکہ شہزاد احمد نے ایک بار میرے بارے میں لکھا تھا کہ یہ ردِّ تعلّی کا شاعر ہے۔ میری بسیار گوئی کو بھی ایک عیب سمجھا جاتا ہے جس کی اپنی وجوہات ہیں۔ میں تو دوسروں سے بھی کہا کرتا ہوں کہ زیادہ لکھیں کیونکہ زیادہ لکھیں گے ہی تو اس میں سے کچھ نکلے گا بھی، کم لکھیں گے تو اس میں سے کیا نکلے گا؟ چند برس پہلے حلقۂ ارباب ذوق نے میرے ساتھ ایک شام منانے کا اہتمام کیا تھا۔ تقریب سے فارغ ہو کر نکل رہے تھے تو ایک نوجوان نے میرے کان میں آہستہ سے کہا:
ظفر صاحب، تساں بس کدوں کرنی ایں؟‘‘
میں نے جواب میں انہیں اپنا یہ شعر سنایا ؎
یہ ابھی تو میری سمجھ میں بھی نہیں آ رہی
میں جبھی تو بات کو مختصر نہیں کر رہا
اور کہا کہ جب بات سمجھ میں آ گئی تو بس کر دیں گے! وما علینا الاالبلاغ۔
اور، اب فیصل ہاشمی کی یہ نظم:
کئی لمحے
تمہیں معلوم ہے جب بھی پرانے یار
گلیوں کی تونہی بے سُود باتوں میں
کئی گھنٹوں کی، بے مصرف
نشست ِ رائگاں کو یاد کرتے ہیں
تو کتنا لطف آتا ہے!
پرانے گھر میں گزرے پل
اور ان میں سب کہی اور ان کہی باتوں کو
جب دہرایا جاتا ہے
تو کتنا لطف آتا ہے!
تمہیں معلوم ہے
جب اس طرح کے ان گنت لمحے
جنہیں ہم یاد کرتے ہیں...
جنہیں ہم ڈھونڈتے ہیں زندگی کی ہر اُداسی میں
مقید ہیں گھڑی کے عین مرکز میں رواں
اِن سوئیوں کی؍بے صلہ، بے کار حرکت میں!
تمہیں معلوم ہے
جب بھی مجھے ان کی ضرورت تھی
تو میں نے ''وقت‘‘ سے
اِن آخری ایام میں اتنی گزارش کی :
مجھے دے دو، وہ سب لمحے
کہ اب اُن کی ضرورت ہے!
تو وہ مجھ سے یہی کہتا:کئی لمحے
کلائیوں پر بندھی گھڑیوں سے باہر ہیں
انہیں میں کیسے واپس دوں
انہیں لوٹائوں میں کیونکر!
آج کا مقطع
طبع ظفرؔ کی رفتہ رفتہ
سوچ سمجھ سے عاری ہو گئی