مل بیٹھنا بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کا حال کچھ اُن سے پوچھئے جنہیں یہ نعمت میسّر ہے اور اُن سے بھی جنہیں یہ میسّر نہیں۔ انسانوں کو اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ مل کر رہیں، ایک دوسرے سے مدد چاہیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور مل کر اِس دنیا کو زیادہ سے زیادہ دل کش بنانے پر متوجہ رہیں۔ یہ دنیا وہ سمندر ہے جس میں کوئی بھی انسان جزیرہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی انسان تنہا کچھ نہیں۔ اقبالؔ نے کہا ہے ؎
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور، بیرونِ دریا کچھ نہیں
اگر کسی میں بے حساب صلاحیتیں ہوں اور سکت بھی پائی جاتی ہو تب بھی وہ تنہا زیادہ دور نہیں چل پاتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ چل ہی نہیں سکتا۔ یہاں وہی پاتے اور چلتے ہیں جو مل کر رہتے ہیں۔ ہر انسان کو اس حقیقت کا کماحقہٗ ادراک ہونا چاہیے کہ اُسے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ معاشرے میں رہتے ہوئے کرنا ہے یعنی دوسروں کی مدد کرنی ہے اور دوسروں سے کام لینا ہے۔ اشتراکِ عمل ہی زندگی کا اصل حُسن ہے۔
اُسے خوش نصیب ہی گردانیے جسے مخلص احباب میسر ہوں۔ احباب کی بدولت انسان بہت کچھ پاتا ہے۔ یہ عجیب تعلق ہے۔ اِس میں بالعموم تصنّع نہیں ملتا۔ کوئی ذاتی غرض بھی بالعموم نہیں پائی جاتی۔ دوستوں کو جوڑ کر رکھنے والی ڈور خلوص ہے۔ یہی ڈور کئی افراد کو دوستی کے دریا میں سرگرمِ سفر رکھتی ہے۔ دوستی ہی کچھ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اِسی سے کچھ کر گزرنے کی لگن نصیب ہوتی ہے۔ دوست ہی حوصلہ بڑھاتے ہیں اور دوست ہی زندگی کو زیادہ بامعنی بنانے پر متوجہ رہنے کی تحریک دیتے ہیں۔ فانیؔ بدایونی نے خوب کہا ہے ؎
زندگی ہے نام لطفِ صحبتِ احباب کا
یہ نہیں فانیؔ تو جینا کوئی جینا ہی نہیں
جن کے نصیب میں دوست لکھے ہوں اور دوستی سے کماحقہٗ استفادے کی توفیق بھی نصیب ہوئی ہو‘ اُن کے شب و روز کچھ اِس طور گزرتے ہیں کہ لوگ فرق محسوس کیے بغیر نہیں رہتے۔ یہ دوستی ہی تو ہے جو انسان کو کسی بھی شعبے میں انجام کی پروا کیے بغیر کچھ بھی کر گزرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ ہر انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے تحریک لازم ہے۔ حلقۂ احباب وسیع ہو تو انسان کو بہت کچھ کر گزرنے کا حوصلہ نصیب ہوتا رہتا ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر توازن شرط ہے۔ دوستی مل بیٹھنے کا نام ہے مگر محض مل بیٹھنا زندگی نہیں۔ یہ زندگی کا محض ایک پہلو ہے۔ زندگی کا حُسن جن بہت سی باتوں سے مل کر بنتا اور برقرار رہتا ہے‘ دوستی بھی اُنہی باتوں میں سے ہے۔ زندگی کے میلے کی رونق بڑھانے میں دوستی کا کردار کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب کوئی کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو دوست ہی آس بندھاتے ہیں، حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ جن کے دوست نہ ہوں وہ بالعموم منصوبہ سازی کے مرحلے میں بدگمان اور بے حواس ہوکر حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ یہ نکتہ بہرحال ذہن نشین رہے کہ دوستی کسی بھی بڑے اور نمایاں کام کے لیے حوصلہ بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر ہر معاملے میں محض دوستی پر مدار رکھنا درست طرزِ فکر و عمل نہیں۔
ماحول انسان کو بہت کچھ دیتا ہے، بہت کچھ سکھاتا ہے مگر یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ ماحول سے کچھ لینے یا سیکھنے کا عمل لاشعوری نہیں۔ انسان کو اِس طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ جس طور کسی درس گاہ میں سیکھنے پر متوجہ ہونا پڑتا ہے تب ہی کوئی سبق سیکھا جاتا ہے‘ بالکل اُسی طرح زندگی بھی ہم سے بیشتر معاملات میں غیر معمولی توجہ چاہتی ہے۔ اگر متوجہ نہ ہوں تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ کسی سے متاثر ہونا اور کچھ سیکھنا اپنی اصل میں شعوری عمل ہے۔ ہم اپنے آپ کچھ نہیں سیکھتے بلکہ سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔
زندگی کے خاکے میں رنگ بھرنے اور کچھ بہتر کرنے کی تحریک پانے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے حلقۂ احباب سے تعلق استوار رکھے۔ یومیہ معمولات کی یکسانیت سے جان چھڑانے کے لیے احباب کی سنگت لازم ہے۔ ہم خیال افراد کا گروہ حلقۂ احباب کہلاتا ہے۔ کم و بیش ہر معاشرے میں حلقۂ احباب کچھ الگ ہی نوعیت کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر دور کا انسان دوستی کو رشتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر تعلقات سے بہت ہٹ کر کچھ انوکھا معاملہ قرار دیتا آیا ہے۔ اور یہ بات غلط بھی نہیں۔ دوستی یا رفاقت ہی زندگی کو نیا رخ دیتی ہے، کچھ فرق پیدا کرتی ہے۔ جس کا حلقۂ احباب متنوع اور عمل پسند ہو‘ وہ کچھ نہ کچھ بنتا ہے، کچھ نہ کچھ کر دکھاتا ہے۔
فانیؔ کے بقول زندگی لطفِ صحبتِ احباب کا نام ہے اور اگر یہ نہ ہو تو جینے میں کچھ مزا ہی نہیں، بلکہ ایسے جینے کو جینا نہیں کہا جاسکتا۔ درست مگر یہاں اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور سوچنا بھی لازم ہے۔ بہت سوں کو اِس حالت میں دیکھا گیا ہے کہ دوستی کی چوکھٹ پر قربان ہوئے جاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک دوستی ہی سب کچھ ہے۔ حد یہ ہے کہ وہ قرابت داروں یعنی رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ اہلِ خانہ کو بھی نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ انتہا ہے اور ہر انتہا کی طرح اس انتہا سے بھی گریز لازم ہے۔ ہر چیز اعتدال کے دائرے میں اچھی لگتی ہے۔ ہم پر دوستوں کا بھی حق ہے مگر اِس سے پہلے اہلِ خانہ کا حق ہے۔ انہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
احباب کی صحبت سے لطف کشید کرنا بھی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے مگر یہ معاملہ اِس حد تک نہیں بڑھنا چاہیے کہ باقی سب کچھ طاقِ نسیاں پر دھرا رہ جائے۔ زندگی کا حقیقی حُسن توازن اور اعتدال سے ہے۔ اللہ کی ایک اہم صفت عدل بھی ہے۔ یہی صفت وہ اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ ہمیں ہر معاملے میں عدل کا خیال رکھنا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پوری زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
احباب کے ساتھ مل بیٹھنا زندگی کا ایک اہم پہلو ہے‘ زندگی نہیں۔ اچھی صحبت ہمیں بہت کچھ دیتی ہے۔ اچھوں کی صحبت میں بیٹھ کر طبیعت کِھلی کِھلی رہتی ہے، دل و دماغ کی تازگی برقرار رہتی ہے۔ یہ ایسی نعمت ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ ہاں! اِس نعمت کو اپنے لیے زحمت میں تبدیل کرنے سے گریز ہی بہتر ہے۔ اپنے پورے وجود کو حلقۂ احباب کی نذر کرنا انتہائی خطرناک روش ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے والے بالعموم پریشان ہی پائے گئے ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے میں ایسے لوگ ملیں گے جو حلقۂ احباب کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور یوں قرابت داروں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنانے پر متوجہ رہنا لازم ہے۔ مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ پریشانی کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ انسان کچھ دل بستگی کا سامان کرے، کچھ ایسا کرے جس سے معاملات میں پائی جانے والی خرابی دور ہو اور دل د دماغ کو راحت نصیب ہو۔ آج کی دنیا اچھی خاصی الجھی ہوئی ہے۔ الجھنوں سے نجات پانا اُسی وقت ممکن ہے جب اس حوالے سے جامع اور مثبت سوچ اپناکر سرگرمِ عمل ہونے کے بارے میں سوچا جائے۔ زندگی کو خانوں میں بانٹ کر جینا کچھ بُرا نہیں، شرط یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو کسی ایک خانے میں نہ سموئے۔ دوستی بھی ہمارے لیے ایک خانہ ہی ہے مگر تمام معاملات کو اِس خانے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ اعتدال پسندی شرط ہے۔ حلقۂ احباب سے ایک خاص حد تک مستفید ہونا ہی زندگی کو متوازن رکھتا ہے۔ اس راہ پر چلتے رہنے کی صورت میں ہم دوسرے بہت سے اہم معاملات سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زیادتی خواہ کسی معاملے میں ہو‘ مسائل پیدا کرتی ہے۔ احباب پرستی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ احباب کا خلوص ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں۔ یہ خلوص ہی ہمیں نفسی اور روحانی طور پر توانا رکھتا ہے۔ مخلص احباب کا ملنا نعمت ہے مگر اُن کے خلوص سے مستفیض ہونے کا معاملہ بھی توازن کا متقاضی ہے۔