کون نہیں جانتا کہ کس کس نے اس غریب ملک کے غریب عوام کو مسلسل لوٹ مار کا شکار بنائے رکھا ہے۔ جب بھی اقتدار ملا ہمارے کچھ سیاسی خاندانوں کو‘ تو خود بھی لوٹا اور حواریوں اور گماشتوں کے لئے بھی کھلی چھٹی کا اعلان تھا۔ رشوت تو ایک عامیانہ اور سستا سا لفظ محسوس ہوتا ہے‘ بالکل بے وقعت‘ بے معنی۔ یہ پُرانے زمانے کی سیاست اور نوکر شاہی کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں مگر گزشتہ چالیس برسوں کی سیاست‘ اقتدار کی کئی جنگیں جو ریاستی وسائل سے بڑے معتبر سیاسی خاندانوں نے لڑیں‘ اور پھر لڑتے ہی رہے‘ تو ملکی وسائل کی تقسیم بھی اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ہونے لگی۔ اراکینِ اسمبلی کی معتدبہ اکثریت نے جب دیکھا کہ بازار گرم ہے تو انہوں نے بھی اپنی سیاسی وفاداریوں اور نظریات کو چھوڑ کر شخصیات کی منشا کی تابع داری کرنا شروع کر دی۔ انسانی معاشروں اور انسانی فطرت کا مطالعہ فرمائیں تو پتہ چلتا ہے کہ انارکی پھیلتے ہی لوگ سب سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ سیاسی بازار کی گرما گرمی میں جو انارکی پھیلائی گئی اس کے اثرات آج کی سیاست میں بھی غالب نظر آتے ہیں۔ دھڑے بنتے نہیں‘ بنائے جاتے ہیں۔ لوگ‘ معاف کیجئے‘ ارکانِ اسمبلی ٹوٹتے نہیں‘ توڑے جاتے ہیں‘ سوائے ان کے جو اپنا دامن ایسی سیاست کی آلودگیوں سے پاک رکھنا جانتے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد کم ضرور ہوتی ہے‘ لیکن اب بھی کچھ روشنی کے مینار موجود ضرور ہیں۔
تھوڑا سا ماضی قریب‘ اور کچھ ماضی بعید کا ذہنی سفر گوارا کر سکیں تو معلوم ہو گا کہ دو خاندانوں کی سیاسی جنگ کے دوران‘ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات بنوائے‘ احتساب کا عمل شروع کر کے ساری دنیا سے شواہد جمع کئے‘ اور عدالتوں کے سامنے پیش بھی کئے۔ انہیں کے فراہم کردہ ثبوتوں‘ دستاویزات اور تفتیش کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کے بڑے بڑے اخباروں اور رسالوں میں تواتر سے صرف خبریں نہیں‘ بلکہ سرخیاں بھی لگیں۔ ہمارے کچھ بہادر صحافیوں اور اخباروں نے گرم بازاری کی تمام تر ترغیبات کے باوجود عوام کو سب کچھ بتایا‘ تمام حقائق سے آگاہ کیا‘ سینکڑوں پروگرام ہوئے‘ کچھ نے دھڑلّے سے بے خطر ہو کر ثبوت بھی عوام کے سامنے رکھے۔ انہوں نے اپنا فرضِ منصبی نبھانے کا حق ادا کر دیا۔ میرے نزدیک زیادہ تر صحافی اور کالم نگار حق کی بات کرتے رہے‘ سب کے بارے میں تو کسی بھی معاشرے میں یکساں رائے نہیں ہو سکتی۔
چلو صاف بات کر لینے میں حرج نہیں‘ کیونکہ سنا ہے وہ صاف گوئی کو پسند کرتے ہیں‘ اور ایسے ہی لوگوں کو‘ دروغ بر گردنِ راوی‘ اپنے قریب رکھتے اور لاتے ہیں۔ غالباً وہ میاں نواز شریف کی حکومت کا پہلا یا دوسرا دور تھا۔ انہوں نے پاکستان سٹیل ملز کے ایک سابق سربراہ‘ جن کے خاندان کے پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے گہرے تعلقات ہیں‘ کے خلاف مقدمات بنوائے اور ایک بینک میں تالا بند کروڑوں روپے مالیت کے فکسڈ ڈیپازٹ سرٹیفکیٹ برآمد کروا کے ٹیلی وژن سکرین کی زینت بنوائے۔ جن کے خلاف مقدمات بنے‘ ہمیشہ کی طرح وہ کہتے رہے کہ ہمارے خلاف کیا ثبوت ہیں؟ اس کے جواب میں میاں صاحب نے فرش پر پڑے ان کے نام بنے ہوئے سرٹیفکیٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سب کچھ تو سب کے سامنے پڑا ہے‘ اور یہ ثبوت مانگتے ہیں‘ اور کون سا ثبوت چاہئے؟ پاکستان کے گرم بازار کی ہر کہانی کا انجام برِ صغیر کی فلموں کے انجام کے مشابہ ہوتا ہے۔ آخر میں ہیرو اور ہیروئین سمندر کے کنارے مٹر گشت کرتے یا کسی پارک میں پھیلے سبزہ زاروں میں ہنستے گاتے اور ٹہلتے ہوئے گھر روانہ ہو جاتے ہیں۔ سب دشمن مات کھا جاتے ہیں۔ یہ ایک خاندان کی نہیں‘ پاکستان کے متعدد سیاسی خاندانوں کی کہانی ہے۔ وہ سب جو قانون پر عمل کرنے کے پابند ہیں‘ گرم بازاری کے گاہک نظر آتے ہیں۔
جب لوگ ہر دفعہ انہیں منتخب کرتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے تو ہمارا احتساب کر لیا‘ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے اوپر سوال اٹھانے والے؟ عوام سے جا کر پوچھو‘ وہ ہم پر کیوں اعتماد کرتے ہیں؟ ہماری بات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ لوگوں کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کا زاویہ نظر‘ معاف کیجئے‘ فسطائی ہے۔ یہ نظریہ عوام کو حقیر‘ نا قابلِ اعتبار‘ لالچی‘ مفاد پرست‘ غیر دانش مند قرار دیتا ہے۔ سیاست دانوں اور کچھ دانش وروں کا حلقہ اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ عام آدمی کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے؛ چنانچہ بس بناتے ہی رہیں اور اپنا سیاسی الو سیدھا کرتے ہی رہیں۔ یہ فسطائی اس لحاظ سے ہے کہ عام انسانوں کی اہلیت‘ حقوق اور عقلیت کو مساوی نہیں خیال کرتا۔ اس کے تحت حکمران طبقہ پڑھا لکھا‘ عقل مند اور عنانِ حکومت سنبھالنے اور معاشرے کی رہبری کے لائق ہے جبکہ عوام ایک ایسا ریوڑ ہیں‘ جن کو کسی بھی سمت میں رکھنا اور چلانا حکمرانوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جمہوری نظریہ عام اور خاص میں تمیز نہیں کرتا۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ سب کے یکساں حقوق ہیں اور سب اپنی فطری صلاحیتیں اجاگر کرنے اور اپنا معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس کے تحت ریاست کا فرض ہے کہ سب کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرے‘ صحت کی سہولیات سب کے لئے ایک جیسی ہوں‘ اور ہر انسان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب میں پنہاں جواہر نمایاں ہو سکتے ہیں۔ ہماری جمہوریت میں تو کسی بھی طرح لوگوں کے ووٹ لینا‘ اپنے سیاسی حریف یا حریفوں کو کسی بھی طرح شکست دینا اور پھر اقتدار میں آ کر وہ سب کچھ کرنے کو جائز سمجھا جاتا ہے‘ جو گزشتہ چالیس برسوں میں وطنِ عزیز میں ہوتا چلا آ رہا ہے‘ اور جس پر صرف اس وقت تنقید کی جاتی ہے جب اقتدار ہاتھ میں نہ ہو۔ اس بات کا جواب ابھی باقی ہے کہ ہمارے یہ مضامین لکھنے اور تواتر سے ان موضوعات کو سالہا سال سے زیرِ بحث لانے کے باوجود عوام پھر انہیں پارٹیوں اور انہیں امیدواروں کے حق میں بار بار ووٹ کیوں دیتے ہیں‘ جن کو وہ پہلے بھی آزما چکے ہوتے ہیں۔ لوگ کن وجوہات کی بنا پر ووٹ دیتے ہیں‘ اس بارے میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ تحقیق سیاسیات کے علم میں کی گئی ہے۔ ایک نہیں کئی وجوہات ہیں‘ اور کئی عوامل ووٹ ڈالنے والے کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے کا سماجی‘ سیاسی اور معاشی پس منظر مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ علاقوں میں قبائلیت کا راج ہے‘ کچھ علاقوں میں ذات پات‘ برادری‘ قوم اور وڈیرہ شاہی کا غلبہ ہے۔ ایسے سیاسی نظام میں کوئی ''اپنا‘‘ کچھ بھی کر گزرے‘ بے شک ملک کو منظم طریقے سے کنگال بھی کر چکے‘ لوگوں میں اس ''اپنے‘‘ ہی کو ووٹ دینے کا رجحان نظر آتا ہے‘ اور پھر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ دوسرے کون سے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔
ہماری نا پختہ جمہوریت میں سیاسی شعور کی بالیدگی کی کئی منزلیں سر کرنا ابھی باقی ہیں۔ نظام ہی ایسا ہے کہ لوگ مقامی طور پر مسائل میں دھنسے ہوئے ہیں‘ مختلف شعبوں کے معاملات میں شفافیت نہیں ہے‘ طرزِ حکمرانی پابند قانون نہیں‘ کام نکلوانے کے لئے پیسہ یا سفارش اور تھانہ کچہری میں ''اپنے‘‘ کی حمایت ضروری ہے۔ لیکن عوام بے وقوف ہیں‘ نہ ہی بنائے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی چیز زیادہ دیرپا یا ہمیشہ کے لئے ہرگز نہیں ہے‘ مگر جاگیردارانہ نظام میں جکڑے عوام کی مدد محض اعلانات کے ذریعے نہیں کی جا سکتی۔ انہیں اگر یقین ہو کہ انصاف ملے گا‘ تعلیم اور ترقی کسی وسیلے سے نہیں‘ ریاستی حکمرانی سے بطور حق ملے گی‘ اور ہاں ''اپنے‘‘ کا خوف دور ہو گا تو پھر آپ تاج اچھلتے دیکھیں گے‘ اور وہ دن بھی کہ جس کا وعدہ ہے۔