تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     17-07-2020

کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

سچ پوچھیں تو نہ خبریں سننے کو دل چاہتا ہے اور نہ ٹاک شوز دیکھنے کو جی مانتا ہے۔ نصف صدی کی شعوری زندگی میں ایسی بے کلی اور بے رغبتی کبھی محسوس نہ کی تھی۔ اصل ایشوز پر نہ حکومت بات کرتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن اس طرف آتی ہے۔ جو اس ملک کے اصل مسائل ہیں ان کا حکومت کے فسانے میں کہیں ذکر نہیں۔ ملک کے ان مسائل کو بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ خود عمران خان نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران بہت اجاگر کیا تھا۔ خان صاحب نے لوگوں کو ایجوکیٹ بھی کیا اور انہیں اُن کے حقوق، اُن کے مسائل اور اُن کے وسائل کے بارے میں ادراک سے بھی نوازا تھا۔ انہوں نے نہ صرف مسائل کی بات کی بلکہ اُن کا حل بھی بتایا تھا؛ تاہم برسراقتدار آکر اس حکومت نے وہ کچھ کیا کہ سابقہ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ طیارے کے حادثے کے بعد سیاسی مخالفین کو رُسوا کرنے کے شوق میں وزیر ہوابازی نے ایوان میں یہ کہہ کر کہ پائلٹوں کی ایک بڑی تعداد کو جعلی لائسنس جاری کیے گئے تھے ‘پی آئی اے کی برسوں پرانی ساکھ کو تباہ کر دیا۔ یہی نہیں مختلف ملکوں اور ایئرلائنوں میں کام کرنے والے ماہر پاکستانی پائلٹوں کو دنیا کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کردیا لیکن اب سول ایوی ایشن اتھارٹی پاکستان نے پوری ذمہ داری سے اعلان کیا ہے کہ ہماری طرف سے جاری کردہ کوئی لائسنس جعلی نہیں۔ مختلف ایئرلائنوں نے 108 پائلٹس کے لائسنسوں کی تصدیق کرنے کو کہا تھا۔ سول ایوی ایشن نے اُن میں سے 96 کے درست ہونے کی تصدیق کی ہے اور باقی کے بارے میں بھی کہا ہے کہ پروسیجر میں بعض خامیاں تھیں جن کی تحقیق ہورہی ہے؛ تاہم یقینی طور پر کوئی لائسنس جعلی نہیں۔
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس جان لیوا بلنڈر پر نہ وزیر ہوابازی کی آنکھ سے ندامت کا کوئی آنسو ٹپکا‘ نہ ہی جناب وزیراعظم کو توفیق ہوئی کہ وہ غلام سرور خان کے ایوان میں دیئے گئے پہلے بیان کی تصدیق کرنے پر سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اظہارِ معذرت کرتے۔ خان صاحب خود مستعفی نہ بھی ہوتے مگر وزیر ہوابازی سے تو استعفیٰ طلب کرتے۔ 
حکومت نے کشمیر کاز کے ساتھ جو سلوک کیا اور جیسے کشمیریوں کیلئے کچھ نہ کیا جا سکا‘ وہ خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی ہے۔ حیرت ہے کہ ایٹمی پاکستان کے وزیر اعظم مسلم کش بھارتی وزیر اعظم کو خبردار کرنے کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ متعصب بھارتی حکومت کشمیریوں کا اُسی طرح قتل عام کر سکتی ہے جیسے سرب افواج نے بوسنیائی قصبے سربرینیکا میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ سربرینیکا کے مسلمان تو یورپ میں تن تنہا تھے مگر یہاں کشمیریوں کے 22 کروڑ بھائی پاکستان میں بستے ہیں۔ 
وہ بیس بائیس سالہ رابطۂ عوام مہم کے دوران لوگوں کو جن دل خوش کن نعروں سے تحریک انصاف کی طرف متوجہ کرتے تھے اُن میں خوش حال معیشت، ہر بچے کے لیے تعلیم اور یکساں تعلیم، انصاف، مقامی حکومتیں، 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ ملازمتوں کے وعدے بہت نمایاں تھے۔ یوں تو ہرمسئلہ ہی اپنی جگہ اہم ہوتا ہے؛ تاہم چار ایشوز سرفہرست ہیں جن پر حکومت بات کرتی ہے نہ اپوزیشن۔ بڑھتی ہوئی آبادی، گھٹتی ہوئی تعلیم، ناقابل حصول انصاف اور معدوم ہوتی ہوئی لوکل حکومتیں یا بلدیاتی ادارے۔
اب ذرا ایک نظر خوشحال معیشت پر بھی ڈال لیجئے۔ عمران خان برسوں جس وزیر خزانہ کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے‘ وہ سات ماہ میں ہی ناکام ثابت ہو گئے۔ اُن کی جگہ آنے والے تجربہ یافتہ مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے جب پی ٹی آئی حکومت کی گزشتہ سال کی کارکردگی کا معاشی جائزہ پیش کیا تو زیادہ تر اہداف منفی تھے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قومی شرح نمو 0.40 کی سطح پر آ گئی تھی جبکہ ٹیکسوں کی وصولی کے ہدف میں 900 ارب روپے کی کمی ہو گئی تھی۔ آج لوگ مہنگائی کے ہاتھوں بلبلا رہے ہیں۔ اُن کی چیخ و پکار کورونا سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ وقت وقت کی بات ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں آٹا 20 روپے من ہوا تو ایک کہرام مچ گیا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ آج آٹا 54 روپے فی کلو ہوچکا ہے اور اپوزیشن منقار زیر پر ہے۔ جب پی ٹی آئی برسراقتدار آئی تو اس وقت 20 کلوآٹے کا تھیلا 710 روپے کا تھا، آج 1150 روپے کا ہے۔ اس وقت چینی 52 روپے کلو تھی آج 85 روپے ہے۔ اس وقت مہنگائی 4 فیصد تھی اور آج 10 فیصد ہے۔ اس وقت شرح نمو 5.8 فیصد تھی‘ اب کورونا سے پہلے 0.4 فیصد تھی۔ یعنی بیروزگاری کی انتہا۔ جیسے لوز بال اور نو بال یہ حکومت کر رہی ہے اگر کوئی سابقہ حکومت ایسا کرتی تو خان صاحب نے کیا کیا چھکے لگانے اور اُس حکومت کے کیا کیا لتّے لینے تھے۔ اب بھی خان صاحب کا ڈبل رول کرنے کودل تو چاہتا ہوگا کیونکہ اپوزیشن کی کارکردگی بے جان اور غیر دلچسپ ہے۔ ایسے کھیل کا مزہ تونہیں آتا۔ 
یوں تو سارا کاروبارِ حکومت نان ایشوز پھیلا کراور سابقہ حکمرانوں پر تبرّا بھیج کر چلایا جا رہا ہے؛ تاہم جب حکومت کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کرپائی تو وہ سونامی کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو متوجہ کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی ''پروجیکٹ‘‘ شروع کر دیتی ہے:
ہاں ڈوبتے ہوئوں کی بڑھانے کو بے کسی
حد نظر پہ کوئی کنارا بھی چاہئے
حکومت نے ایک بار پھر نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 50 لاکھ نہیں صرف ایک لاکھ گھروں سے۔ حکومت نے اس کام کے لیے سرمایہ کاروں سے کہا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کریں اور کم قیمت والے گھر 25 لاکھ روپے کی لاگت سے بنائیں۔ ہر گھر کے لیے حکومت 3 لاکھ روپے بطور سبسڈی دے گی جبکہ بینک ہر الاٹی کو 5 فیصد شرح سودپر سرمایہ فراہم کریں گے۔ نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کے کارِخیر کے لیے حکومت نے سرمایہ کاروں کودسمبر تک مہلت دی ہے کہ وہ کالا دھن لائیں یا سفید دھن یا جیسا کیسا دھن لائیں اُن سے کوئی سوال جواب نہیں ہوگا۔ گویا ''اپنا گھر‘‘کے کارِخیر میں کالا دھن اور سود دونوں استعمال ہوں گے۔ع
میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی
وزیر اطلاعات شبلی فراز نہایت سنجیدہ شخصیت ہیں اور بالعموم گرم گفتاری سے اجتناب کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا‘ ہم اس کی عملی تعبیر پیش کریں گے۔ تحریک انصاف نے اپنے اقتدار کے پہلے دو برسوں میں اس ''عملی تعبیر‘‘ کی جو تصویر پیش کی ہے وہ خوش نما نہیں، نہایت بھیانک ہے۔ ایک لاکھ گھروں کا یہ منصوبہ تخیّلاتی زیادہ ہے اور حقیقی کم۔ اس وقت کورونا نے ہر شے کو غیریقینی بنا دیا ہے اس لیے اس منصوبے کی طرف کم ہی لوگ متوجہ ہوں گے۔ بینکوں کے پاس جب تک سرمائے کی واپسی کی گارنٹی نہیں ہوگی وہ بآسانی کم آمدنی والے لوگوں کوقرض نہیں دیں گے۔ حکومت نے صرف پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا جو پروگرام دیا ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ 70 برسوں سے حکمران اس طرح کے خوش نما نعروں سے لوگوں کو لبھاتے اور بالآخر مایوس کرتے رہے ہیں۔ بیچارے لوگ ابھی تک گھر کی تلاش میں ہیں۔
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved