تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-07-2020

کاک ٹیل

تنخواہوں میں انکریمنٹ ختم کرنا ظلم ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''تنخواہوں میں سالانہ انکریمنٹ ختم کرنا ظلم ہے‘‘ لیکن اتنا بڑا ظلم نہیں جتنا ہم پر کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ہمارے حل شدہ مسائل میں روڑے اٹکا رہی ہے جنہیں حل کرنے میں ہم نے دن رات ایک کر دیا تھا اور اگر ملک میں کوئی فرد بھی خوشحال ہو تو سارا ملک ہی خوشحال تصور کیا جاتا ہے جبکہ سیاست میں آنے کا مقصد ہی خود خوشحال ہو کر ملک کو خوشحال کرنا ہے اور اصول بھی یہی ہے کہ اوّل خویش بعد درویش اور ایسا لگتا ہے کہ قوم نے درویشی اپنے آپ میں اختیار کر رکھی ہے‘ حالانکہ اس میں ہماری عاجزانہ مساعی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی نے معیشت تباہ کر دی: طلال چوہدری
نواز لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی نے معیشت تباہ کر دی‘‘ حالانکہ جب ہم رخصت ہوئے تھے تو معیشت آخری سانس لے رہی تھی اور ایک تباہ شدہ چیز کو مزید تباہ کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے جبکہ ساری کی ساری معیشت تو خدمت کے کھاتے میں چلی جاتی تھی اور پیچھے صرف تباہی رہ جاتی تھی چنانچہ اس میں ہماری شبانہ روز کی محنت بھی شامل تھی کیونکہ ایک ملک کی معیشت کو آسانی سے تباہی سے ہمکنار نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے خصوصی ذہانت اور ہنر مندی درکار ہے جس کی ہمارے ہاں اللہ کے فضل سے کوئی کمی نہ تھی ۔آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
پسماندہ علاقوں کو ترقی کا حق دیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پسماندہ علاقوں کو ترقی کا حق دیں گے‘‘ اور اس دوران جو ترقی یافتہ علاقے پسماندہ ہو جائیں گے بعد میں انہیں بھی ترقی کا حق دینا شروع کر دیں گے حتیٰ کہ پہلے والے پسماندہ علاقے دوبارہ ترقی کے حقدار ہو جائیں گے اور اس طرح باری باری دونوں طرح کے علاقے ترقی کرتے رہیں گے اور اس دوران کچھ ہمارے ساتھی بھی اپنے آپ کو ترقی دینے کی کوشش کرتے رہیں گے جبکہ خدا کسی کی کوشش اور محنت کو ضائع نہیں کرتا، اگرچہ ہماری کامیابی کسی کوشش یا محنت کے بغیر ہی ہو رہی ہے اور ہم اس پر خود بہت حیران ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
یہ تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت ہے: اپوزیشن
اپوزیشن کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ''یہ تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت ہے‘‘ جبکہ اس میں سے ہمارے ادوارِ حکومت کو نکال دینا چاہیے کیونکہ اس وقت کرپشن کو کرپشن نہیں کہا جاتا تھا اور محض روٹین کا معاملہ ہوا کرتا تھا ۔ اب ہمارے گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں اور پرانی فائلیں کھولی جا رہی ہیں جو نہایت ادب کے ساتھ بند کر دی گئی تھیں جبکہ یہ مُردوں کے ساتھ بھی سخت زیادتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار اگلے روز سینیٹ کے اجلاس کے دوران کیا گیا۔
بُنبل
یہ سکندر احسن کا پوٹھوہاری زبان میں شاعری کا مجموعہ ہے جسے پوٹھوہار رئیل سٹار پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ انتساب جدید لہجے کے شاعر، ادیب اور نقاد یاسر وحید کے نام ہے جبکہ یہ کتاب خطہ پوٹھوہار کے نامور شاعر اور ادیب ولید پرشاد (مرحوم) کی یاد میں ہے۔ سرِورق حمید ملک (آرٹسٹ) کا تیار کردہ ہے اور جسے مضراب (گوجر خاں) کے زیر اہتمام پیش کیا گیا ہے۔ خصوصی طور پر میٹھی زبان پوٹھوہاری میں عمدہ شاعری پر مشتمل ہے۔ نمونۂ کلام:
اوئے آن کڑوکی پھسے
جنہاں آپ کڑوکی لائی
کیہہ کُج بندہ دسی سکنڑاں
آپوں اپنڑیں بارے وچ
ہنیرے وچ لو پھٹنے تیکر
اکھاں کھولی سونڑاں پیسی
کوزہ گر جے بنتڑاں ای تے
مٹی گارا ٹہونڑا پیسی
جے توں منڑیں دل نی احسنؔ
اوکھا سوکھا ہونڑاں پیسی
ترجمہ: وہی آ کے شکنجے میں پھنسے جنہوں نے خود شکنجہ لگایا۔ بندہ اپنے بارے کیا کچھ بتا سکتا ہے۔ اندھیرے میں لو پھوٹنے تک آنکھیں کھول کر سونا پڑے گا۔ اگر تجھے کُوزہ گر بننا ہے تو مٹی گارا ڈھونا پڑے گا۔ اگر احسنؔ تو نے دل کی بات مانی تو مشکل سے گزرنا پڑے گا۔
کتے کے بسکٹ
ایک صاحب کی پچھلی رات آنکھ کھلی تو انہیں سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے فریج کھولا مگر کوئی چیز دستیاب نہ ہوئی۔ آخر ایک دراز میں انہیں بسکٹ پڑے مل گئے جو انہوں نے مزے لے لے کر کھائے۔ صبح اٹھ کر بیوی سے بولے کہ وہ دراز والے بسکٹ بہت مزیدار تھے جس پر بیوی نے کہا کہ وہ تو کتے کے بسکٹ تھے۔ لیکن انہوں نے کہا: وہ ان کے لیے بھی لایا کرے۔ چنانچہ بیکری سے ان کے لیے وہ بسکٹ ڈبل مقدار میں لائے جانے لگے جس پر ایک دن بیکری والے نے پوچھ ہی لیا کہ آیا کوئی دوسرا کتا آپ کے ہاں آ گیا ہے؟ تو خاتون نے جواب دیا کہ نہیں، میرے میاں کو یہ بہت پسند ہیں جس پر بیکری والے نے کہا کہ احتیاط کریں، یہ انسانوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ خاتون کم بسکٹ لے جانے لگی تو بیکر نے وجہ پوچھی۔ خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر فوت ہو گئے ہیں۔میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ یہ بسکٹ انسانوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے؟ بیکر نے کہا۔ نہیں، وہ بسکٹ کھا کر نہیں مرے۔ خاتون بولی: وہ تو گاڑیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر فوت ہوئے ہیں!
اور، اب کچھ شعرو شاعری ہو جائے:
کانچ رشتے‘ ٹوٹتا گھر خواب تھا
کیسا رونا‘ کس کا ہے ڈر‘ خواب تھا
نیند کے جلتے جھلستے پیڑ پر
سوکھتی پلکیں تھیں‘ اک پر خواب تھا
جاگتی آنکھوں کے تکیے کے تلے
بھیگتی چیخوں کے لب پر خواب تھا
بھول جا وہ تو فقط اک یاد تھی
اُڑ گیا من کا کبوتر‘ خواب تھا
میں نے جو دیکھا نہیں وہ وہم تھا
میں نے جو دیکھا سراسر خواب تھا (خیام ثناء)
ہمارے چہرے سے ہٹتی نہیں ہنسی اک پل
وہ اس سلیقے سے ہم کو اداس کرتا ہے
پہن کے کھال مری گھومتا ہے بستی میں
وہ میرے نام پہ کیا کیا نہ کر گزرتا ہے
کسی سبب سے سہی‘ لطفِ خاص ہے مجھ پر
ٹھہر کے دیکھتا ہے‘ دیکھ کر ٹھہرتا ہے
ہُنر شناس ہوں‘ سو داد دے رہا ہوں اُسے
گناہ کرتا ہے‘ الزام مجھ پر دھرتا ہے (صابرؔ، بھارت)
آج کا مقطع
مجبور ہوں‘ لکھتا ہوں زیادہ کہ ظفرؔ
کم لکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے مجھ کو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved