گولی مارئیے بھئی سیاست کو۔ دفع کیجیے ہر روز کے جھگڑوں کو۔ ہٹائیے خشک، بے مزہ باتوں کو۔ بڑی ناشکری ہے یہ اس نعمت کی کہ اس کے ہوتے ہوئے دوسری باتیں کی جائیں۔ یہ تو دیکھیے کہ جولائی کا مہینہ بیچوں بیچ آن لگا ہے اور آم اپنی پوری مدّ کے ساتھ ہر ٹھیلے، دکان کی رونق ہیں۔ صرف آم ہی نہیں موٹے موٹے جامن بھی۔ صرف جامن ہی نہیں موسلادھار برسات بھی۔ یہ تینوں سامنے ہوں تو بھلا کسی طرف دیکھنے دیتے ہیں؟ ان کے بعد کسی اور کے بیٹھنے کی جگہ بچتی ہے؟
اس سال وبائے عام نے بہار کے آغاز ہی سے دنیا کو دبوچ لیا تھا اس لیے مجھے اپنا وہ پسندیدہ اور مہکار بھرا منظر دیکھنے کاموقع بھی کم کم ملا جو آم کے درختوں پر نئی کونپلوں اور بور کے آغاز کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور کئی ماہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ لیکن جب بھی موقع ملتا رہا میں ان بلند گہرے سبز درختوں سے ملاقات کا وقت نکال لیتا۔ پیدل کا تو خیر مزا ہی اور ہے لیکن گاڑی میں بھی اپنے دفتر جانے کے لیے جناح ہسپتال کی طرف سے جیسے ہی نیو کیمپس کی طرف مڑتا، نہر کے کنارے یہ منظر میرا منتظر ہوتا تھا۔ دور ہی سے وہ پیڑ نظر آنے لگتے جن کی گہری سبز قبا کی اونچائیوں پر نئی نسل کے ہلکے سبز پتے جھلمل کرتے تھے، ان گہرے اور ہلکے رنگوں میں بوڑھے پتوں کا وہ رنگ بھی شامل ہوتا جاتا ہے جیسے پتوں کو زنگ لگ گیا ہو۔ اور جب پھننگوں پر بور کے گچھے نمودار ہوتے ہیں تو ایسا لگتا جیسے زمرد کے چھوٹے چھوٹے موتی بنا دیے گئے ہوں۔ جیسے جیسے یہ بور پھلتا، اس کے اطراف ایک تیز مہکار سے بھرتے جاتے۔ یہ مہکار لطیف تو نہیں ہوتی لیکن جسے اس خوشبو کی عادت پڑ جائے وہ سال بھر اسے ترستا رہتا ہے۔ آم کا باغ یا کئی ایک گھنے درخت مل کر اپنے پھیلاؤ میں وہ مہک پھیلاتے رہتے ہیں جو ہوا کے ساتھ مل کر گزرنے والوں سے چھیڑ خانی کرتی رہتی ہے۔ یہ بور کچھ پرندوں کے کام آتا،کچھ ز مین پر بکھر جاتا اور کچھ چھوٹے چھوٹے چنے جیسے دانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ دانے بڑے ہوکرامبیاں بن جاتے ہیں اور یہ امبیاں جوان ہوکر رس دار آم۔ مہینوں کا یہ تدریجی عمل اپنے ہر مرحلے میں ایک لطف اور ایک ذائقہ ہے۔ وہ ذائقہ جو صرف آم سے مخصوص ہے۔
آم کا ذکر چلے تو کیسے ممکن ہے کہ والد مرحوم جناب ذکی کیفی یاد نہ آئیں۔ اعلیٰ شاعر، نفیس ذوق کے حامل، پھلوں کے شوقین اور عمدہ پہچان رکھنے والے ذکی کیفی آم کے خاص شائق تھے۔ بچپن ہی سے آم کی مختلف اقسام کے ذائقے ہمیں ازبر کروا دیے تھے۔ انہی دنوں کی بات ہے‘ ایک بڑے صنعت کار سیٹھ صاحب جو اُس وقت ملک کے بائیس بڑے خاندانوں میں سے ایک کے سربراہ تھے، کبھی کبھار ہمارے گھر بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک دن کھانے پر کہنے لگے: ذکی صاحب! میں نے ایسا آم کبھی نہیں کھایا۔ یہ کون سا آم ہے اور کہاں سے ملتا ہے؟ ان کی حیرانی دیکھ کر ہم گھر والے بھی حیران ہوگئے لیکن دونوں کی وجوہات الگ الگ تھیں۔
ہر سال آم کے پہلی شکل دکھانے سے پہلے کچی کیریوں کے اچار اور چٹنی کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔ سفید مٹی کا وہ مرتبان مجھے اب بھی یاد ہے جس میں اچار ڈالا جاتا۔ زیادہ بڑے کنبے کی صورت میں گھڑے میں اچار ڈلتا تھا۔ ویسے تو امچور بھی اسی موسم میں بنتا تھا لیکن وہ عام طور پر پنساری کی دکانوں ہی سے منگوایا جاتا تھا۔ سرسوں کے تیل میں اچار کی پھانک ہر کھانے میں لطف دیتی تھی اور دال کے ساتھ تو اس کا ذائقہ بے مثال ہے۔ دیہات میں روٹی، مکھن کی ڈلی، اچار کی پھانک اور لسی۔ لچھے دار پیاز ساتھ شامل ہو تو سبحان اللہ! اس کا کوئی اور جوڑ ہے؟
اب تو تخمی آم‘ جسے دیسی آم بھی کہتے ہیں‘ کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ زیادہ رواج قلمی یا پیوندی آموں کا ہے لیکن بچپن میں چوسنے والے آموں کا رواج زیادہ تھا اور ریفریجریٹرز کا رواج کم۔ ایک بڑے سے ٹب، ڈالے یا بالٹی میں پانی ڈال کر برف کی سل یا ٹکڑوں سے ٹھنڈا کر لیا جاتا۔ سارے آم اسی میں ڈال دیے جاتے۔ موسم اچھا ہو تو صحن یا آنگن ورنہ کمرے میں گھر والے اس کے گرد بیٹھ جاتے اور ڈھیروں آم کھائے جاتے۔ تخمی آم کھٹے اور میٹھے دونوں طرح کے ہوتے۔کہا جاتا تھا کہ پیڑ پیڑ کا فرق ہوتا ہے جبکہ قلمی آم میں کھٹا ذائقہ مجھے یاد نہیں ہے۔ یہ آم مختلف ذائقوں کے لیکن ہمیشہ میٹھے ہی ہوتے ہیں۔
آم کا ایک سالن بھی میری والدہ بناتی تھیں۔ روٹی سے کھایا جانے والا۔ عام طور پر تخمی پکے ہوئے آموں کا۔ اس سالن میں گودا اور گٹھلیاں دونوں شامل ہوتی تھیں اور قدرے نمک مرچ کے ساتھ میٹھے گودے کا لطف بہت مزے کا تھا۔ عرصہ ہوا اب نہ یہ سالن کہیں دیکھنے میں آتا ہے نہ شاید اس کا کسی کو علم ہے۔ جب یہ دیسی اور بچپن کے ذائقے صرف حافظے میں رہ جائیں، اور حافظہ بھی انہیں رفتہ رفتہ بے کار سمجھ کر گوشۂ نسیاں میں ڈالنا شروع کر دے تو ہاتھ میں بس ان کی گاہے گاہے یاد اور افسوس ہی رہ جاتے ہیں۔
ویسے تو دنیا کے بے شمار علاقوں میں آم اگایا اور کھایا جاتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اسے ہند و پاک میں جو رفعت نصیب ہوئی وہ کسی اور جگہ نہیں ملی۔ اور بات یہی ہے کہ یہ برصغیر کا پھل ہے۔ میں نے بیرونی ممالک کے سفروں میں ہندوستان، میکسیکو، فلوریڈا، برازیل، فلپائن وغیرہ کے آم کھائے ہیں، جو آم پیدا اور برآمدکرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ ہندوستان کا الفانسو کاروباری لحاظ سے بہت کامیاب ہے۔ فلپائن کا کارا باؤ آم مٹھاس میں بہت اعلیٰ ہے۔ فلوریڈا کا گہرا جامنی سرخ آم سینسیشن، میکسیکو کا اتالفو، برازیل کا ٹومی ایٹکنز آم اپنی اپنی جگہ بہت خوب ہیں بلکہ کاراباؤ تو مٹھاس میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنا چکا ہے۔ لیکن مٹھاس ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ سچ یہی ہے کہ ثمر بہشت چونسہ، انور رٹول کے ہوتے ہوئے کسی اور کی پہلے نمبر پر جگہ بننا مشکل ہے، کم از کم میرے ذائقے میں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ انفرادی پسند ہے۔ میرے ہندوستانی دوست الفانسو کو پہلے نمبر پر قرار دیتے ہیں۔ سو بحث کوئی نہیں لیکن دل کی بات یہی ہے۔
آم کے باغ، ساون، جامن، جھولے، پینگیں اور گیت۔ کون ہوگا جو ان سے واقف نہ ہو۔ یہ تو بذاتِ خود ایک بڑا موضوع ہے۔ ایسا ہی ایک موضوع آم سے متعلق محاورے اور ضرب الامثال ہیں۔ شاید اس پر کبھی کچھ کام ہوا ہو۔
گٹھلیوں کے دام؟ چھلکوں کے ساتھ کوڑے میں چلی جانے والی ایسی معمولی چیز کے دام آج کل کیا معنی؟ اس لیے یہ محاورہ بھی متروک ہوکر رہ گیا ہے کہ آم کے آم،گٹھلیوں کے دام۔ لیکن ہم نے تو گٹھلیوں کو بھی کارآمد ہوتے دیکھا ہے۔گٹھلیاں سکھا کر انہیں بھوننا اور خول کے اندر کا مزے دار مغز نمک مرچ کے ساتھ کھانا۔ کیا یہ کسی کو یاد ہے؟ اسی طرح گٹھلی کو مٹی میں بَو کر اس کی کونپل پھوٹنے کا انتظار بھی ایک الگ لطف تھا۔ پھر جب کونپل پھوٹ آتی تھی اور پودا ایک دو ہفتے کا ہو جاتا تھا تو وہ پودا گٹھلی سمیت مٹی سے نکال لیا جاتا ہے۔ ایک طرف سے شق گٹھلی کو مزید افقی شگاف دے دیا جاتا تھا اور ایک طرف سے پھونک ماری جاتی تو سیٹی بجتی تھی۔ شاید پیپیا کہلانے والا یہ کھلونا بہت عام تھا۔ ممکن ہے دیہات میں اس کا چلن اب بھی ہو لیکن شہروں میں تو اب سننے اور دیکھنے میں آتا ہی نہیں۔ بات یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے کھیل اور ذائقے دونوں ہی مٹی سے جڑے ہوتے ہیں۔ قد بلند ہو جائیں تو مٹی سے جڑنا کسی کو اچھا نہیں لگتا۔
اشعار کی بات تو رہ ہی گئی۔ نظیرؔ اکبر آبادی سے غالبؔ تک، پھر غالبؔ سے اکبرـؔ الٰہ آبادی تک اور اکبرؔ سے اقبالؔ تک۔ واقعات، مکتوبات اور اشعار۔ کون سا چھوڑا جائے اور کون سا سنایا جائے۔ اور ایسے میں کیا کیا جائے جب کالم کی گنجائش ختم ہورہی ہو؟ تو کالم ختم کرتا ہوں لیکن یاد رہے کہ آم کا ذکر ابھی ختم نہیں ہوا۔ آم شروع کر دیں توانہیں اتنی جلدی کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟