یہ بھی عجیب عہدِ ستم ہے جس کے نصیب میں ہم لکھے گئے ہیں۔ عجیب تر بے مہری ہے کہ رگ و پے میں سمائی جاتی ہے۔ کس بلا کا درد ہے جو ہم خوشی خوشی ہر نَفس میں سموئے دیتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھیے کہ کس انداز کا غرّہ ہے کہ بے ہنری کو بھی حاصلِ زیست قرار دینے پر تُلا ہوا ہے۔
زمانے کی بے ثباتی بہت کچھ سکھانے پر آمادہ بلکہ بضد ہے مگر ہم سیکھنے کے عمل سے بھاگ رہے ہیں، جان چھڑا رہے ہیں۔ زندگی قدم قدم پر ایسے گل کھلا رہی ہے کہ دیکھ کر نظر پہلے حیران، پھر پریشان ہوئی جاتی ہے۔ وقت اِس طور گزر رہا ہے کہ بہت غور کرنے پر بھی کسی معاملے کا کوئی سِرا ہاتھ آنے کا نام نہیں لیتا۔ ادراک کی منزل ہے کہ دکھائی تو دیتی ہے مگر جب اُس کی طرف بڑھیے تو دور ہوتی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ معاملہ سراسر سراب لگتا ہے مگر جب دوسرے معاشروں پر نظر جاتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے تب کچھ کچھ یقین آنے لگتا ہے کہ کچھ پانے کی خاطر تگ و دَو کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
ہم کسی ایک مخمصے میں پھنسے ہوں تو نکلنے کا سوچیں۔ کئی مخمصے ہیں جنہوں نے دل و نظر کو جکڑ رکھا ہے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہے کہ کمزور پڑتی جاتی ہے۔ ذہن میں پڑی ہوئی گرہیں کم تو کیا ہوں گی، بڑھوتری پر کمربستہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوئے جاتے ہیں۔ الجھنوں نے طے کر رکھا ہے کہ بڑھتی ہی رہیں گی، مسائل نے عہد کرلیا ہے کہ حل ہونے کا نام نہ لیں گے۔ ہر معاملے میں انحطاط انتہائی نمایاں ہے۔ ہر قدر زوال آمادہ ہے۔ ایک طویل رات ہے کہ گزرنے کا نام نہیں لے رہی۔ تیرگی ہے کہ گہراتی جاتی ہے۔ گو مگو کی کیفیت ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ شش و پنج کا عالم ہے کہ وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔ تو کیا یہ رات ختم نہ ہوگی؟ کیا تیرگی مقدر ہوکر رہ گئی ہے؟ ظلمت نہیں مٹے گی اور اُجالے ہمارا مقدر نہیں ہوں گے؟
کس نے کہہ دیا کہ اجالے ہمارا مقدر نہیں ہوں گے اور ظلمت کی بدلیاں نہیں چھٹیں گی؟ ایسا کب ہوتا ہے؟ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ ہاں! بات تھوڑے سے الٹ پھیر کی ہے۔ حالات بدلتے بدلتے کبھی ہمارے لیے موافق بھی ہو ہی جاتے ہیں۔ اِس میں کتنی دیر لگے گی، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اگر ہم حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کچھ کریں تو پریشانیوں کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے۔ ہر طرح کی صورتحال ہم سے ذوق و شوقِ عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ ذوق یعنی عمل اچھا اور معیاری ہونا چاہیے۔ اور شوق یعنی یہ کہ عمل ضرورت کے مطابق ہو، کم نہ ہو‘ اور بھرپور لگن اور جوش و خروش کے ساتھ ہو۔
آج ہم حالات کے نرغے میں ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ بہت کچھ بدل جائے۔ معاملہ خواہش تک رکا ہوا ہے، عمل تک نہیں پہنچا۔ ہم صرف سوچ رہے ہیں‘ کر کچھ نہیں رہے۔ ہر خواہش اپنی تکمیل کے لیے عمل کی طالب ہوتی ہے۔ عمل دکھائی نہ دے تو خواہش بھی حدِ بصارت سے باہر ہو جاتی ہے۔ بے عملی زندگی کے انتہائی بنیادی رویے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ہم کسی بھی معاملے میں صرف نتائج کا سوچتے ہیں‘ اُن نتائج کو یقینی بنانے والے عمل کے بارے میں سوچنے کی توفیق نصیب نہیں۔
ہم انکار کے مرحلے میں رک گئے ہیں۔ اقرار تک پہنچنے کی فکر دامن گیر نہیں۔ انکار ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ طے کرلیا گیا ہے کہ جو کچھ بھی اہلِ جہاں کرتے ہیں وہ ہمیں نہیں کرنا۔ آگے بڑھنے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ سب کے لیے لازم ہے۔ اس معاملے میں بھی قدرت نے عدل ہی سے کام لیا ہے۔ بہتر زندگی کے لیے جو کچھ بھی لازم ہے وہ ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ کسی کے لیے کوئی استثنا نہیں۔
ضرورت انکار سے آگے بڑھنے کی ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کسی معاملے کو سمجھنے سے انکار کرنا کوئی بہت بڑا یا دل گردے کا کام ہے۔ انکار صرف وہاں زیبا ہے جہاں بات قدرت کے طے کردہ اصولوں کی ہو اور معاملہ اُن اصولوں کے خلاف جارہا ہو۔ انکار میں چاہے جتنی بھی طاقت ہو، اسے مسترد کرنا کچھ دشوار نہیں۔ کسی بھی نوع کے انکار کا غرّہ ختم کرنے کے لیے بس ایک چھوٹی سی ہاں کافی ہوتی ہے
بھرم انکار کا ہے ... بس اِک چھوٹی سی ہاں تک!
انسان جب کچھ طے کرتا ہے تو پھر وہ ہوکر رہتا ہے۔ سوال صرف طے کرنے کا ہے۔ یہ دل کا معاملہ ہے۔ انسان جو کچھ بھی طے کرے، دل سے طے کرے۔ ہم زندگی بھر صرف خواہشوں کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ خواہشیں ہمارے حواس پر سوار رہتی ہیں۔ خواہشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہمیں ڈھنگ سے سوچنے اور کچھ طے کرنے سے روکتی رہتی ہے۔ ہر خواہش کے ساتھ عمل کا تقاضا ہوتا ہے۔ ہم خواہش کی رنگینی میں گم ہو جاتے ہیں اور یوں عمل کا تقاضا ایک طرف رہ جاتا ہے۔
زندگی کے حُسن کا کسی بھی زاویے سے جائزہ لیجیے، یہ حُسنِ عمل سے عبارت ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو جذبۂ عمل سے متصف ہوتے ہیں۔ کام کرنے کی لگن ہی فرق پیدا کرتی ہے۔ محض خواہش کا حامل ہونے سے کام بن جایا کرتا تو پھر کیا ہی بات تھی۔ وائے ناکامی کہ ایسا ہے نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا۔ اگر محض خواہش کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تو آج دنیا میں کسی کو ناکام قرار دینا ممکن نہ ہوتا۔
تمام معاملات تہیّہ کرنے کی منزل تک آکر رک جاتے ہیں۔ کم ہی لوگ ہیں جو کچھ سوچتے ہیں اور پھر اُس کے مطابق عمل پر متوجہ ہوتے ہیں۔ عمل ہم سے محنت کا طالب ہوتا ہے۔ محنت کرنے کی بھرپور لگن کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ لگن محض پیدا نہیں کرنا پڑتی بلکہ پروان بھی چڑھانا پڑتی ہے۔ یہ عمل محنت طلب بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔ زندگی کو بامعنی بنانے کی ہر کوشش غیر معمولی تگ و دَو کی طالب ہے۔ کوئی بھی بڑی کامیابی بیٹھے بٹھائے نہیں مل جاتی۔ اور اگر قسمت سے مل بھی جائے تو اُسے برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ پاتے وہی ہیں جو کچھ پانے کا تہیہ کرنے کے بعد عمل کے مرحلے سے بھی گزرتے ہیں۔ محض سوچنے اور منصوبے تیار کرنے سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے مطلوبہ کامیابی ملتی ہے۔ ہر دور میں، ہر معاشرے کے لیے قدرت کا یہی اصول رہا ہے۔ ہر زمانہ ہر طرح کے حالات کا حامل ہوتا ہے۔ آج کے انتہائی کامیاب معاشروں کا بھی جائزہ لیجیے تو بہت سے لوگ سراپا شکوہ ملیں گے۔ کیوں؟ اِس لیے کہ خواہشوں کی کوئی حد نہیں اور سب کچھ عمل سے مشروط ہے۔ تمام خواہشیں کسی کی پوری نہیں ہوتیں۔ ع
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
حالات چاہے جتنے بھی بُرے ہوں اور اُن کے اثرات کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، انسان کا رویہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ سوچ مثبت ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔ جب انسان مثبت سوچ کے ساتھ جیتا ہے تو جیت کر رہتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں عمل کا حق اُسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد متوازن فکر اپنائی جائے۔ سوال تہیہ کرنے، ٹھان لینے کا ہے۔ ع
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجیے
ہر عہد اپنے نصیب میں لکھے جانے والے انسانوں سے فکر و عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔ عہدِ حاضر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمیں بہت سے معاملات میں آسانی میسر ہے۔ چند ایک معاملات میں غیر معمولی الجھنوں کا بھی سامنا ہے۔ اگر ہم صرف مشکلات پر نظر رکھیں تو الجھتے ہی رہیں گے۔ اس بکھیڑے سے ہم اُسی وقت نکل سکتے ہیں جب یہ طے کرلیں کہ اپنے وجود اور ماحول کا حق ادا کرنے کی کوشش سے گریز نہیں کریں گے۔ اور اِس کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ ہم محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا نہ رہیں بلکہ عمل کی کسوٹی پر خود کو پرکھنے کے لیے تیار ہوں۔ ناموافق حالات میں بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ تہیہ کرنے کی دیر ہے بس!