تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     17-07-2020

منحوس…(3)

یہ کہانی اونیکا اور افولابی کی ہے۔ اونیکاکی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی اور اس بچے کے رونے کی آواز ماتمی چیخوں جیسی تھی۔ افریقہ میں ایسے بچے شدید منحوس سمجھے جاتے تھے۔ اس موقع پر ایک بوڑھی نرس نے بتایا کہ چالیس سال پہلے بھی ایسا ہی ایک بچہ اسی ہسپتال میں اپنی ماں کو کھا گیا تھا۔ اس موقع پر عالمگیر شہرت رکھنے والے دیو قامت سرجن افولابی نے ایک ہنگامہ کھڑا کر کے ایک عورت کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا۔ بیس سال بعد اس نے قلاش اونیکا کو اپنے بیگ سے رقم چراتے دیکھ کر پہچان لیا۔ اس نے غریب لڑکے کو ایک خطیر رقم دی کہ وہ اپنی کینسر زدہ بہن کا علاج کرائے اور کاروبار کر سکے لیکن پیدائش کے دن اپنے احسان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
افولابی کے احسان تلے دبا ہوا اونیکا شدید کوشش کے باوجود چالیس سال تک افولابی کے لیے ایک قیمتی گاڑی نہ خرید سکا؛ لہٰذا شرمندگی سے اپنے سو سالہ محسن کے پاس جانے سے کتراتا رہا۔ احسان لوٹانے سے قاصر، وہ تنہائی میں اپنی مخصوص ماتمی چیخوں والا رونا روتا رہا۔ پھر ایک دن اپنی بہن کے ہمت دلانے پر وہ لڑکا، جو اب ایک ساٹھ سالہ،گنجا اور فربہ اندام شخص تھا، اپنی شناخت چھپائے بوڑھے محسن سے ملنے آیا۔ ایک صدی بوڑھے شخص کو اب اس کے گھر والے بھی کوئی اہمیت دینے پر تیار نہیں تھے۔ اونیکا نے اس کا انٹرویو کیا۔ اسے چھپوانے اور نشر کرنے کا بندوبست کیا۔ پھر اس نے کہا کہ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کے جراح اپنی انتہائی اہم تقریب میں بوڑھے سرجن کو مہمانِ خصوصی بنانا چاہتے ہیں۔ افولابی یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ 
ہسپتال والوں کا بوڑھے سرجن کو مدعو کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا۔ اس تقریب کی کوریج اونیکا کے ذمے تھی۔ اونیکا امیر نہیں تھا لیکن اس کی ایک پیشہ ورانہ ساکھ اور مہارت تھی۔ اونیکا نے ہسپتال انتظامیہ سے کہا کہ وہ کوریج نہیں کرے گا۔ یہ لو ایڈوانس اور یہ لو جرمانہ۔ ان پر یہ اعلان بجلی بن کے گرا۔ وہ اس کے پاس آئے اور پوچھا: کیا وہ زیادہ معاوضہ چاہتا ہے؟ اونیکا نے کہا: میں اب بے شرم لوگوں کی تقریبات نہیں فلمایا کروں گا۔ سرجن حضرات کے چہرے سرخ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ کس بنیاد پر وہ انہیں بے شرم کہہ رہا ہے۔ اونیکا نے کہا: بوڑھے لیجنڈ سرجن کو کس بے شرمی سے تم لوگوں نے فراموش کر ڈالا۔ بازاری لوگوں کو تم مہمانِ خصوصی بناتے ہو۔ ڈوب مرو! 
انہوں نے پوچھا: کیا وہ یہ چاہتاہے کہ افولابی کو مہمانِ خصوصی بنایا جائے؟ اونیکا نے کہا: اگر ایسا ہو تو مفت کوریج۔ وہ بخوشی راضی ہو گئے مگر انہوں نے پوچھا کہ سبکدوش سرجن سے اس کا تعلق کیا ہے؟ حلق میں چیخیں روکتے ہوئے اونیکا نے ان سے کہا کہ وہ جا سکتے ہیں۔
تقریب کے دن بڑے بڑے سرجنز نے جب دیو قامت سبکدوش لیجنڈ کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں شرمندگی اتر آئی۔ ان میں سے اکثر افولابی کے شاگرد تھے لیکن انہوں نے اپنے استاد کو فراموش کر دیا تھا۔ بالآخر افولابی کو سٹیج پر بلایا گیا۔ تنہائی زدہ افولابی کی شکل میں سرجنز کو اپنا مستقبل نظر آ رہا تھا۔ ان میں سے کوئی بھی افولابی کے قد کاٹھ کا نہیں تھا۔ ایک خاتون سرجن آنسوئوں کے ساتھ رونا شروع ہو گئی۔ 
افولابی خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔ پھر اس نے کہا ''سرجری کی دنیا بدلنے والی ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد بیس برس تک میں اپنی لیبارٹری میں ریسرچ کرتا رہا ہوں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سرجری کے مروجہ طریقوں میں سے کئی ناقص ہیں اور ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے‘‘۔ اونیکا نے حیرت سے دیکھا۔ پہلی بار بوڑھا سرجن ذہنی طور پر چست دکھائی دے رہا تھا۔ سرجنز حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے قلم اٹھا لیے۔ افولابی بولتا رہا۔ اس نے دل کی ایک مروجہ سرجری پر بات کی۔ ہال آوازوں سے گونج اٹھا۔ بوڑھے لیجنڈ کے پاس کچھ بہت اہم رازموجود تھے۔ 
کئی مہینے تک افولابی کو انٹرویوز کے لیے مدعو کیا گیا لیکن اس نے اپنے منہ پر قفل لگا لیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وقت آنے پر وہ اپنی ریسرچ دنیا والوں کے سامنے ظاہر کرے گا۔ دنیا حیران تھی کہ بوڑھا سرجن تو پہلے ہی قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے۔ افولابی ایک بار پھر اپنے محل میں بند ہو چکا تھا۔ آخری انٹرویو میں اس نے کہا تھا کہ سبکدوش لوگوں کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ بہرحال کرتے رہنا چاہیے۔ اونیکا نے اعلان کیا کہ جس تقریب میں افولابی کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا جائے گا، اس کی کوریج نصف معاوضے پر کی جائے گی۔ تنہائی کا مارا ہوا بوڑھا سرجن ایک بار پھر تقریبات میں مدعو کیا جانے لگا۔ اونیکا کی آمد کے ساتھ ہی موت کے انتظار میں گزرتی ہوئی اس کی زندگی میں رنگینی اتر آئی تھی اور وہ بے حد خوش دکھائی دیتا تھا۔ 
آٹھ ماہ گزر گئے۔پھر اچانک خبر آئی کہ افولابی کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ چند روز بعد ایک وکیل نے اونیکا کو اطلاع دی کہ افولابی نے اسے طلب کیا ہے۔ افولابی چادر اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا۔ اس کی اولادیں اور اولادوں کی اولادیں وہاں موجود تھیں۔ افولابی سوچتا رہا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں لیکن آنسوئوں کو اس نے تھام رکھا تھا۔ پھراس نے کہا: تم لوگ انسان نہیں بلکہ گدھ ہو، میری جائیداد نوچنے کے منتظر۔ قانونی طور پر جس کا جو حق بنتا ہے، وہی اسے ملے گا؛ البتہ اونیکا ایک استثنا ہے۔ اس نے پوچھا ''اونیکا کہاں ہے؟‘‘
جذبات میں رندھی ہوئی آواز میں اونیکا نے اپنی نشاندہی کی۔ افولابی نے کہا: اونیکا وہ شخص ہے، جس نے مجھے اپنی زندگی کے آخری چند ماہ مسرتوں کے جلو میں بسر کرنے کا موقع دیا لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کیوں؟ بغیر کسی مفاد کے کوئی ایک سو سالہ بوڑھے کی زندگی میں رنگینی بھرتا ہے؟ اس دنیا میں تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
افولابی نے کہا ''چھوٹے گِدھو! اونیکا تم سب سے بڑا گدھ ہے۔ تم لوگ تو میری نسل ہونے کی وجہ سے میرا مال کھانا چاہتے ہو لیکن یہ بغیر کسی رشتے کے دولت ہتھیانے آ دھمکا‘‘۔
اونیکا کو محسوس ہوا کہ اس کا دل پھٹ گیا ہے۔ افولابی بے رحمی سے بولتا رہا۔ اس نے کہا: اونیکا کی شاطرانہ خدمات کے عوض میں ایک پلاٹ اس کی نذر کرتا ہوں۔ باقی سب کچھ دوسرے گِدھوں کا۔
افولابی کے حکم پر وکیل نے ایک فائل اونیکا کے منہ پر دے ماری۔ وہاں موجود سب لوگ نفرت سے اونیکا کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اونیکا کبھی ایسی تذلیل سے نہیں گزرا تھا۔ اس کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ہال ماتمی چیخوں سے گونج اٹھا۔
افولابی کو ایک جھٹکا لگا۔ اس نے غور سے اونیکا کو دیکھا اور اسے پہچان لیا۔ یہ تو وہی بچہ تھا، جس پر اس نے دو بار احسان کیا تھا۔ افولابی نے دیکھا کہ ساٹھ برس کے اونیکا کے اندر آج بھی ایک کمزور بچہ زندہ تھا۔ ایک ٹوٹے ہوئے دل کا لڑکا، جو افولابی کے احسانات چکانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن افولابی نے اسے ذلیل کر ڈالا تھا۔ 
افولابی آہستہ آہستہ اٹھا۔ اس نے پوچھا ''اچھا! تم وہی بیرے ہو؟‘‘ افولابی نے پوچھا ''تمہاری ماں تمہاری پیدائش کے وقت مر گئی تھی؟‘‘ اونیکا چیختا رہا۔ افولابی نے اونیکا کو گلے سے لگا لیا۔ اونیکا نے افولابی سے پوچھا: آپ کو میری ماں کا کس نے بتایا؟ 
افولابی کی آنکھوں میں چمک تھی۔ اس نے کہا: اونیکا، تمہاری مدد سے میں بساط ہی الٹ ڈالوں گا۔ میں یہ ثابت کر دوں گا ماتمی چیخوں والا وہ بچہ منحوس نہیں ہوتا، جس کی ماں اس کی پیدائش پر مر جائے۔ پھر اچانک اسے کچھ یاد آیا اور اس نے کہا: وہ گاڑی کہاں ہے؟ چیختے ہوئے اونیکا نے شرمندگی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ 
مرتا ہوا افولابی بہت خوش تھا۔ اس نے بہت کچھ اونیکا سے چھپا رکھا تھا۔ اس نے بے سبب دو بار اونیکا کے سر پہ اپنا ہاتھ نہیں رکھا تھا۔
افولابی نے اونیکا سے کہا: ایک آخری انٹرویو کا بندوبست کرو۔ اُن سے کہو افولابی سرجری کے سات بڑے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے رضامند ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved