ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے زاویے مکمل ہوتے ہی ایک رات اچانک جب گورداسپور بھارت کے حوالے کرتے ہوئے ہمارے وجود کا ایک حصہ ابتدا میں ہی ہم سے کاٹ لیا گیا تو گورداسپور کے جغرافیائی محل وقوع کی گہرائی میں جاتے ہوئے اور کانگریس کے شاطروں کی للچائی اور بھوکی نظروں کو بھانپتے ہوئے کشمیر کے مستقبل کیلئے مسلم لیگ کی مرکزی قیا دت کو بغیر کوئی وقت ضائع کئے سری نگر اور جموں کی طرف تیز تر فوجی پیش قدمی کرنے کیلئے اپنے گھوڑوں کی زینیں کس لینا چاہیے تھیں۔ کیا ہم سے کہیں پر کوئی غلطی ہوئی یا جان بوجھ کر اس وقت غلطی کروائی گئی جب مہاراجہ کشمیر نے 26 اکتوبر 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن کو خط لکھ کر جموں و کشمیر کو پاکستان کی ایک صوبائی حکومت کے طور پر پاکستان میں مدغم کرنے کی تجویز دی تھی۔ اس نعمت بے بہا اور شاندار تجویز پر عمل نہ کرنے کی وجوہات کیا تھیں؟ کس نے روکا؟ کس نے اسے چھپائے رکھا؟ کس نے اسے قائداعظمؒ تک نہ پہنچنے دیا؟ مہاراجہ کشمیر کا یہ خط تو قدرت کی جانب سے کشمیریوں اور پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا تحفہ تھا پھر اسے ضائع کیوں کیا گیا؟ اس سنہری موقع کو ضائع کرنے میں کس کس کا ہاتھ تھا؟
مہاراجہ کشمیر کی پیشکش کے اگلے ہی لمحے پاکستان اپنی فوجیں کشمیر بھیج کر فوری طور پر سری نگر کے ہوائی اڈے کو اپنے قبضے میں لے کر بھارت کے کسی بھی طیارے کو اگلے روزیعنی 27 اکتوبر کو اترنے کی اجا زت ہی نہ دیتا اور اس طرح بھارت کو کشمیر میں اپنی فوجیں اتارنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ اسی لئے اوپر لکھ چکا ہوں کہ گورداسپور کے گھپلے کے ساتھ ہی پاکستان کو فوری طور پر سری نگر کی طرف پا بہ رکاب ہونا چاہئے تھا جہاں ان کی مدد کیلئے کشمیر کی فوج اور سٹیٹ فورسز میں موجود تین ہزار سے زائد مسلمان افسر اور سپاہی جدید ہتھیاروں بلکہ مارٹر گنوں کے ساتھ مدد کیلئے تیار کھڑے تھے۔ مہاراجہ کشمیر کی اس پیشکش کے چند ہفتوں بعد ایک اور موقع نیشنل کانفرنس کے سردار ابراہیم خان نے فراہم کیا کہ پاکستانی کابینہ پوری ریا ست جموں و کشمیر کی صوبائی حکومت کے الحاق کی منظوری دے کر بھارت کو آگاہ کر دے تو یہاں پر سوال اٹھ سکتا ہے کہ اس وقت سردار ابراہیم کی اس تجویز سے اتفاق کیا جا سکتا تھا؟ ان کی 24 دسمبر1947 کو پاکستان سے کی جانے والی اپیل یا پیشکش قبول کرنا پاکستان کیلئے فائدہ مند ہو سکتا تھا؟ آزاد جموں و کشمیر حکومت سردار ابراہیم خان کی عبوری صوبائی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے تمام جموں و کشمیر ریاست کی پاکستان سے الحاق کی منظوری دیتے ہوئے اگر یہ اپیل منظور کر لیتی تو شاید کشمیریوں کی تقدیر کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا ہوتا۔ سردار ابراہیم خان کی کتاب ''The Kashmir Saga‘‘ پڑھیں تو لگتا ہے کہ ہم نے دو مرتبہ ہاتھ آیا موقع نجانے کس مصلحت کے تحت گنوا دیا۔
مہاراجہ کشمیر کی نگرانی میں ریاست جموں و کشمیر کو بطور پاکستانی صوبائی حکومت تسلیم کرتے ہی فوجیں سری نگر بھیج کر ہوائی اڈے کا پورا کنٹرول حاصل کرنے سے بھارت کے لئے زمینی راستوں سے اپنی فوجیں کشمیر بھیجنے میں بہت وقت لگنا تھا اس دوران پاکستان اپنی پوزیشن کشمیر بھر میں مضبوط و مستحکم کر سکتا تھا کیونکہ سابقہ فوجی، گلگت سکائوٹس، قبائلی پٹھان اور رضاکار بھر پور طریقوں سے پاکستان کا ساتھ دے رہے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے سردار ابراہیم خان کی اس تجویز کو تسلیم نہ کرنے کی ایک وجہ سردار پٹیل کی وزیراعظم لیاقت علی خان کو یہ پیش کش تھی کہ اگر آپ کشمیر سے دستبردار ہو جائیں تو ریا ست حیدر آباد دکن کے پاکستان میں شامل ہونے پر کانگریس کو کئی اعتراض نہیں ہو گا۔
بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ کہاں حیدر آباد دکن اور کہاں پاکستان جبکہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا فرمان تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تاریخ میں کچھ فیصلے‘ کچھ لمحات اور کچھ گھڑیاں ایسی ہوتی ہیں جو قوموں کی زندگیوں پر اس قدرگہرے اور تباہ کن اثر ات چھوڑ جاتی ہیں کہ مورخ کی بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس صحیح یا غلط فیصلہ کرنے والوں کو تاریخ کس نام سے یاد رکھے۔
وی پی مینن اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں جب وہ فوج اور ایئر فورس کے افسران کے ساتھ سری نگر پہنچے تو سب سے پہلے وزیراعظم کشمیر سے ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس اس وقت تین بریگیڈز ہیں جن کی تعداد 8 ہزار بنتی ہے، ان میں دو تہائی تعداد مسلمان سپاہیوں کی تھی جن کے بارے پتا چلا کہ وہ اپنے اسلحہ سمیت کشمیری رضاکاروں کے ساتھ مل گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سٹیٹ فورس کی تین کمپنیاں تھیں، ان میں سے بھی مسلمان الگ ہو گئے تھے، اس طرح ان ریاستی مسلمان سپاہیوں کی تعداد ڈھائی سے تین ہزار کے درمیان تھی اور ان سب کے پاس اس وقت کا جدید اسلحہ اور مارٹر گن بھی تھے۔ اور ہم تک یہ اطلاع پہنچ رہی تھی کہ یہ تمام رضاکار سرینگر کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اِس وقت اس سے صرف 35 میل کے فاصلے پر ہیں۔
وی پی مینن کے مطا بق انہیں جیسے ہی خبر ملی کہ مظفر آباد کو قبائلی پٹھانوں نے آگ کے شعلوں کی نذر کر تے ہوئے پانچ ہزار سے زائد مخالفین ہلاک کر دیے ہیں تو ان خبروں کے سری نگر پہنچنے سے وہاں موجود کشمیری رضا کار فورس اور نیشنل کانفرنس‘ جس کی سربراہی سردار ابراہیم کر رہے تھے، کا مورال انتہائی بلندی پر پہنچ چکا تھا۔ ابھی سری نگر میں افراتفری کا سماں تو نہیں تھا لیکن مسلم لیگ نے اپنے لوگوں کو مسلح کرنے کے بعد لڑائی کیلئے تیار کر دیا تھا اور کانگریس کے پاس یہ اطلاعات برابر پہنچ رہی تھیں۔ مینن لکھتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کشمیر کے پاس ہی رہے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے اعصاب جواب دے رہے ہیں اور وہ سری نگر کو کشمیری رضاکاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر فوری طور پر جموں جانا چاہ رہے تھے تاکہ اسے بچایا جا سکے۔ 24 اکتوبر 1947ء کو پونچھ میں سردار ابراہیم خان کی سربراہی میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں سید علی احمد شاہ وزیر دفاع، چوہدری عبد اﷲ خان وزیر ریونیو، خواجہ غلام دین وانی وزیر داخلہ، سید نذیر حسین شاہ وزیر خزانہ، میر واعظ یوسف شاہ وزیر تعلیم اور خواجہ ثناء اﷲ شامن سول سپلائی کے وزیر مقرر کئے گئے۔ سردار ابراہیم خان نے لیاقت علی خان کو کہا کہ کابینہ کے ذریعے فوری طور پر اس عبوری حکومت کو تسلیم کر کے پاکستان کے ساتھ اس کے الحاق کا اعلان کر دیا جائے جسے نجانے کن وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر پر بھارت کے اُس وعدے کو فوقیت دی گئی کہ حیدر آباد اور جو نا گڑھ کی پاکستان میں شمولیت پر ان کو کوئی اعترض نہیں ہوگا۔
مسٹر مینن کی کتاب کا یہ پیرا انتہائی غور طلب ہے اور اپنے قارئین سے درخواست کروں گا کہ اسے توجہ سے پڑھیں: مینن کہتے ہیں کہ وہ وہاں سے سیدھے مہاراجہ کشمیر کے پاس پہنچے انہیں دیکھتے ہی لگا ''Maharaja had gone to pieces completely if not gone off his head‘‘۔ مہاراجہ کشمیر کی زبان سے یہ سن کر مینن سٹپٹا کر رہ گیا کہ میجر جنرل سکاٹ پاکستان سے کشمیر میں آپریشن کی خود نگرانی کر رہا تھا۔
نومبر1947ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ لاہور آئے تھے جہاں انہیں اطلاع ملی کی انڈین آرمی کشمیر میں داخل ہو رہی ہے تو انہوں نے ایک دانش مند لیڈر کی طرح حکم دیا کہ ہمیں فوری طور پر جموں اور سری نگر ‘ دونوں اطراف سے حملہ آور ہو نا چاہئے لیکن ان کی جیب میں موجود کھوٹے سکے وقت ضائع کرتے رہ گئے جس کی وجہ یہ اہم موقع بھی ضائع کر دیا گیا۔