ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے برصغیر پر حکمرانی کی، مسلمان بادشاہوں نے اپنے دورِ حکومت میں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل نگہبانی کی اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا بلکہ ہندوستان کی تاریخ ایسی روشن مثالوں سے بھر ی پڑی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندوئوں کے مندورں سمیت دیگر مذاہب کے مقدس مقامات کی بھی از سر نو تعمیر کی تھی‘ لیکن آج اسی ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ ایک طرف آر ایس ایس کا پرچارک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مسلم نسل کشی پر اترا ہوا ہے تو دوسری طرف بابری مسجد بھی مسلمانوں سے چھین لی گئی ہے اور اس پر بت کدے کی تعمیر سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت میں سیکولرازم دم توڑ چکا ہے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔کرتاپور گوردوارہ بنا کر سکھ برادری کے دل موہ لئے گئے اور اس سے عالمی سطح پر بھی پاکستان کا سافٹ امیج ابھرا۔ اب اسلام آباد میں رہائش پذیر ہندو کمیونٹی کے مطالبے پر مندر کی تعمیر کے لیے 4 کنال اراضی کی الاٹمنٹ اور ہندو پنچایت کونسل کو اس پلاٹ کا قبضہ دینا اس لحاظ سے قابل غور امر ہے کہ اس سے پاکستان میں اقلیتوں کے لیے سہولتوں اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاست کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ معاصر دنیا میں یہ اقدام کسی بھی ملک کے سافٹ امیج کا ایک بہتر ذریعہ ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا یہ دیکھتی ہے ہر ملک اکثریت کے لیے تو اقدامات کرتا ہے ہی‘ مگر اقلیت کے حقوق کے لیے وہاں کیا اقدامات کیے جاتے ہیں؟ قومی اسمبلی کے پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی اور ہندو پنچایت کونسل کے دیگر ارکان نے 24 جون 2020ء کو اسلام آباد میں مندر کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا ہے۔
پاکستان میں یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بھارت میں مسجدوں کی شہادت اور بے حرمتی کے واقعات ہو رہے ہیں‘ مسلمانوں کی آبادیوں پر حملے کیے جا رہے اور ان کے حقوق کو سلب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ بد قسمتی سے بھارت کے ریاستی ادارے بھی مسلمانوں کو انصاف اور تحفظ فراہم نہیں کر پائے۔ پولیس تو خیر ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ کی لاٹھی ثابت ہو رہی ہے مگر افسوس اس امر کا ہے کہ بھارتی عدلیہ نے بھی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا‘ اور جہاں کہیں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے وہاں فیصلوں پر عمل ہی نہیں کروایا جا سکا۔ یوں نظر آتا ہے کہ پوری بھارتی سرکاری مشینری اس وقت انتہا پسند قوم پرست ہندو کے اختیار میں ہے اور مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کو شدید بے رحمی سے کچلا جا رہا ہے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی عروج پر پہنچ چکی ہے‘ یہاں تک کہ مسجدوں کے میناروں سے آنے والی اللہ اکبر کی صدائیں بھی ان پر گراں گزرتی ہیں، متعدد ریاستوں میں فجر کی اذان لائوڈ سپیکر پر دینے کی مسلمانوں کو اجازت نہیں ہے۔اس تنگ نظر پالیسی کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بھارت کمزور ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس ملک کی شہرت خراب ہو رہی ہے۔
آج کی دنیا میں یہ حقیقت چھپی نہیں رہ سکتی کہ بھارت کی متعصب قوم پرست سیاسی جماعت نے اُس ملک کی زمین مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے تنگ کر دی ہے؛ تاہم بھارت کا یہ شرمناک پہلو اجاگر کرنے اور وہاں کے مسلمانوں کے مسائل کی جانب اقوام عالم کی توجہ مبذول کروانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اُس پروپیگنڈے کا توڑ کیا جائے جو بھارت کی جانب سے کیا جاتا ہے؛ چنانچہ وفاقی دارالحکومت میں ہندوؤں کے لیے مندر کی تعمیر کے لیے جگہ فراہم کرنے کا فیصلہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی یقینی دہانی کا تصدیقی امر ثابت ہو گا۔ وطن عزیز میں چھوٹی آبادیوں کے لیے ہمیشہ بہترین اقدامات کئے گئے ہیں۔ ریاست کے شہریوں کے حقوق میں مساوات بانیٔ پاکستان کے ارشادات اور پاکستان کے آئین کی روشنی میں کئے جانے والے فیصلے کا نتیجہ ہے جو ریاست میں ہم آہنگی اور سماجی سطح پر ترقی اور اطمینان کی بنیادی شرط ہے۔ اسی منصفانہ اپروچ کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی تمام اقلیتی برادریاں اس ملک کی خدمت میں اپنی اپنی سطح پر بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں اور ہر قسم کے حالات میں پاکستانی بلا تمیزِ عقیدہ و رنگ و نسل شانہ بشانہ کھڑے ملتے ہیں۔ یہاں بھارت کی طرح نہ کسی کے لیے الگ رجسٹر بنائے جاتے ہیں اور نہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ مانگے جاتے ہیں۔ یہ وسعتِ قلبی بر صغیر کے مسلم دور کی اعلیٰ یادگاروں میں سے ایک ہے اور ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔ اندرونِ ملک مندر کی تعمیر کے حوالے سے جو پروپیگنڈا ہوا اور اس پر جو ردعمل آیا اس کا بروقت ادراک کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کر دینا اچھا اقدام تھا، اس حوالے سے حتمی رپورٹ ستمبر میں آنے کا امکان ہے اور امید ہے کہ ملک کے تمام طبقات نظریاتی کونسل کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کریں گے۔
دوسری طرف بھارت میں مسلم آبادیوں پر منظم حملے‘ قتل و غارت‘ ہندو اکثریت کی جانب سے بے رحمی کی نت نئی داستانیں‘ حیدر آباد‘ گجرات‘ بھوپال‘ اتر پردیش‘ دہلی اور سب سے بڑھ کر مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات ہمارے لیے غم و غصے کا سبب بھی بنتے ہیں‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم نہ اپنے ہاں اقلیتوںکے حقوق سے غفلت برت سکتے ہیں اور نہ ہی ناانصافی کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کسی ایسے نظام کی حمایت بھی نہیں کر سکتے نہ ہی اسے اپنے لیے منتخب کر سکتے ہیں جو بے بنیاد ہے اور حقیقت کے بجائے خیالوں کی دنیا میں اپنا وجود رکھتا ہے۔دنیا کی سپر پاورز کے ساتھ پچھلی چند دہائیوں کے دوران ہم جو کچھ ہوتا دیکھ چکے ہیں ‘ اس کے بعد ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں کہ ہم دین اسلام کے بتائے ہوئے شہری اور ریاستی اصولوں پر کاربند ہوں‘ جبکہ انفرادی زندگیوں میں بھی اسلام کی روح نظر آنی چاہیے۔ افغانستان سے امریکہ جیسی سپر پاور کی پسپائی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اللہ کا نظام ہی اصل نظام ہے۔ یہ کہنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصے میں بعض نام نہاد ''روشن خیالوں‘‘ کی بدولت ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو خفیہ طور پر ''لبرل ازم‘‘ اور'' سیکولرازم‘‘ کے پرچار میں مصروف ہے۔ اس گروہ کے کردار و عمل پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور ان کے فریب میں آنے کے بجائے ملک کے اندر ملک کے آئین کی روشنی ہی میں فیصلے کئے جانے چاہئیں۔ یاد رکھیں کہ سیکولرازم کا اصل ہدف ہمیں اپنے روحانی اثاثے سے بیگانہ کر کے مادیت سے وابستہ کرنا ہے‘ تاکہ مغرب کی بالا دستی ہم پر برقرار رہے۔ اس لیے ہمیں ہر حال میں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی فکر‘ اسلامی روحانیت اور اسلام سے وابستگی‘ یہی مسلمانوں کی کامیابی اوربالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی پوری توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پر مرکوز کرنی چاہیے نہ کہ مادیت کے مکروفریب کے جال میں پھنسنا چاہیے۔
اگر تاریخ کا غائرانہ مطالعہ کریں، تو معلوم ہو گا کہ پچھلے سو سال میں جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر دنیا میں جتنا ظلم ہوا اور قتل و غارت ہوئی، کسی اور دور میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان سیکولر حلقوں نے مسلمانوں پر بے بنیاد الزامات لگائے‘ تنقید کا نشانہ بنایا اور پروپیگنڈے کے زور سے پوری کوشش کی کہ مسلمانوں کو بدنام کریں‘ مگرمسلم ممالک میں کئے جانے والے متعدد فیصلوں سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ دراصل معاملہ اس پروپیگنڈے اور اُن دعووں کے برعکس ہے۔ ''سیکولرازم‘‘ کا دعویٰ کرنے والوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہاں اور مسلم ممالک میں اقلیتی آبادیاں کہیں زیادہ اطمینان اور تحفظ کے ساتھ رہ رہی ہیں اور غیر مسلم ممالک کے مقابلے میں یہاں ان کے حقوق کا زیادہ دفاع کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ سیکولرازم نے سب سے زیادہ نقصان عالمِ اسلام کو پہنچایا، اس لیے کہ سیکولر فکرکے حاملین خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے سبب بنے اور دولتِ عثمانیہ اسلامیہ کو تقسیم در تقسیم کیا، یہاں تک کہ وہ پچاس حصوں میں تقسیم ہوگئی، اسرائیل کا ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں آیا اور پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔