خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں‘ ان پر جملے کستے ہیں‘ ان کے ساتھ فحش گوئی کرتے ہیں‘ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔ معاشرہ ہر طرح کا برا سلوک ان کے ساتھ کرنے کے بعد انہیں ہی برائی کی جڑ قرار دیتا ہے۔ میں سٹور سے باہر نکلی تو مجھے ایک خواجہ سرا تتلی مل گئی اور کہنے لگی: تم تو بالکل ہیروئین لگ رہی ہو۔ میں نے اس کو ہنستے ہوئے کہا: میں ہیروئین تو نہیں لیکن خلائی مخلوق ضرور لگ رہی ہو کیونکہ ماسک‘ دستانے‘ اوپر سے شدید گرمی۔ اس میں تو کوئی بھی اچھا نہیں لگ سکتا۔ لیکن تتلی کی خوش مزاجی سے میں مسکرانے لگی۔ میں نے اس کو کچھ پیسے دیے اور دور تک جاتا دیکھتی رہی۔ اس کی عمر لگ بھگ چالیس سال ہوگی، اس نے ایک پرانا سا ماسک پہن رکھا تھا، ہاتھوں پر شاپنگ بیگ سے دستانے بنا رکھے تھے۔ ایک دو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے‘ انہوں نے بھی اس کو کچھ پیسے دیے‘ پھر تتلی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
میں گداگری کے حق میں نہیں لیکن خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا ایک ایسا طبقہ ہیں جو بے انتہا دکھی ہے لیکن پھر بھی اپنے چہرے پر ہر وقت مسکان سجائے رکھتا ہے اور دوسروں کو بھی ہنسا دیتا ہے‘ سو ان کو انکار کرنا مشکل ہے۔ ویسے بھی کوئی انہیں کام دینے کو راضی نہیں ہوتا اور انہیں جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کافی تگ و دو کرنا پڑتی ہے سو میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ جہاں بھی ملیں‘ ان کو پانی، کھانا اور کچھ رقم ضرور دی جائے۔
یہ پیدا ہوتے ہیں تو ماں باپ‘ خاندان والے ان کو دھتکار دیتے ہیں۔ تیسری جنس نہ گھر کی رہتی ہے اور نہ باہر کی‘ ان کو ایسے چھپایا جاتا ہے جیسے کوئی گناہ‘ حالانکہ یہ بھی اللہ کی تخلیق ہیں اور ہماری طرح انسان ہیں‘ ان کو بھی جینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ کچھ خواجہ سرا گداگروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو کچھ گرو کے پاس چلے جاتے ہیں۔ ان دونوں ہی جگہوں پر بچوں کا استحصال ہوتا ہے۔گداگر ان کو بھیک مانگنے پر لگا دیتے ہیں اور یہ مارکیٹوں اور سڑکوں وغیرہ پر بھیک مانگتے ہیں۔ کچھ لوگ ترس کھا کر ان کو کچھ پیسے دے دیتے ہیں تو کچھ ان کو گالیاں دے کر دھتکار دیتے ہیں اور مارتے بھی ہیں۔کچھ گروہ تو اتنے سفاک ہوتے ہیں کہ وہ ان کو معذور بنا دیتے ہیں اور پھر ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے تاکہ زیادہ لوگ ان پر ترس کھائیں۔ جو گرو کے پاس ہوتے ہیں‘ وہ گانے بجانے میں لگ جاتے ہیں۔ شادیوں میں جاتے ہیں‘ محفلوں میں جاتے ہیں‘ ناچ گاکر روزی کماتے ہیں۔ اچھی نوکری شاید معاشرے نے ان پر بین کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ معاشرے کی طرف سے صحت، تعلیم اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔
یہ اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ سب دنگ رہ جاتے ہیں‘ رقص بھی اچھا کرتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر محفلوں میں کچھ سفاک لوگ ان کو قتل کر دیتے ہیں۔ ظالم مرد ان کو اپنا غلام سمجھتے ہیں‘ ان کو مارتے ہیں‘ پیٹتے ہیں۔ کچھ خواجہ سرا موذی امراض جیسے ایڈز‘ ہیپاٹائٹس‘ ٹی بی اور یرقان جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ خواجہ سرائوں کو جسم فروشی کی طرف لگا دیا جاتا ہے اور یوں ان کا ہر لمحہ استحصال ہوتا رہتا ہے اور مجبوراً یہ زندگی بھر اس دھندے سے نکل نہیں پاتے‘ اس کے علاوہ انہیں دوسرے نیچ کاموں کی طرف بھی لگا دیا جاتا ہے یا ان پر تشدد اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ پشاور میں پائل نامی ایک خواجہ سرا سڑک پر رہنے پر مجبور تھا، وہ ٹی بی اور ایڈز کا مریض تھا۔ سب نے پائل کو دھتکار دیا اور وہ کوڑاکرکٹ کے ڈھیر کے پاس رہنے لگا۔ اس کے بعد اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا۔ ویسے تو لاتعداد خواجہ سرائوں کو قتل کیا گیا لیکن پشاور کی ہی علیشا کہ ساتھ جو کچھ ہوا‘ کوئی بھی حساس دل شخص اس کو بھلا نہیں سکتا۔ اس خواجہ سرا کے ساتھ پہلے گینگ ریپ ہوا، اس کے بعد اس پر فائرنگ کی گئی۔ جب اس کے ساتھی اس کو ہسپتال لے کر گئے تو ہسپتال کا عملہ یہی طے کرتا رہا کہ خواجہ سرا علیشا کو زنانہ وارڈ میں رکھیں یا مردانہ وارڈ میں۔ ہسپتال کا عملہ مریض اور اس کے ساتھ آنے والے خواجہ سرائوں کو دھتکارتا رہا اور بالآخر علیشا دم توڑ گئی۔
نازو کو بھی پشاور میں قتل کیا گیا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سے خواجہ سرا قتل ہوئے ان کے لئے صرف سوشل میڈیا پر تھوڑا سا شور مچتا ہے‘ پھر سب چپ ہو جاتے ہیں۔ دینہ‘ ساہیوال‘ رحیم یار خان‘ منڈی بہائو الدین اور گوجرانوالہ میں بھی کئی خواجہ سرا قتل ہوئے لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ ان کے گھر والے ان کو زندگی میں نہیں اپناتے تو مرنے کے بعد ان کے لیے کون انصاف مانگے؟ اس حوالے سے کسی نہ کسی سطح پر کچھ کام ہو تو رہا ہے لیکن نہایت سست روی کے ساتھ۔
اب اسلام آباد کے قریب گولڑہ کے علاقے میں ایک خواجہ سرا بینش کا قتل ہوا ہے۔ پولیس کی تفتیش کے بعد یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ مرد تھا، اس کا نام عمر تھا، اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ وہ بھیس بدل کر خواجہ سرا بن کر کمائی کرتا تھا۔ اس کو کس نے قتل کیا، اس کے پیچھے کیا محرکات تھے‘ تاحال معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
اس کے ساتھ دوسرا واقعہ اسلام آباد کی کچی آبادی مہرآبادی میں پیش آیا جہاں بری امام سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرائوں نے مہر آبادی کے خواجہ سرا لبنیٰ کو چھریوں کے وار سے شدید زخمی کر دیا۔ پولیس نے اس ضمن گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ زخمی لبنیٰ اس وقت پمز ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
کسی خواجہ سرا کو سٹیج پر ناچتے ہوئے قتل کر دیا گیا، کسی کو سڑک پر چلتے مار دیا گیا، کسی کا کمرے میں قتل ہوا تو کسی کی تشدد زدہ لاش کھیتوں سے ملی، کسی کو نجی محفل میں رقص کرتے ہوئے مار دیا گیا تو کسی کا ریپ کرنے کے بعد قتل ہوا۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ دیگر صوبوں کی نسبت خیبر پختونخوا میں یہ شرح زیادہ ہے۔
خواجہ سرائوں کو کسی بھی حوالے سے پریشان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خواجہ سرا ہونا کوئی معذوری نہیں‘ وہ بھی انسان ہیں‘ ان کو بھی تعلیم، صحت کی سہولتوں اور نوکریوں کا پورا حق حاصل ہے۔ ان کو بھیک‘ ناچ گانے تک محدود کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ ان کے لئے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ میں کوٹہ ہونا چاہیے‘ جہاں وہ مختلف ہنر سیکھ سکیں۔ ہسپتالوں میں ان کے لئے علیحدہ وارڈز اور کائونٹر ہونے چاہئیں تاکہ وہ آرام سے اپنا علاج کرا سکیں۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر ہنسا جائے‘ ان کا مذاق مت اڑائیں‘ وہ بھی اس ملک کے معزز شہری ہیں‘ ان کو بھی تمام حقوق ملنے چاہئیں۔
اب کورونا کی وبا میں خواجہ سرا مزید مشکل میں آ گئے ہیں، کام ہے نہیں جس کی وجہ سے وہ فاقوں پر مجبور ہیں۔ حکومت کو ان کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ راولپنڈی پولیس میں خواجہ سرا ریم شریف کو بھرتی کیا گیا ہے‘ یہ خوش آئند ہے۔ مرویہ ملک نے ایک نجی چینل کو بطور نیوز کاسٹر جوائن کیا، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ خواجہ سرا کمیونٹی کو جینے کا حق دیں‘ ان کے ساتھ غیر منصفانہ رویوں سے ان کو تکلیف مت دیں۔ مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد دس ہزار چار سو اٹھارہ ہے لیکن شاید حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ خواجہ سرائوں کے لئے کام کیا جائے‘ ان کو حقوق دیے جائیں‘ انہیں جسم فروشی اور رقص کے دلدل سے نکال کر باعزت روزگار دیا جائے۔ جب بھی آپ صدقہ‘ خیرات کریں تو اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو ضرور تلاش کریں جو زمانے کے ٹھکرائے ہوئے ہیں‘ ان کی مدد کریں‘ ان کو راشن دیں اور کوشش کریں کہ ان کو ایسی عزت دار نوکری مل جائے جس سے یہ بھی پیٹ بھر روٹی کما سکیں۔