تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-07-2020

سرخیاں، متن، فرانسیسی میں تحریر اور ابرار احمد

بزدار صاحب کو وزیراعظم کا اعتماد حاصل ہے: فیاض الحسن
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''بزدار صاحب کو وزیراعظم صاحب کا مکمل اعتماد حاصل ہے‘‘ لیکن ہم یہ بات کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں، کوئی اس کا یقین ہی نہیں کرتا جبکہ میں خود یہ بیان آٹھویں مرتبہ دے رہا ہوں بلکہ کوئی نہ کوئی صوبائی یا وفاقی وزیر ہرروز اس طرح کا بیان دے دیتا ہے‘ لیکن اس بات پر یقین کرنے کی بجائے اس پر شک و شبہ میں اضافہ ہونے لگتا ہے، حتیٰ کہ خود وزیراعظم صاحب بھی کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں، اب پھر وزیر اعظم صاحب نے اسی اعتمادکا اظہار کیا ہے اور اب صرف صدرِ مملکت ہی باقی رہ گئے ہیں جن کا بیان بھی کسی وقت آ سکتا ہے؛ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایک ہی کام پر لگا دیا گیا ہے اور ہمیں اور کوئی کام ہے ہی نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ کام کر کر کے ہم نڈھال ہو چکے ہیں، اس لیے میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اب میں اس طرح کا بیان کبھی نہیں دوں گا اور زیادہ سے زیادہ اس بیان کی فوٹو کاپی جاری کر دیا کروں گااور دوسرے وزرا سے بھی کہوں گا کہ وہ ہر روز یہ بیان دے دے کر اس معاملے پر مزید گواہیاں دیتے ر ہیں ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سازشی پہلے بھی ناکام رہے، اب بھی ناکام رہیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سازشیں کرنے والے پہلے بھی ناکام رہے، اب بھی ناکام رہیں گے‘‘ اس لیے انہیں اپنی ان مسلسل ناکامیوں پر غور کرنا چاہیے کہ آخر انہی کی سازشیں کیوں ناکام ہوتی ہیں اور جو سراسر ان کی بدنامی کا باعث ہیں، واضح رہے کہ ان میں کچھ ہمارے لوگ بھی شامل ہیں اور یہ بات ہمارے لیے اور بھی زیادہ تشویشناک ہے حالانکہ اور نہیں تو کم از کم اس میدان میں تو عقلمندی کا ثبوت دینا چاہیے‘ لیکن میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ناکام سازشیں کرنے والوں کے لیے کسی ریفریشر کورس کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اور نہیں تو انہیں یہ کام تو آنا ہی چاہیے‘ کیونکہ حکومت کے لیے اس سے بڑا کلنک کا ٹیکا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی سازشیں کرے اور ان میں کامیاب بھی ہو جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ڈیرہ غازی خان کے ارکانِ اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
ناراض ارکان اگر 40 ہیں تو چھ کیوں دکھائے گئے: رانا ثناء 
نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ناراض لیگی ارکان اگر 40 ہیں تو چھ کیوں دکھائے گئے‘‘ جو کہ سراسر ان ارکان کی حق تلفی ہے کہ وہ ٹی وی کیمروں کے سامنے آنے سے رہ گئے ‘ورنہ تو ہمیں یہ کہہ کر ویسے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ان کو کیا دکھانا ہے‘ لیکن وہ ہمارے ہی ساتھی ہیں اس لیے اُن کا خیال کرتے ہوئے ان کی ایک آدھ جھلک بھی ٹی وی پر دکھائی جائے تا کہ ہم چھوڑ کر جانے والوں کا حساب رکھ سکیں اور یہ نہ ہو کہ نواز لیگ کی بجائے صرف اس کا کھوکھا ہی باقی رہ جائے کیونکہ چھوڑ کر جانے والوں کے ساتھ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں یعنی اگر اُن کی رکنیت ختم کر دی گئی تو وہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے کر پھر آ براجمان ہوں گے جو ہمارے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوگا ۔ اس افسوسناک صورت حال سے بچنے کا واحدطریقہ یہی ہے کہ ہم سبھی حکومتی جماعت میں شامل ہو جائیں کیونکہ ہماری جماعت پہلے بھی کئی نام بدل بدل کر ہی نواز لیگ بنی تھی‘ کیونکہ اگر عوام کی خدمت ہی کرنی ہے تو وہ کسی نام سے بھی ہو سکتی ہے‘ اگرچہ وہ خدمت اب پھر کبھی نصیب نہیں ہوگی جس کے لیے ہم چار دانگ عالم میں مشہور ہو چکے ہیں اور ہماری یہ مشہوری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب مزید کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
فرانسیسی میں تحریر
ایک صاحب پیرس کسی کام کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے ایک دوست کو وہاں کسی ریستوران میں ملاقات کا ٹائم دیا ہوا تھا، جب وہ ریستوران کی طرف جا رہے تھے تو انہیں سڑک پر ایک کاغذ کا پرزہ ملا جس پر فرانسیسی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ وہ خود تو فرانسیسی زبان سے نابلد تھے اس لیے ان کا دوست جب وہاں پہنچا تو انہوں نے اسے کاغذ کا ٹکرا پڑھنے کے لیے دیا جو کہ فرانسیسی جانتا تھا۔دوست نے وہ تحریر پڑھتے ہی انہیں ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور بڑی تیزی سے ریستوران سے باہر نکل گیا۔ وہ حیران و پریشان ریستوران کے مالک کے پاس گئے اور کاغذ کا ٹکڑا اسے دکھاتے ہوئے پوچھا کہ اس پر کیا لکھا ہوا ہے؟ تو اس نے وہ تحریر پڑھتے ہی اپنے بہروں کے ذریعے ان کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کرا دی۔ وہ باہر نکلے اور سرِ راہ جاتے ہوئے دو نوجوانوں کو وہ پُرزہ دکھا کر پوچھا کہ ذرا پڑھ کر بتائیں اس پر کیا لکھا ہوا ہے؟ تو انہوں نے بھی موصوف کو اچھی خاصی پھینٹی لگادی۔ پھر انہوں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جو فرانسیسی جانتا تھا اور اس سے سارا قصہ بیان کیا۔ اس نے کہا کہ میں بحری جہاز سے بیرون ملک جا رہا ہوں، تم بندرگاہ پر آ کر مل لو۔ وہ صاحب بندر گاہ پہنچے تو ان کا دوست جہاز کے عرشے پر کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ بولا کہ اوپر آنے کا راستہ تو بند ہو چکا ہے، تم کاغذ کی گولی بنا کر اوپر پھینک دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن وہ گولی اوپر پہنچنے کی بجائے نیچے سمندر میں جا گری ؛ یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ کاغذ کے اُس ٹکڑے پر کیا لکھا ہوا تھا!
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
چیزیں
بارش میں چھینٹے اڑاتے قدم
خوش لباسی
اونچی آواز میں گانے کی خواہش کو
وضع داری
اور محبت میں بہنے والے آنسو
ادھر اُدھر کی ''ریں ریں‘‘ نے چھین لیے
رت جگے اور آوارگی
دوست اپنے ساتھ لے گئے
اور باقاعدگی سے کیا جانے والا سفر
بند دروازوں نے روک دیا
کھا جانے والے خالی پن کو
کمپیوٹر سکرین پر چڑھا دینے کے بعد
کونے میں پڑا صوفہ
دھنستے دھنستے گلوب بن گیا
پر اصلی چیز کو
کوئی اور چیز ڈھانپتی چلی گئی
لیکن یہ شام عجیب تھی
ماں کے مرنے کے بعد
اس کے سامان سے
میں نے وہ اٹیچی کیس لیا
جس میں سے پہلی مرتبہ
میں نے ایک روپیہ چرایا تھا
اُس پھٹے پرانے بیگ کو
کسی ملازمہ کے حوالے کیے جانے پر
رو دینے کی کیا بات تھی؟
جانے سے پہلے
چیزیں ہی تو
انسان کا ساتھ چھوڑا کرتی ہیں
آج کا مطلع
میں شعر بھی لکھوں گا وکالت بھی کروں گا
لازم نہیں یہ بات کہ محنت بھی کروں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved