تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-07-2020

منحوس… (4)

ڈیڑھ صدی پہلے افریقہ میں ایسے بچوں کو انتہائی منحوس سمجھا جاتا تھا‘ جن کی پیدائش کے دوران نہ صرف ان کی ماں مر جائے بلکہ ان کا رونابھی ماتمی چیخوں جیسا ہو۔ ایسے ہی ایک بچّے اونیکا کی پیدائش کے دن اگر ایک دیوقامت سرجن افولابی ہنگامہ برپا نہ کر دیتا تو یہ بچہ بھوکا مرجاتا۔ بیس سال بعد اسی سرجن نے اس لڑکے کو پہچان کر اس کی بھرپور مالی مدد کی تھی‘ لیکن یہ نہ بتایا کہ ایک بار پہلے بھی وہ اس پہ احسان کر چکا ہے ۔ 
مزید چالیس سال گزر گئے ۔ اب سبکدوش لیجنڈ افولابی سو برس کی عمر میں اپنوں کی موجودگی کے باوجود شدید تنہائی کا شکار تھا ۔ کوئی اسے باہر لے جانے والا نہیں تھااور ملازم بھی اسے اہمیت نہ دیتے تھے۔ اس وقت یہ لڑکا اونیکا ‘ جو اب خود ساٹھ برس کا ایک فربہ اندام ‘ گنجا اور باریش شخص تھا ‘ اسے ڈھونڈتا ہوا آتا ہے ‘لیکن اپنی شناخت چھپا لیتاہے ۔ اونیکا بوڑھے سرجن کو تنہائی کا شکار دیکھ کر غم زدہ ہو جاتاہے ۔ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے وہ افولابی کو تقریبات میں بطور مہمانِ خصوصی مدعو کرواتا ہے ۔لیکن یہی وہ دن تھے ‘ جب افولابی کو دل کا دورہ پڑا۔ وصیت لکھتے وقت اس نے خاندان والوں سے کہا کہ وہ اس کی جائیداد کے بھوکے ہیں ۔اس نے اونیکا سے کہا کہ وہ بھی ان میں شامل ہے ۔ ذلت آمیز انداز میں ایک پلاٹ جب اونیکا کے حوالے کیا گیا تو وہ اپنی بے عزتی برداشت نہ کر سکا۔ وہ رو پڑا اور اس کے ساتھ ہی اس کے حلق سے وہ مخصوص ماتمی چیخیں نکلنے لگیں ‘ جن کی وجہ سے بوڑھے سرجن نے اسے پہچان لیا ۔ اس نے اونیکا کو خود سے لپٹا لیا ۔
بوڑھے افولابی نے کراہ کر کہا ''تم کہاں تھے اونیکا‘ میں چالیس برس سے تمہارا منتظر تھا ‘‘۔ اونیکا چیختا رہا۔ پھراس نے کہا : کاش مجھے علم ہوتا ۔افولابی نے کہا : وقت کم ہے ‘ اعلان کردو کہ افولابی سرجری سے متعلق کئی اہم راز افشا کرنا چاہتاہے ۔ اس سے پہلے سرجنز کی ایک تقریب میں وہ دل کی ایک سرجری کے نقائص اور اس میں مجوزہ تبدیلی پر بات کر چکا تھا ۔ میڈیکل سائنس کی دنیا جانتی تھی کہ افولابی کے سینے میں بہت کچھ دفن ہے ۔ اب وہ پاگلوں کی طرح اس کی طرف دوڑ پڑے ۔ عالمگیر شہرت رکھنے والا سرجن ‘اس کی پچاس سالہ پریکٹس اور بیس سالہ ریسرچ۔ 
ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھااور کئی کیمرے اس سٹیج پر مرتکز تھے ‘ جس پر صرف دو کرسیاں رکھی تھیں ۔ ایک پر افولابی اور دوسری پر اونیکا براجمان تھا۔ افولابی نے بولنا شروع کیا۔ اس نے Thoracicسرجری کی ایک قسم میں مروجہ تکنیک میں نقص بیان کیا اور نئی تکنیک تجویز کی ۔ افولابی نے کہا کہ آج سرجری کی دنیا میں مروجہ طریقوں پر سات بڑی مجوزہ تبدیلیاں میرے پاس لکھی ہوئی ہیں ۔اس نے ان سب کے ٹائٹل بتائے۔
افولابی نے کہا '' اس کے علاوہ کچھ ایسے جینیٹک نقائص ہیں ‘ جو بعد ازاں سرجری کی وجہ بنتے ہیں ۔ یہ سب تحریری شکل میں بینک کے لاکر میں پڑا ہے اور اس کی چابی میں کیمرے کے سامنے اونیکا کے سپرد کرتا ہوں ۔ یہ دقیق رازایک لیکچر میں بتائے نہیں جا سکتے۔ میں تو انہیں اپنے ساتھ قبر میں لے جانے والا تھا اگر اونیکا ایک بار پھر مجھے دنیا کے سامنے نہ لے آتا۔اونیکا اس کتاب کو شائع کرائے گااور اسی کے پاس اس کے حقوق ہوں گے‘‘ ۔ افولابی نے کہا :اب میں آتا ہوں اصل بات کی طرف۔آج اصل بات اور اصل موضوع ہے ''منحوس افریقی بچے‘‘ ۔یہ کہہ کر افولابی خاموش ہو گیا۔ 
ہال سرگوشیوں سے گونج اٹھا۔ اونیکا نے گھبرا کر افولابی کی طرف دیکھا۔ افولابی بولتا رہا۔ اس نے کہا '' زچگی میں بعض اوقات ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ ماں مر جاتی ہے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ آلۂ صوت میں ایک خرابی کی وجہ سے بچّے کے رونے کی آواز نارمل نہیں ہوتی بلکہ ماتمی چیخوں جیسی لگتی ہے ۔ ایسے بچّے ساری دنیا میں پیدا ہوتے ہیں لیکن افریقہ میں انہیں شدید منحوس سمجھا جاتاہے ۔ بعض قبائل انہیں پیدا ہوتے ہی ہلاک کردیتے ہیں ۔ زندہ بچ جائیں تو ساری زندگی طنز و طعن کا نشانہ بنتے ہیں ‘‘۔ اونیکا کی آنکھیں نم ہو نے لگیں ۔ 
افولابی نے کہا '' آج سے ساٹھ سال پہلے ایسا ہی ایک بچہ اس ہسپتال میں پیدا ہواتھا‘ جہاں بطور ایک سرجن کے ‘میں تعینات تھالیکن یہ سرجری میں نے نہیں کی ۔ میں توجب ہسپتال میں داخل ہواتو ماں مر چکی تھی‘ وہ بچہ ماتمی چیخیں مار رہا تھا اور باپ سر پکڑ کے بیٹھا تھا۔ عملہ بچّے کے قریب جانے پر آمادہ نہیں تھا‘‘۔ 
اونیکا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ہال ماتمی چیخوں سے گونج اٹھا۔ پورے ہال کو معلوم ہوگیا کہ وہ بچہ کون تھا۔افولابی خاموشی سے اونیکا کو چیختے ہوئے دیکھتا رہا ۔ ہال میں بھرپور شور تھا۔سرجن ایک دوسرے کے کان میں سرگوشی کر رہے تھے‘ مگر افولابی کے بولتے ہی سب خاموش ہو گئے ۔اس نے کہا '' یہی وہ وقت تھا‘ جب میں نے ہنگامہ اٹھا دیا۔ایک بیڈ پر ایسی مریضہ بھی موجود تھی ‘ گزشتہ روز زچگی میں جس کا بچّہ مر گیا تھا۔''منحوس‘‘ بچّہ بھوک سے بلک رہا تھا اور وہ لڑکی زار وقطار رورہی تھی ۔آخر میرے ہمت دلانے پر اس نے بچّے کو اپنا دودھ پلایا اور یوں اسے اپنی پہلی خوراک ملی ‘‘۔افولابی کو خاموش ہونا پڑا کہ اونیکا ایک بار پھر غم کی شدت سے چیخ اٹھا تھا۔ 
ہال میں شور اٹھتا رہا ۔ چیخ چیخ کر اونیکا نڈھال ہو گیا۔ بوڑھے سرجن نے کہا ''جواں سال افولابی نے اس بچّے پر اپنا دستِ شفقت بلا وجہ نہیں رکھا تھا ۔ بچّے کے ساتھ اس کا ایک خفیہ رشتہ تھا۔پھر بیس سال بعد میں نے اسی لڑکے اونیکا کوایک بار پھر دیکھا۔ شدید غربت کا شکار لڑکا اپنی کینسر زدہ بہن کا علاج کرانے کے لیے تڑپ رہا تھا ۔میں نے پھر اس کی مدد کی اور بلاوجہ نہیں کی۔ اس وقت تک میں عالمگیر شہرت حاصل کر چکا تھا ۔ انتہائی مشکل کیسز میں میری کامیابی کا تناسب سب سے زیادہ تھا۔ میں نے اپنے پچاس سالہ کیرئیر میں لگ بھگ دو ہزار آپریشن بلا معاوضہ کیے ۔آپ ہسپتال کے ریکارڈ سے چیک کر لیجیے۔ افریقہ اور یورپ کی تاریخ میں ‘ میں سب سے زیادہ کامیاب سرجریز کرنے والا سرجن ہوں ۔ کیا میری کامیابیوں میں کسی کو کلام ہے ؟ 
ہزاروں سر نفی میں ہلے ۔ افولابی نے کہا '' اونیکا جب دودھ کی بلکتی ہوئی خواہش میں چیخ رہا تھا تو اس وقت ایک بوڑھی نرس نے کہا تھا کہ آج سے چالیس سال پہلے بھی اپنی ماں کو مار کر پیدا ہونے والا ایک بچہ ‘ اسی ماتمی انداز میں چیخ رہا تھا۔ اُس بچّے کا باپ ایک ایسا امیر قبائلی شخص تھا‘ جس کے قبیلے میں ایسے بچّے کو ہر صورت موت کے گھاٹ اتار دیا جاتاہے ورنہ وہ قبیلے کی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔اس بچّے کا باپ مگر اپنا نوزائیدہ بیٹا اٹھا کر ہسپتال سے فرار ہو گیا ۔ وہ ٹھکانے بدلتا رہا۔ ہوش سنبھالتے ہی اس نے بچّے کو سمجھایا کہ وہ لوہے کی طرح مضبوط ہے ۔ اسے کبھی کسی صورت نہیں رونا ورنہ وہ اسے مار ڈالیں گے ۔وہ بچّہ آخری بار سات سال کی عمر میں ایک حادثے میں رویا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کا باپ اسے لے کر ایک بار پھر فرار ہو گیا تھا۔ اس بات کو 93برس بیت چکے ہیں ۔پھروہ بچّہ اپنے باپ کے مرنے پر بھی نہیں رویا ورنہ اس کا کیرئیر تباہ ہو جاتا‘‘۔
افولابی کی آواز بھرّا گئی ۔اس نے کہا '' بوڑھی نرس سچ کہہ رہی تھی ۔اونیکا سے چالیس سال پہلے بھی ایسا ہی ایک بچہ اسی ہسپتال میں اپنی ماں کو مار کے پیدا ہوا تھا۔وہ بچہ آج بھی زندہ ہے ‘‘ ۔افولابی بار بار جذبات میں ڈوب رہا تھا‘ ابھر رہا تھا ۔93سال بعد افولابی کی آنکھ سے پہلی بار ایک آنسو ٹپکا ۔ پھر دوسرا ۔ لوہا پگھل رہا تھا ۔بوڑھا افولابی زارو قطار رونے لگا ۔اس کے ساتھ ہی ہال ماتمی چیخوں سے گونج اٹھا لیکن یہ چیخیں اونیکا کے حلق سے نہیں نکل رہی تھیں ۔ سب حیرت سے چیخ اٹھے۔ افولابی ہی وہ بچّہ تھا‘ جو سو سا ل پہلے اپنی ماں کو مار کر پیدا ہوا تھا۔ ایک سو سالہ بچّہ اپنی ماں اور اپنے باپ کی یاد میں ماتمی چیخیں مار رہا تھا لیکن سب گواہ تھے کہ وہ منحو س نہیں تھا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved