''امرائی‘‘ جیسا خوب صورت لفظ بھی لوگ بھولتے جاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ آم کا چلن بڑھتا جاتا اور امرائی کا لفظ متروک ہوتا جاتا ہے۔ آم کا باغ یا آم کے درختوں کا جھنڈ امرائی کہلاتا ہے۔ مغلوں اور نوابوں میں تو امرائیاں ان کی شناخت ہوا کرتی تھیں۔ لیکن بات مغلوں اور نوابوں سے شروع نہیں ہوتی‘ وہ تو آم کی تاریخ میں بعد کا حصہ ہیں۔ ایک نامعلوم مصنف کی دلچسپ تحریر کے مطابق سنسکرت لفظ امر سے آم کے لفظ کا آغاز ہوا ہے اور سنسکرت ادب میں یہ چار ہزار سال سے آمر کے نام سے موجود ہے۔ امب، انبہ، انب وغیرہ سب اسی پھل کے مختلف علاقوں میں مختلف نام ہیں۔ قدیم ہندو رزمیہ داستانوں مہا بھارت اور رامائن میں بھی آم کا ذکر موجود ہے۔ مذہبی عقائد میں بھی اس پیڑ اور اس پھل کے قصے موجود ہیں‘ جیسے رادھا کرشن کے رقص اور شیو پاروتی کی شادی وغیرہ۔انگریزی میں مینگو (Mango) کا نام تامل زبان سے پرتگیزیوں تک پہنچا۔ تامل میں اسے منگا یا منگائی کہتے ہیں۔ پرتگیزوں نے اسے منگا کہنا شروع کیا۔ پھر یہ انگریزی میں آکر مینگو بن گیا۔ لیکن ہجرت صرف لفظ نے نہیں کی‘ اس پھل نے اپنی خصوصیات کی وجہ سے جہاز رانوں، مذہبی سیاحوں اور فوجوں کے ساتھ سفر کیا۔ بدھ بھکشوؤں نے اسے برما، سیام، انڈونیشیا اور فلپائن پہنچایا۔ ہسپانوی اسے میکسیکو لے گئے۔ نو آبادیاتی دور میں بحرالکاہل عبور کرکے ویسٹ انڈیز، فلوریڈا‘ جہاں جہاں ہسپانوی گئے آم بھی ان کے ساتھ گیا۔ عرب جہاز ران اسے مشرقی افریقہ لے گئے۔ ابن بطوطہ نے موگا دیشو یعنی صومالیہ میں آم کھانے کا ذکر کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 632ء سے 645عیسوی کے دوران ہندوستان آنے والے سیاح ہوانسانگ نے آم کو پہلی بار بیرونی دنیا سے متعارف کروایا تھا۔
تحقیقی بات تو محققین ہی بتا سکتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ تخمی پیڑ میں قلم لگانے کا آغاز تیمور لنگ سے ہوا چنانچہ تیمور لنگ کے نام سے ایک قلمی آم اب تک موجود ہے۔ مغلوں نے آم کی ٹھیک قدردانی کی۔ یہ ان کا پسندیدہ پھل بن گیا۔ اکبر اعظم نے دربھنگہ بہار میں ایک لاکھ درختوں کا باغ لگوایا اور آئین اکبری میں بھی آم کی اقسام اور ان کی خصوصیات موجود ہیں۔ دہلی کے لال قَلعے میں باغ حیات بخش می کے نام سے امرائی میں نے بھی دیکھا ہے۔ سنا ہے کہ اس میں بعض درخت خاص تھے اور صرف بہادر شاہ ظفر اور خاص امراء تک ہی ان کا پھل پہنچ سکتا تھا۔ حیدر آباد دکن بھی اس معاملے میں لکھنؤ، فیض آباد، ملیح آباد سے پیچھے نہیں تھا۔ اور ایک زمانے میں بادشاہوں، مہاراجوں،، شہزادوں، نوابوں اور امراء کی شان و شوکت امرائیوں سے بھی خاص تھی۔ بات صرف اتنی نہیں تھی کہ امرائیاں کس کی زیادہ اور وسیع ہیں۔ اصل مقابلہ یہ تھا کہ کس کی امرائی میں آم کی کون سی خاص قسم پائی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک خفیہ دوڑ لگی رہتی تھی۔ اس ثقافت کا پورا منظر دیکھنا ہو تو اردو کے باکمال نثر نگار جناب ابوالفضل صدیقی کا افسانہ گلابِ خاص پڑھ لیجیے۔
دنیا میں بے خبر لوگوں کی کوئی کمی نہیں‘ وہ بھی موجود ہیں جو بس آم کا پھل پہچانتے ہیں باقی نہ اس کی اقسام سے انہیں غرض ہے‘ نہ ذائقے سے۔ جو لوگ گلاب اور گوبھی کے پھول میں فرق نہیں سمجھتے ان سے کیا توقع ہو سکتی ہے بھلا۔ تاہم اکثر لوگ آم کی چند ایک قسموں کے نام جانتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ آم کی 1500 قسمیں کسے معلوم ہو سکتی ہیں۔ صرف ہندوستان پاکستان میں ایک ہزار سے زیادہ اقسام ہیں۔ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ درج ذیل ناموں میں سے بہت سے نام میری طرح آپ نے بھی کبھی سنے نہیں ہوں گے۔ قلمی آموں میں بھورا، سندھڑی، کالا سندھڑی، دوسہری، الفانسو، ثمر، بہشت، طوطا پری، سبز، انور رٹول، چونسہ، دل آرام، سرولی، ثریا، پونی، حبشی سرولی، لنگڑا، آب حیا ت، لکھنوی، اکھلوی، نیلم، رومانی، بیگن پلی، فضلی، زرد آلو، آٹری، مال خورد، کیسر، راجہ پوری، جمعدار، بے نشان، ملغوبہ، (مال گوا) ، راس پوری، بادامی، عالم پوری بے نشان، حمایت، جہانگیر، بتوہ، سکی، من پسند، اعظم پسند، سفیدہ، رس پونیا، متوا، تیموریہ، شربتی، گلاس، نورس، رس گولہ، شکر گٹھلی، طوطا پری، راتول، منجیرہ، امر پالی، لاکھا باغ، لیلیٰ مجنوں، فجری کلاں، گلاب خاص اور دیگر نام شامل ہیں جبکہ دیسی آم میں پتاشہ، لڈو، گلاب جامن، سفید گولا، سبز گولا اور سندوری وغیرہ شامل ہیں۔ پھر یہ کہ ہم کچھ نام لے کر مزے سے گزر جاتے ہیں۔ آموں کے یہ نام پڑے کیسے۔ یہ خود ایک مزیدار تحقیق ہے۔ بھارت کا سب سے مشہور آم الفانسو دراصل ایک پرتگالی جنرل Afonso de Albuquerque کے نام پر رکھا گیا تھا۔
لنگڑا آم کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے انڈیا کے ماہر نباتات حاجی کلیم اللہ خان بتاتے ہیں کہ آج سے ڈھائی تین سو سال پہلے بھارت کے شہر بنارس میں ایک لنگڑا کسان آموں کا بڑا شوقین تھا‘ وہ مختلف آموں کی بہترین افزائش کرتا اور اس کے باغ سے طرح طرح کے آموں کی پیداوار ہوتی۔ انہی درختوں میں سے ایک کے آم خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے بڑا مقبول ہوئے۔ یہ کسان اپنے یار دوستوں میں لنگڑا کے نام سے مشہور تھا۔ جب اس کے آم کی شہرت آس پاس کے علاقوں میں پھیلی تو لوگ اس آم کو بھی لنگڑا کہنے لگے۔ انور رٹول کی بات بھی دل چسپ ہے۔ انوار الحق نامی زمیندار نے یہ آم بھارتی ریاست یو پی کے علاقے رتاول میں لگایا تھا۔ بھارت میں یہ آم انور رتاول کہلاتا تھا لیکن پاکستان میں یہ انور رٹول کے نام سے بہت مقبول ہے۔ سندھڑی آم اپنی مٹھاس‘ خوشبو‘ وزن اور ذائقے کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ سندھڑی آم کی تاریخ ایک سو سال پرانی ہے۔ جس کی ابتدا 1909ء میں ہوئی۔ جب انڈیا کے شہر مدراس سے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سندھڑی آم کے چار عدد پودے منگوا کر دو پودے سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے والد اور سابقہ ضلع ناظمہ ڈاکٹر صغریٰ جونیجو کے دادا جناب دین محمد جونیجو کو دیے، دو پودے مقامی زمیندار کو دیے۔ جس کے بعد اس آم کا نام سندھڑی رکھا گیا۔ فلوریڈا کی ورائٹی سنسیشن (مقامی نام لال بادشاہ) جامنی سرخ آم بھی تیزی سے متعارف ہو رہا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے آموں کے سیزن کے بعد دسمبر‘ جنوری میں پک کر تیار ہوتا ہے اور درخت سے اترنے کے بعد بھی بعد دیر تک خراب نہیں ہوتا۔
لیکن آموں کے عاشقوں کے لیے سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور مقامی باغبانوں نے آموں کے کچھ ایسے درخت کاشت کیے ہیں جو سال میں دو سے تین بار فصل دیں گے، جس کے بعد آئندہ چند برسوں میں ان شاء اللہ پورے سال آم دستیاب ہو گا، ان آموں کی اقسام کو سدا بہار، بارہ ماہی، مہران، بھرگڑی اور سرخ طوطا پری کے نام دیے گئے ہیں۔ کیا کیا شیخیاں دیکھیں آم نے نوابوں اور امراء کی۔ پھر کیا کیا شوخیاں دیکھیں شاعروں اور اہل قلم کی۔ جیسے خامہ نخلِ رطب فشاں ہو جائے۔ اقبال نے آموں کے تحفے پر اکبر الہ آبادی کو کیا کمال کی رسید بھیجی ؎
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
اور یہ جملہ بھی تو اقبال سے منسوب ہے کہ ''آم نہ کھا کر مرنے سے آم کھا کر مر جانا بہتر ہے‘‘۔ وہ کیا مزے کا واقعہ ہے کسی حکیم صاحب کا‘ جو آم کے عاشق تھے۔کوئی مریض آیا جو خود آم کے گرویدگاں میں تھا۔ حکیم صاحب نے دوائی دی اور کہا کہ اس موسم میں میٹھے پھلوں سے پرہیز کرنا ہے۔ مریض نے کہا ''حکیم صاحب! سب پھل تو خیر‘ مگر کیا آم بھی نہیں؟ بولے ''کہا تو ہے۔ میٹھے پھل سب منع ہیں‘‘۔ وہ پھر بولا ''حکیم صاحب! کیا آم بھی؟‘‘۔ حکیم صاحب آم سے اپنے عشق کی وجہ سے یہ لفظ زبان پر لانا نہیں چاہتے تھے۔ جھنجھلا کر بولے ''کم بخت! اب کیا کفر بکوں؟‘‘
جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں
چچا غالب! کمال قصیدہ کہا آپ نے آموں کا۔ بس اتنا ہے کہ یہ قصیدہ اصل میں پھلوں کے بادشاہ کاہے یا دہلی کے بادشاہ کا‘ یہ فیصلہ مشکل ہے۔ سچ بہرحال یہی ہے کہ بادشاہ وہ ہے جو پانچ ہزار سال سے تخت نشین ہے اور اس کی معزولی کسی میجر ہڈسن سے ممکن نہیں۔