جب جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے چیف الیکشن کمشنر کا منصب سنبھالا تھا تو بہت سے لوگ جزبز ہوئے تھے۔ معترضین کا استدلال تھا کہ اِتنی مُعمّر شخصیت کو چیف الیکشن کمشنر جیسا اہم منصب دینا کِسی اعتبار سے دانش مندی نہیں کیونکہ وہ ضرورت یا طلب کے مطابق مُتحرّک نہیں ہوسکیں گے۔ پھر جب میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیر اعظم بنایا گیا تب بھی اعتراض کرنے والے کمر کَس کر میدان میں آگئے۔ میر ہزار خان کھوسو کو بھی مُعمّر ہونے کی بُنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جب لوگ فخرالدین جی ابراہیم اور میر ہزار خان کھوسو کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تب ہم یہ سوچ کر خوش تھے کہ چلیے، کچھ تو ہے جو تسلسل سے ہمکنار ہے۔ اور کچھ نہیں تو اقتدار کے ایوانوں میں بُڑھاپے کا تسلسل برقرار ہے! سندھ کی وزارتِ اعلیٰ جب دوسری بار ’’انتہائے عُمر‘‘ سے ہم آغوش سید قائم علی شاہ کو دی گئی تو کوئی مُعترض نہ ہوا۔ اور اب تیسری بار اُنہیں وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کا موقع ملا ہے تو لوگ مُعترض ہیں کہ اِس عمر میں وہ کیا کریں گے؟ سوال یہ ہے کہ جوانوں کو بھی تو بڑے بڑے منصب دیئے گئے۔ اُنہوں نے کیا تیر مار لیا؟ سید قائم علی شاہ کو تیسری بار وزارتِ اعلیٰ کا منصب ملنا اِس بات کی علامت ہے کہ اب ہمارے ہاں جمہوریت کا ہر پہلو تسلسل سے ہمکنار ہے۔ یعنی جو کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ مُسلسل ہو رہا ہے۔ بُڑھاپے میں کِسی کو اقتدار دینا بادشاہ گروں کی انتہائے دانش کا مظہر ہے۔ شاہ صاحب عمر کی اُس منزل میں ہیں جہاں اِنسان میں اور کچھ ہو تو ہو، اقتدار کی ہوس باقی نہیں رہتی۔ اور پھر اُن کے سَر پر ہُما کوئی پہلی بار بیٹھا ہے جو وہ آپے سے باہر ہوں۔ ہمارے ہاں آج کل باری کا بڑا تذکرہ ہے۔ باری کے بیک ڈراپ میں سوچیے تو یہ شاہ صاحب کی تیسری باری ہے۔ خیر پور سے تعلق رکھنے والے یہ قسمت کے دَھنی تقریباً پوری زندگی خیر سے گزار چکے ہیں۔ کھا پی کر بیٹھے ہیں۔ اب وہ مزید کھا پی کر بُڑھاپے کی ’’بیزتی‘‘ خراب تھوڑی کریں گے! کِسی زمانے میں اشتیاق اظہر مرحوم کو ایم کیو ایم میں نگران کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ جلسے کے شرکاء پر صرف نظر رکھتے تھے۔ شریف آدمی تھے اِس لیے کِسی سے اُلجھتے نہیں تھے۔ شاہ صاحب بھی مرنجان مرنج ہیں۔ حال ہی میں ختم ہونے والے جمہوریت کے پنجسالہ منصوبے کے دوران بھی اُنہوں نے کِسی ’’ٹھیکیدار‘‘ سے اُلجھنے کی کوشش (یا حماقت!) نہیں کی۔ اب بھی یہی توقع ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں گے یعنی وزیر اعلیٰ کی مسند پر بیٹھ رہنے کو کافی جانیں گے، وزیر اعلیٰ بننے کی کوشش نہیں کریں گے! دیسی اور بدیسی مبصرین اور تجزیہ نگار ہماری سیاست اور اہلِ سیاست کے بارے میں پتہ نہیں کیا اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں۔ اقتدار کی منتقلی کے مرحلے کو ہَوّا بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اب اہلِ سیاست نے ’’تمہاری بھی جَے جَے، ہماری بھی جَے جَے‘‘ کا ایسا منتر پُھونکا ہے کہ ہر طرف شانتی ہی شانتی ہے۔ آپس کے اختلافات کو اہلِ سیاست نے مفاہمت اور مصالحت کی اجتماعی قبر میں دفنادیا ہے۔ انتقالِ اقتدار کا جاں گُسل مرحلہ ایسی آسانی سے طے کرلیا جاتا ہے کہ سیاسی نظام کو کہیں کوئی خراش نہیں آتی! بالخصوص سندھ میں تو انتقالِ اقتدار کا مرحلہ ایسے پُرسکون انداز سے طے ہوا ہے کہ اِس پر اقتدار کے انتقال کا گمان گزرتا ہے! ہمارے ہاں بہت سے نفسیاتی عوارض ایسے ہیں جن کے علاج کے لیے ماہرین کو تلاش کرنے پر ہمیں خاصی محنت کرنی پڑے گی! اب اِسی بات کو لیجیے کہ جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے، کہیں کوئی گڑبڑ دِکھائی نہیں دے رہی ہوتی تو بھی لوگوں کے دِلوں میں ہَول سے اُٹھتے ہیں۔ مرزا تنقید بیگ کو بھی ہر معاملے کی تہہ میں کوئی نہ کوئی خرابی تلاش کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ کرنٹ افیئرز کے ٹاک شو دیکھتے دیکھتے اب اُن کا ذہن متنوع پیچیدگیوں کا گودام بن چکا ہے! کوئی اگر اُن سے راستہ پوچھ بیٹھے تو ملک کو ترقی کی منزل تک پہنچانے کا روڈ میپ بتانے لگتے ہیں! مرزا کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کا کوئی بھی معاملہ پسِ پردہ مُحرّکات سے عاری نہیں ہوتا۔ ہم نے بارہا سمجھایا ہے کہ اہلِ سیاست کے ہر معاملے میں بدبو سُونگھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے مگر وہ کب مانتے ہیں۔ اُنہیں تو صرف وسوسے پالنے سے غرض ہے۔ اور وسوسے بھی ایسے کہ جن کا سَر دِکھائی دے نہ پَیر۔ جب سے ہماری سیاست میں win win والی طرزِ فکر عام ہوئی ہے، مرزا کا ذہن lose lose والے تصورات کی طرف چلا گیا ہے۔ مرزا کا خیال یہ ہے کہ جب گاڑی کِسی رکاوٹ کے بغیر چلی جارہی ہو تو سمجھ لیجیے کہ ڈھلوان سطح پر ہے، یعنی فراز گیا اور نشیب آیا۔ ہم نے کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی صفوں سے اختلافات اور تنازعات کو نکال باہر کرنے پر اچھی خاصی محنت کی ہے۔ اب وہ ملک کو مِل جُل کر پُرسکون انداز سے چلا رہے ہیں تو ہم بدگمانی کے بھنور میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں! مِِرزا کے خیال میں خرابی کا اصل سبب یہی ہے کہ سب مِل جُل کر کام کر رہے ہیں! اُن کا استدلال یہ ہے کہ سیاست دانوں کا باہمی اختلاف قوم اور ملک کے مفاد میں ہوتا ہے۔ اب ہم اُنہیں کیا بتائیں کہ اختلاف تو سیاست دانوں میں اب بھی ہوتا ہے مگر اسٹیج کے پیچھے۔ کِتنی اچھی بات ہے کہ وہ اسٹیج پر لڑ جھگڑ کر تماشائیوں کا بلڈ پریشر نہیں بڑھاتے! اور ہم ہیں کہ اُن کے بارے میں صرف بدگمان رہتے ہیں۔ مرزا کا کہنا ہے کہ مُکّا سیاست ختم ہوئی، اب مُک مُکا سیاست کا زور ہے! ہمارا خیال یہ ہے کہ قوم کو جو اتفاقِ رائے درکار تھا وہ سیاست دانوں نے اقتداری دستر خوان پر سجادیا ہے۔ مگر مرزا بضد ہیں کہ جو کچھ بہت اچھا دِکھائی دے رہا ہے وہ درونِ خانہ اُتنا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ سیاست دان اور کیا کریں۔ کئی عشروں تک اقتدار کے لیے آپس میں لڑتے رہنے کے بعد اُنہوں نے ایک ہُنر سیکھا ہے۔ یہ کہ مِل بانٹ کر کھایا جائے۔ انصاف یہی تو ہے کہ جس کا جِتنا حصہ بنتا ہو، دیا جائے۔ ایک اقتدار ہی تو تھا جس نے پورے سیاسی نظام کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اب یاروں نے مل کر اِسے قابو کرلیا ہے۔ یہ تو سیاست دانوں ہی کا جِگرا تھا کہ اُنہوں نے اقتدار کے بھینسے کو سامنے آکر سینگوں سے پکڑ کر پچھاڑا ہے اور مرزا ہیں کہ داد کے ڈونگرے برسانے کے بجائے تنقید کی بارش فرمانے پر تُلے ہوئے ہیں! اقتدار جماعتوں کے درمیان تقسیم کرنا ہو یا کِسی ایک جماعت میں اندرونی سطح پر اُس کی بندر بانٹ کرنی ہو، ہر دو معاملات میں مفاہمت کی سیاست ہی کام آتی ہے۔ اہلِ سیاست نے پہلا مرحلہ کامیابی سے طے کرلیا ہے یعنی اپنے بارے میں اچھی طرح سوچنا اور اُس پر عمل کرنا سیکھ لیا ہے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ قوم بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ قوم کے لیے سیاست دان اُسی صورت لڑ سکتے ہیں جب اُن میں طاقت پائی جاتی ہو۔ وہ ذرا سے اور طاقتور ہولیں تو قوم کے لیے بھی سوچیں گے اور جو سوچیں گے ، کر گزریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved