تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-07-2020

ترے قتیل بتاتے نہیں تجھے قاتل

اب یہ بات کم وبیش مکمل طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ دنیا جس آستانے پر سجدہ ریز تھی‘ وہ کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہ تھا کہ اُس کے آگے سجدہ ریز ہوا جاتا۔ دنیا محض چمک دمک دیکھ کر فدا ہوئی تھی اور تاحال اِسی عالم میں ہے۔ مغرب نے کئی صدیوں سے دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا رکھا ہے۔ کیسے؟ مادّے کی تسخیر کے ذریعے۔ مادّے کی تسخیر نے دنیا کو وہ سہولتیں فراہم کی ہیں جن کا صرف خواب دیکھا جاتا رہا تھا۔ انسان روئے زمین پر بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر کر نہیں پاتا تھا کیونکہ فکر کو عمل کی شکل دینے کے لیے جو کچھ درکار تھا اُس کا دور تک نام و نشان نہ تھا۔ انسان فضاؤں کی پیمائش کا خواہش مند تھا مگر اُڑنا اس کے بس میں نہ تھا۔ کسی عمارت یا ستون کی شکل میں ایک خاص حد تک ہی بلند ہوا جاسکتا تھا۔ انسان روئے ارض پر بہت تیز سفر کا متمنی تھا‘ یہ ہزاروں سال تک ممکن نہ ہوسکا‘ اب ممکن ہے۔ اب فضا میں پُرسکون اور محفوظ سفر بھی ممکن ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے دوبدو گفتگو بھی ممکن ہوچکی ہے۔ روزمرہ سرگرمیاں بھی اب قدرے آسانی کی حامل ہیں۔ 
چند صدیوں کے دوران فطری علوم و فنون کے حوالے سے غیر معمولی بلکہ عقل کو دنگ کردینے والی پیش رفت نے انسان کے لیے بہت کچھ بہت آسان کردیا ہے۔ اور معاملات کو آسان تر بنانے کا عمل جاری ہے۔ فطری علوم و فنون کے شعبے میں پیش رفت کا سلسلہ رکا نہیں۔ تحقیق و ترقی کا بازار گرم ہے۔ آج دنیا بھر میں جدیدیت کا غلغلہ ہے۔ جدیدیت کے نام پر ہر طرح کی قدامت کو خیرباد کہنے کا چلن عام ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں کا بہت کچھ ایسا ہے جو اب بھی ہمارے کام کا ہے۔ بہت سے معاملات کو اب بھی سینے سے لگائے رکھنے میں بظاہر کوئی قباحت نہیں۔ قدیم طرزِ زندگی کے چند اجزا اب بھی برقرار و سلامت ہی نہیں‘ کارآمد و مفید بھی ہیں۔ کل کی دنیا ہمارا اثاثہ تھی نہیں بلکہ اب بھی ہے۔ اُس دنیا میں ایسا بہت کچھ تھا جو ہمارے لیے آج بھی ناگزیر ہے مگر ہم نے اُس طرف سے آنکھیں موند لی ہیں۔ 
آج کی دنیا نری مرعوبیت سے عبارت ہے۔ جی ہاں! مغرب سے مرعوب ہوکر جینے کا انداز عام ہے۔ دنیا محض مادّی ترقی کے حوالے سے نہیں بلکہ فکر و نظر کے معاملے میں بھی مغرب کے آستانے پر سجدہ ریز رہنے کو زندگی کا حاصل سمجھ رہی ہے۔ آج بھی خطہ مغرب سے مرعوب ہونے کے مرض سے بچا ہوا نہیں۔ مغرب سے مرعوب ہونا غیر فطری نہیں۔ آج کی بیشتر مادّی ترقی موجودہ شکل میں مغرب ہی سے آئی ہے۔ مسلمانوں اور دیگر اقوام نے بھی دنیا کو اپنے اپنے دورِ عروج میں بہت کچھ دیا تھا مگر وہ سب کچھ چونکہ متعلقہ ادوار سے متعلق تھا اس لیے نسبتی اہمیت تسلیم شدہ ہونے کے باوجود‘ آج کی دنیا اُسے زیادہ اہم نہیں گردانتی۔ مغرب نے بھی گزرے ہوئے ادوار کی ترقی سے استفادہ کیا ہے اور پرانی اینٹیں لگاکر نئی دیوار بنائی ہے مگر چونکہ انداز بالکل نیا اور نرالا ہے اس لیے دنیا گزرے ہوئے ہر دور کی کہانی بھول چکی ہے اور مغرب کا سٹیج کیا ہوا فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت کا ڈراما بھرپور دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ مغرب کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ اس ڈرامے میں کہانی کو حیرت انگیز موڑ متعارف کراتے ہوئے ناظرین اور متاثرین کی دلچسپی کا گراف گرنے نہیں دیتا۔ 
مغرب نے جو مادّی ترقی یقینی بنائی ہے اُس نے دنیا کی رگوں سے معقولیت کا سارا خون نچوڑ لیا ہے۔ کل تک زندگی کا حاصل یا مآحصل سمجھی جانے والی ہر بات اب متعلقین ہی کو بُری لگ رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سب مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔ سوچنے کا عمل موقوف کردیا گیا ہے یا یوں کہیے کہ یہ کام بھی مغرب کے حوالے کردیا گیا ہے۔ آج کا انسان مغرب کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکا ہے۔ مغرب نے جو کچھ مادّی سطح پر دیا وہ اِتنا زیادہ تھا کہ دنیا نے اِسی کو سب کچھ سمجھ لیا۔ کسی بھی ایجاد سے مستفید ہوتے وقت اُس کے موجد سے فکری، نظریاتی یا اخلاقی سطح پر متاثر ہونا لازم نہیں ہوتا مگر مغرب نے غیر معمولی توجہ اور محنت سے دنیا بھر کی پسماندہ اقوام کو فکر و نظر کے اعتبار سے بھی مغلوب کیا ہے۔ یہ سب کچھ اعلیٰ درجے کی اور باریک بینی سے کی جانے والی منصوبہ سازی کا نتیجہ ہے۔ نفسی اور عصبی سطح پر غیر معمولی مہارت کے ذریعے مغرب نے دنیا کو یوں دام میں لیا ہے کہ اب اُس کا اِس دام سے باہر نکلنا انتہائی دشوار نظر آتا ہے۔ ناممکن تو کوئی بھی کام نہیں ہوتا مگر انتہائی دشوار کام کے کرنے کی بھی ایک ہی صورت ہے ... یہ کہ انسان ابتدا کرے مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ مغرب کی مادّی ترقی دیکھ کر ہیبت زدہ رہ جانے والے پسماندہ خطوں کے لوگ آج بھی مغرب کو ملجا و ماویٰ سمجھنے سے گریز کا تصور بھی نہیں کر رہے۔ اُن کے نزدیک زندگی وہی ہے جو اہلِ مغرب گزار رہے ہیں اور فکر و نظر کا معیار بھی وہی ہے جو اہلِ مغرب نے متعین کر رکھا ہے۔ ہر مرعوب ذہن یہی کہہ رہا ہے ع 
کاش مر جاؤں اِسی گوشۂ تنہائی میں 
بہت کچھ بدل رہا ہے۔ کئی خطوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ انقلابات کی صدا سنائی دے رہی ہے۔ مغرب نے جو کچھ کیا ہے اُس کا بھیانک نتیجہ کچھ کچھ سامنے آنے لگا ہے۔ اپنی برتری برقرار رکھنے کی خاطر مغرب جو کچھ کر رہا ہے اُس نے اُسی کی یقینی بنائی ہوئی ترقی کو داؤ پر لگادیا ہے۔ کئی خطوں کو پامال کرنے کے بعد بھی مغرب کے پالیسی میکرز کے دل کو ٹھنڈک نہیں مل سکی ہے۔ تین صدیوں کے عمل میں مغرب نے ایجادات و دریافت کی شکل میں جو کچھ دیا تھا اُس کے مثبت اثرات سے فیضیاب ہونے والی دنیا اب مغرب ہی کے ہاتھوں ہمہ گیر نوعیت کی تباہی کا سامنا کرنے پر بھی مجبور ہے۔
ہر دور میں یہی ہوا ہے۔ جس نے بھی ترقی کی ہے‘ اُس سے دنیا مرعوب ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ مسلمانوں کی ترقی چونکہ مذہب کے خلاف ردعمل کا نتیجہ نہیں تھی اس لیے دنیا کو اُس سے مذہب بیزاری سیکھنے کا موقع نہیں ملا جیسا کہ مغرب کے معاملے میں ہوا۔ جب تک مسلمان کئی خطوں پر غالب رہے، فکری اور مذہبی سطح پر بھی اُنہیں اپنایا جاتا رہا اور یوں مذہب کو زندگی کی اصل بنیاد سمجھنے کا تصور بھی باقی رہا۔ ابتدائی دور کے مسلم فاتحین نے دنیا کو جنگی اصولوں اور رواداری کے حوالے سے بہت کچھ دیا۔ اِسی کا ایک مثبت نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا۔ 
مغرب کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا کو بہت کچھ دے کر اُس سے بہت کچھ چھیننے پر بھی وہ معتوب نہیں۔ جو اُس سے مرعوب ہیں وہ اپنا آپ بھی بھول چکے ہیں۔ طے کرلیا گیا ہے کہ یہ مرعوبیت ترک نہیں کرنی۔ اگر توجہ دلائی جائے کہ اُن کی تباہی میں اصل بلکہ کلیدی کردار مغرب ہی کا ہے‘ تب بھی متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا ؎ 
ترے قتیل بتاتے نہیں تجھے قاتل 
جب اُن سے پوچھو‘ اجل ہی کا نام لیتے ہیں 
دنیا بھر میں مغرب سے مرعوب ذہنوں کا بھی یہی حال ہے۔ ذرا مرعوبیت کی سطح تو ملاحظہ فرمائیے۔ اگر اہلِ فکر و نظر تجزیہ کرکے خالص علمی انداز سے نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ کئی خطوں کو صدیوں سے پسماندگی کا سامنا ہے تو اصل مجرم مغرب ہے تب بھی خود وہ تسلیم نہیں کرتے جو اس جرم کی زد میں آئے ہیں یا ہدف رہے ہیں۔ یہ بھی نفسی علوم و فنون کے حوالے سے مغرب کی برتری ہی کی علامت ہے کہ جو اُس کے ذہنی غلام ہیں وہ اب غلامی ہی کو زندگی کا حاصل گردانتے ہوئے آزادی سے ڈرتے ہیں! ع
اِتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے‘ اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved