سیاست کا بازار بڑا گرم رہا اور رہے گا۔ بجٹ نائٹ سے شروع ہونے والا طوفان قدرے تھم چکاہے اور دوبارہ سے نیا جال بُنا جارہا ہے۔ پہلے والے تانے بانے زیادہ الجھ گئے تھے اور کچھ گانٹھیں ایسی جُڑ چکی ہیں کہ ان کو کھولنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ جو گانٹھیں جُڑجائیں انہیں پھر کاٹنا پڑتا ہے اور ایسا تب کیا جاتا ہے جب کوئی نیا ڈیزائن بُننا ہو۔ فی الحال مستقبل قریب میں ایسے آثار کم ہی ہیں‘ تاہم زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تغیرات بہت ضروری ہوتے ہیں۔ملکی سیاست کو دیکھ کر بچپن کی باتیں بہت یاد آتی ہیں اور لگتا ہے کہ ملکی و قومی سیاست کا حال بھی ہر وقت ہاتھ سے بُنے سویٹر اور جرسی کی طرح کارہتا ہے۔ ہمارے بچپن اور اس سے پہلے کے وقتوں میں خواتین زیادہ تر کام اپنے ہاتھوں سے اور گھروں پر ہی کرتی تھیں‘ ایسی خواتین کوسُگھڑ کہا جاتا تھا جو بازار کی بنی ہوئی چیزوں کا کم سے کم استعمال کرتی تھیں ۔ریڈی میڈ اشیا پرانحصار انتہائی کم ہوتا تھا بلکہ ان کو معیاری نہیں سمجھا جاتا تھا ۔پسے ہوئے مصالحوں کی بجائے مصالحے ثابت حالت میں لائے جاتے تھے اور کم آمدنی والے گھروں میں سِل وٹے پر ہر کھانے سے پہلے ضرورت کے مطابق ثابت مرچ‘ دھنیا‘ ہلدی وغیرہ اور اسی طریقے سے گرم مصالحے بھی گھروں میں پیس کر ہی استعمال میں لائے جاتے تھے اور جو قدرے بڑے گھرانے تھے ان کے ہاں یہ کام ہاتھ کی چکی پر ہوتا تھا۔ ہمارے گھر میں بھی ایک چکی تھی‘ ہر فصل پر اناج ‘دالیں‘ مرچ مصالحے وغیرہ آجاتے تھے اور پھر ضرورت کے مطابق پسائی کی جاتی تھی۔ ایک مامی کام کاج کے لیے آتی تھیں‘ جو گھر کے کام کرتی تھیں‘ لیکن چکی اور چرخا چلانا میری والدہ کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور میں چکی چلانے میں ان کی مدد بخوشی کرتا تھا اور اس نوعیت کے کاموں میں اپنی امی کی مدد کرتا تھا اور بہت سی دعائیں لیتا تھا ‘لیکن چرخا چلانے اور سوت کاتنے کا فن مجھے نہ آسکا بلکہ اکثر کچھ خراب ہی ہوجاتا تھا ۔محلے کی دیگر خواتین بھی ہمارے ہاں آتی اور چکی سے استفادہ کرتی تھیں۔ وہ دن واقعی بہت اچھے تھے جب انسانوں کی قدر ہوتی تھی‘ پھر سب کچھ مشینی دور نے بدل دیا اور اب حالت ہمارے سامنے ہے ‘نہ کھانے کو خالص چیز ملتی ہیں‘ ملاوٹ شدہ اجناس اور وہ بھی مہنگے داموں‘ بس رنگ برنگی پیکنگ اور نام نہاد برانڈ دیکھ کر ایک مصنوعی تسکین حاصل کرتے ہیں۔
لیکن ملکی سیاست پر جو عمل اور مثال سب سے زیادہ صادق آتی ہے وہ بڑی دلچسپ بھی ہے اور من وعن مشابہت رکھتی ہے‘ خواتین کی اکثریت اپنے کپڑوں کی سلائی اور کشیدہ کاری خود کرتی تھی‘ ہر گھر میں سلائی مشین ہوتی تھی اور خواتین جرسیاں اور سویٹر بھی ہاتھوں سے بڑے شوق سے بُنتی تھیں اور ہر موسم سرما سے پہلے یہ عمل شروع ہوجاتا تھا۔محفوظ شدہ سلائیوں کو ٹرنکوں سے نکالا جاتا تھا پھر نِت نئے رنگوں کے اون کی خریداری ہوتی تھی ایک ایک اونس کا اون کا گولا ہوتا تھا اور ایک پیکٹ میں سولہ گولے ہوتے تھے‘ اپنی اپنی پسند کے مختلف رنگوں کے اون کے گولے لائے جاتے اور پھر سلائیوں کی مدد سے ہاتھوں سے جرسی‘ سویٹراور شالوں کی بُنائی کی جاتی۔ ہر سال نئے ڈیزائین متعارف ہوتے تھے اور نئے ڈیزائن بھی سمجھدارخواتین خود ہی ایجاد کرتی تھیں۔ پھر نئے ڈیزائن کی بُنت سمجھنے کے لیے محلے بھر کی لڑکیاں اُس سمجھدار خاتون کے پاس جاتیں اور ان جیسے سویٹرز بُننے کی کوشش کرتیں۔ فراخ دل خواتین اپنے تیار کردہ نئے ڈیزائن کو آگے بتانے میں خوشی محسوس کرتی تھیں‘ جبکہ بخیل خواتین کسی کو گھر میں گھسنے نہ دیتی تھیں‘ تاوقتیکہ ان کا تیارکردہ سویٹر ان کا شوہر یا وہ خود پہن کر نمائش کے لیے پیش نہ کردیتیں۔پھر اس بنے ہوئے سویٹر کی کاپی کی جاتی جبکہ مقابلہ پسند خواتین نیا اور بہتر ڈیزائن تیار کرنے میں مگن ہوجاتی تھیں۔موسم سرما سے پہلے کم وبیش ہر خاتون کے ہاتھ میں دو عدد سلائیاں ہوتی تھیں جس سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ موسم سرما کی آمد آمد ہے۔ ایک اور بات یاد ہے کہ بچت پر یقین رکھنے والی کم آمدنی والی مگر سلیقہ شعار خواتین گزشتہ سال کے بُنے ہوئے سویٹرز کو ادھیڑ کر اسی اون کو بچوں کے سویٹرز میں تبدیل کردیتی تھیں اور نئی اون سے نئے ڈیزائن کے ساتھ اپنے اور اپنے میاں کے لیے نیا سویٹر تیار کرتی تھیں ‘جبکہ بڑے گھرانوں میں پرانے سویٹرز اپنے عزیزواقارب اور ملازمین کو دے دیتے تھے اور اپنے لئے نِت نئے سویٹرز تیار کروائے جاتے تھے۔ استعمال شدہ اون سے بنے سویٹرز کو آئندہ برس پھر ادھیڑا جاتا تھا اور استعمال شدہ اون سے کمبل بھی بُنے جاتے تھے ۔ پھر آہستہ آہستہ زمانے کے چال چلن اور رہن سہن بدل گئے ‘ریڈی میڈ گارمنٹس کی اجارہ داری ہوگئی اور ہاتھوں سے بُنائی اور کشیدہ کاری کا کام کم وبیش ختم ہوکر رہ گیا۔ اب ہاتھ سے بنی ہوئی چیزوں کو نایاب سمجھا جاتا ہے‘ جبکہ پہلے وقتوں میں ہر گھر میں ہاتھ سے بنی اشیا استعمال میں آتی تھیں۔معاشرے نے بھی اس تبدیلی کو قبول کرلیا ہے‘ اب امیر گھرانے برانڈڈ اشیا پہنتے ہیں ‘جبکہ کم آمدنی والے لنڈے بازار سے امپورٹڈ سٹف لے کر گزارا کرتے ہیں۔ متوسط طبقے کے لوگ درمیانے اور مقامی برانڈز پر اکتفا کرکے اپنے دل کا رانجھا راضی کرتے ہیں ۔
ہماری قومی سیاست کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے‘ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اور ہمارے ارباب ِاقتدار کے راہبر و رہنما زمانے کے بدلے چلن کے ساتھ نہیں بدلے اور نئی تکنیک نئی تبدیلیوں کو اختیار نہیں کرسکے ۔ہمارے سیاسی سویٹرز جرسیاں اسی پرانے طریقے سے ہاتھوں سے بُنی جارہی ہیں اور اور انہی پرانے سویٹرز جرسیوں کوادھیڑ ادھیڑ کر نئی جرسیاں‘ نیا سٹف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ مارکیٹ پرانی ادھیڑ ی ہوئی اون سے بننے والی اشیا کو واقعی نیا سمجھے گی اور یہ پرانی اون بھی نئی اون جیسی دیدہ زیب لگے گی۔ ایسا ہو نہیں سکتا اور لوگ اب دور سے ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ سیاسی سٹف فلاں سال‘ فلاں ڈیزائن میں مارکیٹ میں دستیاب تھا اور فلاں رہنمانے خریدا تھا‘ بلکہ ایسے سٹف کی بھی بھرمار ہے جو جرسیوں سے کمبل اور جرابوں میں تبدیل ہوچکا ہے ۔سیاست کے یہ پرانے ملبوسات اب اپنی افادیت کھوچکے ہیں‘ وہی پرانا سٹف پرانی اون‘ پرانی سلائیاں گھس گھس کر فارغ ہوچکی ہیں اور ہمارے اربابِ اختیار زمانے میں ہونے والی ترقی اور تبدیلی کو نہ صرف سمجھنے کی لیے تیارنہیں بلکہ اسی بار بار ادھیڑی ہوئی اون کو مہنگے داموں بیچنے کے لیے بضد ہیں۔ سیاست کی مارکیٹ اتنی بڑی اور مالدار ہوچکی ہے کہ ہر طرح کا ریڈی میڈ سٹف اور وہ بھی برانڈڈ دستیاب ہے‘ جو لوگوں کے دلوں کو بھاتا بھی ہے‘ لیکن سیاست کی مارکیٹ کو اوپن نہیں کیا جارہا ‘جس کی وجہ سے صورتحال قابو سے بار بار نکل رہی ہے‘ پھر مارکیٹ میں برانڈڈ اور ری سائیکل کیے گئے مال کا ٹکراو ٔہے اور اب تو امپورٹڈ اور لوکل سیاسی مال میں بھی ٹکراؤ شروع ہوچکا ہے۔ اب اگر خواتین پرانی ڈگر پر چلنے کی کوشش کریں تو انہیں کنجوس اوردقیانوس کہا جاتا ہے ۔یہی تاثر سیاسی سٹف کے بارے میں بھی ہے سیاست کے بازار میں مقابلہ کرنے کے لیے مارکیٹ کو اوپن کرنا پڑے گا اور اپنی پراڈکٹس کو جدید خطوط پر استوار کرنا پڑے گا۔ اچھی پراڈکٹ مارکیٹ میں ڈالی جائے گی تو اسے بہت تھوڑی تگ و دوکے بعد فروخت کیاجاسکتا ہے اور اس کے نتائج بھی اچھے برآمد ہوں گے‘ لیکن اگر بار بار استعمال شدہ میٹریل سے بنا ہوا مال سیاست کے بازار میں بیچنے کی ضد کی گئی تو نتیجہ صفر ہی برآمد ہوگا۔مسائل بنیادی ہیں‘ مینوفیکچرنگ کے ہیں مارکیٹنگ کے ہرگز نہیں۔