تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-07-2020

کاک ٹیل

پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عوام
کی عدالت میں جائیں گے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عوام کی عدالت میں جائیں گے‘‘ اگرچہ عوام کی عدالت سے ہمیں ریلیف ذرا کم ہی ملتا ہے اور حکومت نے عوام کی عدالت سے پہلے ہی حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے لیکن یہ خارج یا ختم بھی ہو سکتا ہے اور ان شاء اللہ میری تقریروں ہی سے ختم ہوگا اور اب اس کا امکان اس لئے زیادہ ہے کہ ان کی وجہ سے عوام کا پیمانہ صبر پہلے ہی لبریز ہو چکا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ کسی طرف کو منہ کر جائیں حالانکہ انہیں مزید صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اگر اب تک انہیں صبر کی عادت نہیں پڑی تو مزید بے صبری بھی نہیں دکھانی چاہیے ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل پرگفتگو کر رہے تھے۔
وبا کب تک رہے گی‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''وبا کب تک رہے گی، کچھ نہیں کہا جا سکتا‘‘ اور صرف میرے بارے میں پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ میں مستقل طور پر موجود رہوں گا اور اگر اب تک لوگوں کو اس کا یقین نہیں آ رہا تو یہ ان وفاقی و صوبائی وزراء کا قصور ہے جو ہر روز اپنی تقریروں میں میرے بارے اعلان کرتے ہیں اس لئے خود اُنہیں چاہیے کہ اپنی تقریروں میں اثر پیدا کرنے کی کوشش کریں جبکہ کچھ حضرات کی توجہ اپنی پیدا گیری پر زیادہ ہے لیکن لطف یہ ہے کہ لوگوں کو ان کی اس حرکت پر بھی پورا یقین نہیں آ رہا حالانکہ ہر روز ایسی کوئی نہ کوئی خبر نکلتی رہتی ہے اور اب تو کئی حضرات کی دہری شہریت بھی نکل آئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کشمیر کی آزادی اور بھارت کی
شکست نوشتۂ دیوار ہے: شہباز شریف
سابق خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''کشمیر کی آزادی اور بھارت کی شکست نوشتۂ دیوار ہے‘‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہاں کسی کو نوشتۂ دیوار پڑھنے کی عادت ہی نہیں ہے حتیٰ کہ کسی نے عدالت کا وہ نوٹس ہی نہیں پڑھا جو لندن میں بھائی صاحب کے گھر کی دیوار پر چسپاں کیا گیا ہے بلکہ میری دیوار پر بھی جو لکھا جا چکا ہے وہ شاید اس لئے نہیں پڑھا جا سکا کہ بہت شکستہ انداز میں لکھا گیا ہے جبکہ علاوہ ازیں بھی ہمارے زعما کو یا تو نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے یا کم از کم دیواریں صاف ہی کروا دیں تاکہ اُن پر بار بار لکھا جاتا رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان سیاسی اور معاشی آزادی
کی نوید لے کر آئے ہیں: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض چوہان نے کہا ہے کہ ''عمران خان سیاسی اور معاشی آزادی کی نوید لے کر آئے ہیں‘‘ لیکن اپنی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے انہوں نے یہ نوید آگے نہیں چلائی ہے اور کسی مناسب موقع کے لئے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے جبکہ دراصل تو میں نے یہ بیان حسب معمول بزدار صاحب کے نہ جانے کے بارے میں دینا تھا کیونکہ مختلف زعما کی طرف سے تابڑ توڑ بیانات کا جو سلسلہ جاری تھا لیکن اس کا اُلٹا اثر ہو گیا ہے اور مزید شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں لیکن شکر ہے کہ ان کی دہری شہریت نہیں نکل آئی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نئی مسلم لیگ بنانے کی کوششیں
کامیاب نہیں ہو سکتیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''نئی مسلم لیگ بنانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں‘‘ اور عوام کو‘ وہ جیسے بھی ہیں، پرانی مسلم لیگ ہی پر گزارا کرنا پڑے گا کیونکہ ویسے بھی نیا نو دن اور پرانا سو دن ہوتا ہے اور اسی طرح شیر اور گیدڑ کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی بات کی جاتی ہے اور چونکہ مسلم لیگ کا خصوصی نشان بھی شیر ہی ہے اس لئے گیدڑ کی زندگی کا مقابلہ کرنے کے بجائے جتنے دن اس نے جی لیا ہے، اسی کو کافی سمجھا جائے جبکہ ہمارا شیر ویسے بھی آج کل بیرونِ ملک ہے اور عدالتوں کی بار بار طلبی کے باوجود واپس آنے اور پیش ہونے کا نام نہیں لے رہا اور شاید اسی میں اس کی عافیت بھی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
گرفتاری
فوج میں گرینڈ ڈنر کا موقع تھا۔ جب تیاری مکمل ہو چکی تو متعلقہ ایڈجوٹنٹ نے سپاہیوں سے کہا: ''کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑو جیسے دشمن پر حملہ کرتے ہیں!‘‘ تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ ایک سپاہی بھنے ہوئے مرغ کے ٹکڑے جیبوں میں بھی ڈال رہا ہے۔''یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ اس نے کڑک کر پوچھا تو سپاہی بولا: ''جناب میں دشمن کے سپاہیوں کو گرفتار بھی کر رہا ہوں‘‘۔
اب آخر میں پشاور سے ڈاکٹر محمد اسحق وردگ کی تازہ غزل:
اپنا ہی کردار رد کرتا ہوا
میں کہانی مستند کرتا ہوا
شہر بھی مجھ سے حسد کرتا ہوا
ساتھ میں گاؤں کو رد کرتا ہوا
عشق لکھے گا نیا آئینِ دل
ہجر ہی کو اب سند کرتا ہوا
اک نیا نقشہ بنا لایا ہوں میں
شہر کو صحرا کی حد کرتا ہوا
یاد کی طغیانیوں میں رتجگا
مستقل دل کی مدد کرتا ہوا
جانے دونوں کو ملا بیٹھا ہوں کیوں
امتیازِ نیک و بد کرتا ہوا
آخر آخر کر گیا ہوں میں قبول
اوّل اوّل ردّ و کد کرتا ہوا
کر گیا ہوں خود کو بھی میں گم‘ اسے
اپنی خاطر نامزد کرتا ہوا
اک نئے مسکن کا متلاشی تھا میں
باغ و صحرا مسترد کرتا ہوا
آج کا مقطع
اپنی باری کے منتظر ہیں ظفرؔ
کہ لگے ہیں قطار میں ہم بھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved