ہمارے وزیراعظم صاحب کی ایک بات تو ہے کہ ہر چیز کا نوٹس ضرور لیتے ہیں۔ ملک میں روپے کی قدر گرنے لگی تو وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیا، ڈالر مہنگا ہونے کے خلاف بیان بھی دیا، خبریں بھی نشر و شائع ہوئیں‘ جو ان کے نوٹس کا ثبوت ہیں۔ بعد ازاں وزیر خزانہ بھی تبدیل کر دیے گئے، روپے کی قدر پھر بھی مستحکم نہ ہوئی تو وزیراعظم نے پوری معاشی ٹیم ہی تبدیل کر دی اور اقتصادی ماہرین پر مشتمل ٹیم بیرونِ ملک سے منگوا لی‘ اب اگر پھر بھی ڈالر سستا نہ ہو تو اس میں حکومت کاکوئی قصور نہیں ہے۔ امپورٹڈ ماہرین نے بھی صاف صاف بتا دیا کہ پہلے ڈالر سابق حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے مہنگا ہوتا تھا لیکن اب جو اوپر ہی اوپر چلاجا رہا ہے تواس کی وجہ اسحاق ڈار ہیں جنہوں نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کوسستا رکھا یعنی اگر وہ اس وقت ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر ہی رہنے دیتے تو آج ایک ڈالر دو سو روپے کا ہوتا، پھر موجودہ حکومت کو بھی ڈالر سستاکرنے کا موقع مل سکتا تھا لیکن انہوں نے مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر روک کر قوم کے ساتھ تو نیکی کی یا نہیں لیکن موجودہ حکومت کے خلاف سازش ضرور کی۔
ملک میں گندم کی وافر مقدار ہونے کے باوجود آٹا مہنگا ہوا تو پھر وزیراعظم صاحب نے نوٹس لیا‘ جس پر پولیس نے ہول سیل ڈیلروں کے گوداموں پر چھاپے مار کر ذخیرہ شدہ آٹا قبضے میں بھی لیا، اب یہی کچھ ہو سکتا تھا کیونکہ مل مالکان کے خلاف اگر کارروائی کی جاتی تو سرمایہ کار مایوس ہو سکتے تھے اور اس طرح ملک میں ہونے والی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری رک سکتی تھی، اب اگر پولیس کے چھاپوں سے تنگ آکر ڈیلروں نے آٹا منگوانا روک دیا اور مزید بحران پیدا ہو گیا تو اس میں بھی حکومت کا توکوئی قصور نہیں، حکومت نے نوٹس لیا ہوا تھا‘ اب قصور تو آٹا ڈیلروں کا ہے جنہوں نے پولیس اور محکمہ خوراک سے تنگ آکر سٹاک ختم کر دیا۔
چینی کی قیمت بڑھی تو حکومت نے چینی سستی کرنے کے لئے سبسڈی دی، سبسڈی لینے کے باوجود اگر چینی برآمد کر دی گئی تو اس کی ذمہ دار بھی حکومت نہیں کہ حکومت تو سبسڈی دے چکی تھی‘ پھر برآمد بھی ایکسپورٹرز نے کی، اس کے بعد اگر چینی کا بحران پیدا ہوا اور باہر سے چینی منگوانا پڑی جس سے قیمت میں مزید اضافہ ہوا تو پھر وزیراعظم عمران خان صاحب نے نوٹس لیا، اس کی تحقیقات بھی کروائیں، کمیشن بھی بنایا اور پھر سب سے بڑھ کر انکوائری رپورٹ عوام کے سامنے پیش بھی کر دی۔ اب بھلا اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ ماضی میں تو کسی حکومت نے ایسی رپورٹ شائع نہیں کی، اب حکومت نے نوٹس بھی لیا، رپورٹ بھی شائع کی‘ اس کے باجود گزشتہ تین ہفتوں سے چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو اس میں سرکار کیا کرے؟ ساری شوگر ملز پی ٹی آئی والوں کی تو نہیں ہیں، شوگر مل مالکان میں مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، قاف لیگ اور دیگر جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اوراگر حکومت پی ٹی آئی اور قاف لیگ والوں کے خلاف ایکشن لیتی ہے تو پھر نون لیگ اور پی پی پی کے خلاف بھی مجبوراً کارروائی کرنا پڑے گی اور پھر سب کہیں گے کہ اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ اپوزیشن کی وجہ سے ہی شوگرمافیا کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی‘ تو پھر حکومت بالکل یہ کہہ سکتی ہے کہ حالیہ دنوں میں چینی کے نرخوں میں مسلسل اضافے کی ذمہ داری بھی سابق حکومتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
عوام گواہ ہیں کہ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں صفر ہونے پر ہماری حکومت نے بھی تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی، لیکن اس کے باجود پٹرول کا بحران پیدا کر دیاگیا اور نجی مارکیٹنگ کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کر لی تو پھر ہمارے وزیراعظم صاحب نے نوٹس لیا، اب یہ آئل کمپنیاں کسی محلے کے آٹا ڈیلر کی طرح تھوڑی ہیں کہ پولیس چند سو بوریاں ذخیرہ اندوزی پرکارروائی کرتی اور ضبط کر لیتی، اب حکومت ان نجی کمپنیوں سے پٹرول ضبط کرکے کہاں لے جاتی؟ اس لئے ان کمپنیوں کو کروڑوں روپے جرمانہ کیا گیا، پھر بھی پٹرول کی قلت ختم نہ ہوئی تو ہماری حکومت نے پٹرول دوبارہ مہنگاکر دیا۔ حکومت کی یہ حکمت عملی بہت کامیاب رہی جس سے تمام ذخیرہ اندوز کمپنیاں تیل سپلائی کرنے پر مجبور ہو گئیں، اب اگر چند کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنے کے بعد ان ذخیرہ اندوز آئل کمپنیوں کو اربوں روپے کا منافع ہوا ہے تو اس میں کون سی برائی ہے؟ اگر کسی کو اعتراض ہے تووہ بھی آئل کمپنی خرید لے تاکہ ایسے مواقع سے آئندہ فائدہ اٹھا سکے لیکن اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈالنا بالکل اچھی بات نہیں۔
ملک میں پٹرول چالیس روپے تک سستا ہوا تو ٹرانسپورٹروں نے کرائے کم نہیں کئے‘ اب یہ قصور ٹرانسپورٹ مالکان کا ہے‘ اس کی ذمہ داری حکومت پر تو نہیں ڈالی جا سکتی، حکومت تو بار بار کہتی رہی کہ کرائے کم کئے جائیں، ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے کرائے ناموں میں چند پیسے کمی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا لیکن ٹرانسپورٹروں نے کورونا ایس او پیز کا بہانہ بنا کرکرایہ کم نہ کیا تو یہ ان کی غلطی ہے۔ ٹرانسپورٹ اتھارٹی تو روزانہ کئی درجن گاڑیوں کے چالان بھی کرتی تھی اوراس کی خبر و تصویر بھی جاری کی جاتی تھی، اب سرکاری اہلکاروں کو شام پانچ بجے چھٹی ہو جاتی ہے اورکوئی ٹرانسپورٹر اس ڈیوٹی ٹائم سے آگے پیچھے گاڑی چلاتا ہے تو اس میں انتظامیہ کا کیا قصور ہے؟ اب دوبارہ پٹرول مہنگا ہوا تو ٹرانسپورٹروں نے فوری طور پر کرائے بڑھا دیے اور اضافے پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا‘ اب چونکہ پٹرول مہنگا ہوا تھا تو ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو بھی کرائے بڑھانے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا تھا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر ٹرانسپورٹروں نے احتجاج کرنا تھا اور ہڑتال بھی ہو سکتی تھی‘ جس سے عوام پریشان ہوتے لہٰذا ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے عوام کو پریشانی سے بچانے کیلئے فوری طور پر کرائے بڑھا دیے، اس لئے کرائے بڑھنے میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ اگر کوئی بات پاکستان ریلوے کی کرے کہ ریلوے نے بھی پٹرول سستا ہونے کے باوجود کرائے کم نہیں کئے تھے تو اس بارے حکومت وضاحت دے چکی ہے کہ کورونا ایس او پیز کے تحت صرف پچاس فیصد سیٹیں بک کی جاتی ہیں اور آدھی ٹرین خالی ہوتی ہے‘ اس لئے کرائے کم کرنا ممکن نہیں، ریلوے پہلے ہی خسارے میں ہے اورکورونا وبا کے دوران ٹرینوں کی بندش سے محکمے کو بھاری نقصان ہو چکا لہٰذا سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانا تو عوام ہی کاخسارہ ہے‘ اس لئے سرکار نے عوام کی بھلائی کیلئے اس دوران بھی کرائے برقرار رکھے تھے۔
صرف آٹا، چینی اور پٹرولیم مصنوعات کی بات نہیں بلکہ وزیراعظم صاحب ہر عوامی مسئلے کا نوٹس لیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی ایمانداری پر بھی کوئی شک نہیں کر سکتا، ان کا اپنا کوئی کاروبار بھی نہیں جس کو فائدہ پہنچ سکتا ہو، انہوں نے بائیس برس تک بدعنوانی اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کی اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں عوام نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے میگا کرپشن روکنے کیلئے میگا پروجیکٹس ہی کم کر دیے ہیں تاکہ نہ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے بنیں اور نہ ہی کوئی کرپشن کر سکے۔ اب اس سے زیادہ وہ کیا کریں؟ ماضی میں حکمران اپنوں کو نوازنے کیلئے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے، نہ رہے گا بانس اور نہ بجے کی بانسری، یعنی کوئی میگا پروجیکٹ ہی نہیں ہوگا تو پھر کوئی اربوں روپے کی کرپشن کیسے کر سکے گا؟
بات وزیراعظم عمران خان صاحب کے نوٹس لینے کی ہو رہی تھی تو وہ ہمیشہ عوامی مفاد میں نوٹس لیتے ہیں، فوری طور پر ٹویٹ بھی کرتے ہیں اور اس ایشو کی رپورٹ بھی طلب کرتے ہیں، سربراہِ مملکت اتنا ہی کر سکتاہے کیونکہ اس نے پوری سلطنت کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے، اب اگر صرف چینی کی قیمت کو لے کر بیٹھ جائیں تو پھر باقی ملک کیسے چلے گا؟ اب یہ صوبائی حکومتوں، مقامی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کاکام ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں پرائس کنٹرول پر توجہ دیں اور دیکھیں کہ شوگرمافیا کے خلاف اتنا رونا رونے کے باوجود چینی کی قیمت مسلسل کیوں بڑھ رہی ہے اور وزیراعظم کے نوٹس پر عمل کیا جائے تاکہ تبدیلی کے حقیقی فوائد عوام تک پہنچ سکیں۔