چین‘ ہمارا قریبی ہمسایہ اور عرصۂ دراز سے تزویراتی حلیف‘ تیزی کے ساتھ عالمی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ چالیس سال قبل کہاں فاقے‘ جمود‘ غربت اور پس ماندگی اور کہاں آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت۔ یہی چین کی کہانی ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ دس سال کے عرصہ میں یہی رفتارِ افزودگی برقرار رہی تو چین امریکی معیشت کو بھی پیچھے دھکیل سکتا ہے‘ دنیا کی نمبر ون اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔ یہ حتمی بات نہیں‘ کچھ ماہرین کا اندازہ ہے؛ تاہم جو آثار نظر آ رہے ہیں‘ اسی کی تائید کرتے ہیں۔ جاپان‘ جرمنی‘ برطانیہ اور فرانس‘ کل کی بڑی طاقتیں اپنے طور پر مضبوط‘ خوشحال اور جدید صنعتی معاشرے ہیں‘ لیکن ان کا چین کے ساتھ اب موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انقلابِ چین سے پہلے‘ خصوصاً استعماریت کے زمانے میں تو ہمارے چینیوں پر مغرب کی طاقتیں چڑھ دوڑتی تھیں۔ برطانیہ کی بر صغیر پر حکومت تھی تو اس نے چین کے ساتھ افیون بیچنے کے مسئلے پر جنگیں کیں۔ چین کمزور ضرور تھا‘ مگر اپنی آبادی کو افیونی بنانے کے لئے تیار نہ تھا۔ برطانیہ نے ایک نہیں‘ کئی جنگیں لڑیں اور چین پر ایسے معاہدے مسلط کئے جس کے تحت برطانیہ کا برآمد کردہ افیون اس کی منڈیوں میں کھلے عام فروخت کرنے کی اجازت ہو۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران پھر انقلاب در انقلاب آئے اور چین عالمی وقار‘ اندرونی یک جہتی‘ جدید صنعتی معیشت اور علاقے میں فوجی قوت فقط چار دہائیوں میں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
پاکستان میں ایوب خان کی حکومت نے بلاشبہ ملک کے لئے کئی اچھے کام کئے۔ ان میں سے ایک چین کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا بھی تھا۔ ایوب کے زمانے میں ہم امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے اتحادی تھے اور یہ اتحاد بنیادی طور پر اشتراکی ممالک کے خلاف تھا۔ ہم اوائل ہی میں چین کو باور کرا چکے تھے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے فوجی معاہدوں کا مقصد بھارت کے خلاف توازن پیدا کرنا ہے‘ ہمیں فوجی ساز و سامان اور اقتصادی امداد کی ضرورت ہے اور یہ کہ اگر امریکہ نے چین کے خلاف جنگ کی تو ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس بات کی یقین دہانی اس وقت کے ہمارے وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ نے چین کے وزیر خارجہ چو این لائی کے ساتھ بنڈونگ کانفرنس میں ہونے والی ملاقات کے موقع پر کرائی تھی۔ 1962 میں جب چین اور بھارت کی سرحدی لڑائی ہوئی تو ہم امریکہ کے اصرار پر خاموش رہے۔ اس کی جانب سے وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ اس موقع پر اگر ہم بھارت کے لئے کشمیر میں مشکلات پیدا نہ کریں‘ تو جنگ کے بعد اس تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانے میں امریکہ بھرپور مدد کرے گا۔ اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل کے ساتھ بات کریں گے‘ لیکن سب دیکھ ہی رہے ہیں کہ امریکہ نے اپنا یہ وعدہ کتنا پورا کیا۔ ہم نے چین کے ساتھ سرحدیں دوبارہ متعین کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کی تو چین ایک قدم نہیں بلکہ کئی قدم ہماری طرف بڑھا۔ دونوں کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہمارا فیصلہ جرأت مندانہ تھا اور ہماری قیادت نے اس حوالے سے امریکی دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ اس وقت بھی چین کو تنہا اور بند رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھا‘ لیکن چین کے خلاف قائم حصار توڑنے میں ہم ایک قدم اور آگے بڑھے اور ہوائی معاہدہ کیا۔ اس کی رو سے پاکستان ایئر لائن غیر اشتراکی ممالک میں سے پہلی تھی جس نے چین تک پروازیں شروع کیں۔ ستر کی دہائی سے پہلے اور اس کے بعد بھی چینی سفارت کار اور دیگر سرکاری نمائندے غیر ملکی دوروں کے لئے پاکستانی راہ داری استعمال کرتے تھے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات 1965 کی جنگ کے بعد مزید بڑھے اور مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔ امریکہ اور مغربی حلیفوں نے فوجی ساز و سامان کی فروخت پر پابندی لگائی تو چین مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ یہاں کئی دور آئے اور کئی گئے اور چین میں بھی اس عرصے میں نمایاں سیاسی اور اقتصادی تبدیلیاں ہوتی رہیں‘ لیکن پاکستان اور چین کے تعلقات کے بنیادی ڈھانچے یا علاقہ کی سطح پر تزویراتی ہم آہنگی پر کوئی فرق نہ پڑا۔ دفاعی پیداوار کے ہر روایتی اور غیر روایتی شعبے میں اشتراک بڑھتا ہی گیا۔ آج پاکستان انتہائی اہم دفاعی شعبوں میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ چین کے ساتھ ہماری دوستی کا عکس ہر جگہ نظر آتا ہے۔ چین نے دفاعی اور جوہری استعداد میں نمایاں ترقی کی تو اس کے مثبت اثرات یہاں پاکستان میں بھی واضح طور پر نظر آنے لگے۔ 1974 میں ایٹمی دھماکے تو بھارت نے کئے‘ لیکن پابندیاں ہم پر بھی لگنا شروع ہو گئیں۔ فرانس کے ساتھ جوہری سہولتوں کا جامع معاہدہ طے پا گیا تھا‘ لیکن وہ (فرانس) امریکہ کے زیرِ اثر منحرف ہو گیا۔ آخر چین نے اس موقع پر ہمارا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور ایک نہیں چار ایٹمی ری ایکٹر چشمہ کے مقام پر لگائے جو ہزاروں میگاواٹ صاف اور سستی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ چین کے تعاون سے بجلی پیدا کرنے والے کچھ مزید یونٹ زیرِ تعمیر ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہ داری کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ یقین جانئے اس خطے کی تقدیر بدل جانے کے امکانات پیدا نہیں ہوئے‘ نمایاں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ صرف دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ‘ جغرافیہ اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک بنیادی عنصر چین کا عالمی قوت کے طور پر ابھرنا بھی ہے۔ اگرچہ چین کی سرمایہ کاری یورپ‘ امریکہ‘ لاطینی امریکہ کے ممالک اور بر اعظم افریقہ تک کا احاطہ کئے ہوئے ہے‘ لیکن اس کے اقتصادی اثر و رسوخ اور پھیلائو کا ایک مقصد مرکزی اور مغربی ایشیا اور پاکستان کو ''سلک روڈ‘‘ سے منسلک کرنا ہے۔ چھ سو ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری کی کئی منزلیں طے ہو چکی ہیں یعنی اس حوالے سے متعدد منصوبے تکمیل پذیر ہیں۔ اس خطے میں بشمول پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں‘ جہاں انرجی‘ انفراسٹرکچر‘ بندرگاہوں اور پائپ لائنوں پر کام نہ ہو رہا ہو۔ پتا نہیں ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ''کچھ بھی تو نہیں ہوا‘‘ کا مکالمہ کیوں جاری رکھتے ہیں۔ ایسے مکالموں کا مقصد خود اعتمادی اور کچھ کرنے کی صلاحیت کو زائل کرنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
مرکزی ایشیا میں چین کے منصوبوں کا ذکر کسی اور وقت مگر اس موقع پر ایران اور چین کی بڑھتی ہوئی دوستی کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ایران پر امریکہ اور اس کے حلیفوں نے زندگی تنگ کر رکھی ہے۔ پابندیاں ہی پابندیاں ہیں‘ جو عرصے سے جاری ہیں۔ کچھ نئی پابندیاں بھی لگتی رہتی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مغرب کا کوئی ملک امریکی پابندیوں کے خطرے کے پیشِ نظر ایران میں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہے۔ دہائیاں گزر چکی ہیں‘ امریکہ تا حال ایران کو اندر سے مفلوج‘ کمزور‘ تباہ کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ ایران نے مغرب کا بہت دیر انتظار کیا کہ شاید وہ امریکہ کے سائے سے نکل کر اس کے ساتھ معمول کا لین دین شروع کرے‘ لیکن اس کا یہ انتظار ختم نہ ہو سکا۔ مغربی ممالک نے ایران پر توجہ نہیں دی۔ چین کے ساتھ حالیہ معاہدے‘ جس کے نتیجے میں چین چار سو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا‘ کے بعد ایران کی سلامتی اور اقتصادی ترقی کا رخ اب پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ تینوں ممالک میں جغرافیائی حقیقت پسندی نے جگہ بنا ڈالی ہے اور اب آگے بڑھنے کے امکانات روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔
چین کا سایہ تسلسل کے ساتھ بڑھ اور پھیل رہا ہے‘ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی قسم کی سرد جنگ کا اعادہ ہو چکا ہے‘ اور ہم یا ایران امریکہ یا مغربی ممالک کے ساتھ روابط‘ تجارت اور سرمایہ کاری میں دلچسپی کم کر دیں گے۔ یہ عالمی تناظر کو پیشِ نظر رکھ کر چلنے اور آگے بڑھنے کا دور ہے‘ لیکن اس کے فوائد علاقائی ممالک کے ساتھ ہر شعبے میں جڑنے میں کہیں زیادہ ہے۔