2015 میں جنرل ناصر جنجوعہ کور کمانڈر کوئٹہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو نواز شریف حکومت نے انہیں اپنا مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کرلیا۔ دنیا بھرمیں مشیر برائے قومی سلامتی کا عہدہ زیادہ پرانا نہیں۔ پاکستان میں تو اس عہدے کی حدود کا سرے سے تعین ہی نہیں ہوا، اس لیے کوئی حکومت چاہے تو اس عہدے پر کسی کو مقرر کرے یا خالی چھوڑ دے۔ کہنے کو یہ عہدہ ہمارے ہاں 1969 سے چلا آتا ہے لیکن یہ خالصتاً سیاسی قیادت کا فیصلہ ہوتا ہے کہ اس پرکسی کو لگانا ہے یا نہیں۔ جب جنرل صاحب اس عہدے پر آئے تو اس ابہام کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان سے ملنے چلا گیا کہ پوچھا جائے‘ فوج، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کے ہوتے ہوئے وہ قومی سلامتی میں کیا کردار ادا کریں گے؟ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ آج کی دنیا میں سلامتی صرف کسی غیرملکی حملے سے ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ انتہاپسندی، خوراک کی کمی، معیشت اور وبائیں بھی ملکی سلامتی کوخطرے میں ڈال سکتی ہیں ''میرا کام یہ ہے کہ ان خطرات کا بروقت سراغ لگاکر حکومت کوآگاہ کروں‘‘، انہوں نے بات ختم کی تو میں نے ہنستے ہوئے پوچھا، ''کسی درجے میں تو سیاستدان اور ان کے فیصلے بھی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں؟‘‘ یہ سوال جنرل ناصر جنجوعہ کو صحافیانہ شرارت لگا جس پروہ ہنس پڑے تھے‘ پھر ذرا سنجیدہ ہوکر بولے، ''ہاں، سیاسی فیصلے اور سیاسی تحریکیں بھی ایک وقت میں ریاست کی سلامتی کا سوال بن جاتی ہیں، اس لیے ان کا جائزہ لیتے رہنا بہت ضروری ہوتا ہے اور اگران میں کوئی خطرہ پوشیدہ ہوتو اس کا اندازہ لگانا بھی میرا کام ہے‘‘۔ انہوں نے سابق فاٹا اور کراچی کی مثالیں دے کر سمجھایا کہ کس طرح سیاسی مفادات دہشت گردی کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔
وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قومی سلامتی کے مشیرکو دفتر کے لیے جو کمرہ ملا تھا‘ وہ عمارت کے ایک انتہائی کونے میں تھا۔ اس کمرے کی کھڑکی سے شاہراہ دستور کا خوبصورت منظر دکھائی دیتا تھا۔ اس کمرے کی صرف یہ خرابی تھی کہ اس کے مکین کو وزیراعظم تک پہنچنے کے لیے کئی راہداریوں اور غلام گردشوں سے ہوکر جانا پڑتا‘ اور آپ جانتے ہیں کہ ایوانوں کی راہداریوں اور غلام گردشوں میں سازشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بھارت میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی کو جو کمرہ دیا گیا ہے اس کا ایک دروازہ وزیراعظم کے دفتر میں کھلتا ہے۔ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی کو اگر وزیراعظم نواز شریف تک اسی طرح کی رسائی ہوتی تو شاید حالات کچھ مختلف ہوتے۔ انہیں کوئی تو یہ بتا سکتا کہ نئے زمانے میں قومی سلامتی کے تقاضے سیاست اور سیاسی فیصلوں سے الگ نہیں رکھے جا سکتے۔
کسی بھی وزیراعظم کا اہم ترین سیاسی فیصلہ اپنی کابینہ اور ٹیم کی تشکیل ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اتنا اہم ہے کہ دستور وزیراعظم کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں انہی لوگوں کو شامل کرے جو پارلیمنٹ کے رکن ہوں۔ اگر پارلیمنٹ سے باہر کے لوگوں کو وہ اپنے لیے ضروری سمجھتا ہے تو انہیں بطور مشیر اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے‘ لیکن ان کی تعداد پانچ سے بڑھ نہیں سکتی۔ معاونین خصوصی کا ذکر دستور میں نہیں ملتا‘ لیکن کھینچ تان کو شاید کوئی رعایت وزیراعظم کو مل جائے؛ تاہم کاروبارِ حکومت کا منتخب لوگوں کے ہاتھ میں رہنا ہی دستور کی منشا ہے۔ جب وزیراعظم حکومت چلانے کے لیے اپنے وزیر، مشیر اور معاون مقرر کرتا ہے تو یہ ذمہ داری بھی اسی کی بنتی ہے کہ یہ لوگ نہ صرف اہلیت رکھتے ہو بلکہ ملک سے ان کی وفاداری مسلّم ہو۔ ملکی سلامتی سے متعلق کوئی راز ان کے علم میں آئے تو وہ اس کی حفاظت کرسکیں۔ فوج کے ایک سپاہی کی طرح ان کی زندگی موت کا انحصار صرف پاکستان پر ہو۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں وزیراعظم کا اپنی ٹیم بنانے کا خالصتاً سیاسی فیصلہ قومی سلامتی کے سوال سے جڑ جاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ملکی انتظامیہ میں پندرہ معاونین خصوصی کو شامل کرکے ایک نیا تجربہ کیا تھا۔ وزیراعظم سے ان غیر منتخب معاونین کی بڑھتی ہوئی قربت کا عالم یہ تھاکہ ایک موقع پر فواد چودھری اور شیریں مزاری کو احتجاج کرکے وزیراعظم کی توجہ حاصل کرنا پڑی۔ یہ معاملہ یوں تھاکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں معاونینِ خصوص تو بنفس نفیس وزیر اعظم کے دائیں بائیں براجمان ہوتے جبکہ پارلیمنٹ سے تعلق رکھنے والے وزراء کو انٹرنیٹ کے ذریعے اجلاس میں شمولیت کا سندیسہ بھیج دیا جاتا۔ اس امتیاز سے یہ پیغام گیا کہ وزیراعظم کو اپنے سیاسی ساتھیوں کی نسبت ان معاونین پر زیادہ بھروسہ ہے‘ جنہوں نے ایک ووٹ بھی نہیں لیا۔ معاونین کے بارے میں معلومات کی پٹاری کھلی تو پتا چلا کہ ان میں ایسے خواتین و حضرات بھی ہیں جو پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں کی شہریت بھی رکھتے ہیں‘ یعنی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں قرار دیے گئے ایک اصول کے مطابق ان کی دہری شہریت دراصل ان کی منقسم وفاداری کا ثبوت ہے۔ یہ لوگ کس لمحے پاکستان کے دستور کے پابند ہوں اور کس وقت کسی دوسرے ملک کے مفادات کے تابع ہوکر فیصلے کرنے لگیں، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
یہ بالکل بے محل بحث ہے کہ دہری شہریت رکھنے والے پاکستان کے لیے زرمبادلہ کماتے ہیں اورملک کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔ بے شک دہری شہریت رکھنے والے پاکستانی بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں لیکن دوسری شہریت لے کر وہ یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ پاکستان ان کی دو برابر ترجیحات میں سے ایک ترجیح ہے، واحد ترجیح نہیں۔ مثال کے طور پر عرض ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک کروڑ سے زائد بھارتی بھی اپنے ملک سے محبت رکھتے ہیں، وہ پاکستانیوں سے کہیں زیادہ زرمبادلہ اپنے ملک بھی بھیجتے ہیں‘ لیکن جیسے ہی کوئی بھارتی شہریت چھوڑتا ہے، قانون اسے غیرسکونتی بھارتی قرار دے کر ملک سے وفاداری کا بوجھ ہٹا دیتا ہے اور قومی سلامتی کے معاملات میں اسے شامل بھی نہیں کرتا۔ ویسے بھی قانون کا تقاضا ہے کہ جو چیز آپ سیدھے راستے سے حاصل نہیں کرسکتے، اسے کسی دوسرے طریقے سے بھی نہیں لے سکتے۔ اس کا مطلب یہ کہ پاکستان کے دستورکے آرٹیکل اکانوے کے مطابق وزیراعظم کی بنائی ہوئی کابینہ میں بیٹھنے کیلئے وزیر یا وزیر مملکت ہونا لازمی ہے جو پارلیمان کا رکن بنے بغیر ممکن نہیں۔ دہری شہریت رکھنے والا ظاہر ہے پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہوسکتا لیکن معاونِ خصوصی کے چور دروازے سے کابینہ میں گھس جائے تویہ قانون شکنی کی نہایت بھدی مثال ہے۔ اس کے بعد یہ کون ضمانت دے گاکہ ندیم بابر جو پاکستان کے وزیراعظم کو تیل و گیس پر مشورے د ے رہے ہیں، کس لمحے اپنی وفاداری بدل کرکسی دوسرے ملک کے مفادات سامنے رکھ لیں؟ پاکستان کوآئی ٹی میں ترقی کرنی ہے لیکن آج کے اس حساس ترین شعبے کی مکمل ذمہ داری ایک ایسی شخصیت کے سپرد کیسے کی جاسکتی ہے جو نجانے کب اپنے دوسرے پاسپورٹ کے تقاضے نبھانے لگے؟ زلفی بخاری آج بیرونِ ملک پاکستان کے محافظ بنے بیٹھے ہیں کل کو وہ پاکستان میں برطانیہ کے نمائندے بن کر کام کرنے لگیں تو انہیں کون روک سکے گا؟ اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو لیکن یہ بھی تو بتائیے کہ کسی دن کوئی عدالت ان کو طلب کرلے اور وہ اپنے پاسپورٹ کی بنیاد پر کسی دوسرے ملک کے سفارتخانے سے مدد مانگ لیں تو اس بین الاقوامی مذاق کی ذمہ داری کون لے گا؟ عمران خان شاید بھول رہے ہیں کہ وہ ملک کی اعلیٰ ترین انتظامی شخصیت بھی ہیں۔ ان کے اردگرد دو دو پاسپورٹ رکھنے والوں کی صرف موجودگی ہی کافی بڑا خطرہ ہے چہ جائیکہ یہ لوگ کابینہ میں بیٹھے ہوں۔ وزیراعظم نے اپنے معاونین خصوصی کے بارے میں تفصیلات عوام کے سامنے رکھ کر بڑا کام کیا ہے، لیکن یہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اس بڑے کام کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ دہری شہریت والے وزیراعظم کے دفتر سے نکل جائیں۔ اسی میں ان کی عزت ہے، وزیراعظم کی عزت ہے اور پاکستان کی بھی عزت ہے۔