4مئی 1985ء کے واشنگٹن پوسٹ میں امریکہ کے انڈر سیکریٹری ڈیفنس ریڈ اکلے کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ''امریکہ بھارت کو فوجی ہتھیار تیار کرنے کی اس قدر ٹیکنالوجی فراہم کر دے جس سے وہ اس حد تک طاقتور فوجی قوت بن کر ابھرے کہ اس صدی کے آخر تک عالمی استحکام کے سلسلے میں بڑے سے بڑا کردار ادا کرنے کے قابل بن سکے‘‘۔ انڈر سیکریٹری ڈیفنس ریڈ اکلے کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور اس کے تمام اتحادی بھارت کو برّی، بحری اور فضائی قوت بنانے کے ساتھ اسے ایٹمی طور پر بھی مسلح کر دیں تو اس طرح بھارت ایک ایسی طاقت بن سکتا ہے جو عالمی استحکام کیلئے ''امریکہ کی منشا‘‘ کے مطا بق کردار ادا کرنے کے علاوہ 1995ء سے 2005ء کے دوران امریکی خواہشات کے مطابق اس کے وضع کردہ نیشنل سکیورٹی مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دے گا۔ (یاد رکھئے کہ بھارت نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے کئے تھے) جب امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کی طرف سے بھارت کو دنیا کی چند بڑی فوجی طاقتوں کے کلب میں شامل کرنے کی باتیں شروع ہو جائیں تو پھر خود ہی سوچئے کہ بندر کے ہاتھ میں ماچس دینے کے بعد تنازع کشمیر پر بھارت کو کون مذاکرات کی میز پر لا سکتا تھا؟ کشمیری مسلمانوں پر ظلم و جبر کے قہر ڈھانے سے ہندوتوا کو کون روک سکتا تھا؟ وہ تو اﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اچانک نائن الیون کا واقعہ پیش آ گیا جس سے امریکہ کو لینے کے دینے پڑ گئے اور پھر یہ افغانستان اور پھر عراق میں آج یعنی 2020ء تک ایسا پھنسا کہ اس کی بھارت کو ایشیا کا بادشاہ اور چین کے مقابلے میں ایک عفریت بنانے کی خواہشات اندر ہی دبی رہ گئیں۔
1985ء میں امریکہ جب بھارت کو دیوہیکل فوجی اور معاشی قوت بنانے کے منصوبے تیار کر رہا تھا تو یہ وہ دو رتھا جب پاکستان پر محمد خان جونیجو کی جمہوریت پسند حکومت تھی‘ جس نے سنیئر فوجی افسران سے تمام بڑی بڑی گاڑیاں اور جیپیں واپس لے کر ان سب کو ایسی گاڑیوں میں بٹھا دیا تھا جو کچے پکے راستوں اور معمولی سے سپیڈ بریکروں کے سامنے بے بس ہو کر بیٹھ جاتی تھیں۔ وہ جمہوریت پسند وزیراعظم جس نے ضیاء الحق کی مرضی کے خلاف افغانستان کے مستقبل کے بارے میں جنیوا میں امریکہ سے اس کی مرضی کے مطا بق معاہدہ پر وزیر خارجہ زین نورانی کو مجبو رکر کے دستخط کروائے اور یوں افغان جہاد میں دی جانے والی پاکستانیوں اور افغانوں کی دس سالہ قربانیاں ضائع ہو گئیں۔ کشمیر کے مستقبل سے متعلق کسی بھی فیصلے کیلئے امریکی حکومتوں کی پالیسیاں ہمیشہ اس وقت پاکستان میں برسر اقتدار سیا سی و عسکری قیا دت کے ارادوں، مصلحتوں، ایجنڈوں اور سوچ کے تابع رہی ہیں اور اس کیلئے پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ جنرل ایوب خان سے جنرل ضیاء‘ پھر بے نظیر بھٹو سے میاں نواز شریف‘ پھر جنرل پرویز مشرف سے آصف علی زرداری تک‘ امریکی حکومتوں کا کشمیر اور بھارت کے حوالے سے رویہ کوئی بھولی بسری داستان نہیں بلکہ اس کا ایک ایک ورق ہم سب کے سامنے کھلا پڑا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے سکیورٹی کونسل اور دنیا کے ہر فورم پر پیش کئے جانے والے تمام بڑی طاقتوں کے تاثرات اور خیالات سفارتی مشنوں اور میڈیا کے ریکارڈ میں دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں جب جنرل پرویز مشرف حکمران تھے تو برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا دورہ پاکستان پر آئے اور انہوں نے 26 مارچ 2004ء کو پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سینٹر میں پاک برطانیہ تعلقات پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947ء سے چلا آ رہا تنازع کشمیر اگر حل کر لیا جائے تو اس سے اس خطے میں اسلام اور مغرب کے درمیان پیدا ہونے والی تمام غلط فہمیوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا‘‘۔
پھر ایک ایسا وقت آیا جب لاہور کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں کھڑے ہو کر تین مرتبہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے والی پاکستان کی قیادت‘ بھارتی ایجنسیوں اور ان کی حکومت کے منتخب کردہ دانشوروں اور میڈیا کے سینئر لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر بھاشن دیتی ہے کہ ''ہم ایک ہی ہیں‘ ہم اور آپ ایک ہی رب؍ بھگوان کو پوجتے ہیں۔ واہگہ سے چل کر جس رستے سے آپ لوگ یہاں تک آئے ہیں وہ فقط ایک لکیر ہے‘‘ تو سوچئے اس قسم کی حکومتوں میں کیسا کشمیر اورکیسی جنرل اسمبلی کی قراردادیں اور کہاں بھارتی گولیوں سے چھلنی ہونے والے مظلوم کشمیری؟ ان کے بعد پھر وہ لوگ آگئے جنہوں نے دورہ امریکہ سے پہلے‘ رات گئے ایک خصوصی حکم کے ذریعے پاکستان کے ایک انتہائی حساس ادارے کو وزارت داخلہ کے سیکشن آفیسروں کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تاکہ واشنگٹن اترنے سے پہلے ہم اپنے میزبانوں کو بتا سکیں کہ ''حضور دیکھ لیں! ان کے پَر کاٹ کر آپ کے پاس آئے ہیں‘‘۔ تو ان کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں کشمیر پر ان کی کیا تقریریں اور کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے کیسی تحریکیں؟
اسی طرح آج امریکی صدر ٹرمپ اگر ہیوسٹن اور گجرات میں مودی کے ہی ترتیب دیے گئے جلسوں میں دنیا بھر کو مخاطب کرتے ہوئے کشمیر پر پاکستان ا ور بھارت میں ثالثی کی بار بار پیشکشیں کر رہے ہیں تو وائٹ ہائوس میں ملاقات کرنے والے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کشمیر کیلئے اپنی حکومت کی پالیسی اور کشمیریوں کیلئے اپنا دل کھول کر بتا چکے تھے کہ کشمیر پر کسی قسم کی مصلحت یا اس سے گریز کی ان سے امید نہ رکھی جائے اور جب وائٹ ہائوس کی اس ملاقات میں ٹرمپ نے میڈیا کے سولات کے جواب میں کشمیر پر بھارت ا ور پاکستان میں ثالثی کی پیشکش کی تو بھارت ٹرمپ کی اس پیشکش پر منہ بناتے ہوئے کہنے لگا کہ ''یہ ہمارا دو طرفہ معاملہ ہے‘ کسی تیسرے کی مداخلت ہمیں قبول نہیں‘‘ اور پھر جب اسی بھارت اور مودی کی دم پر چین نے لداخ میں پائوں رکھا تو اپنے وزیر دفاع راج ناتھ کو روس بھیج کر اس کے پائوں میں گر کر‘ گڑگڑاتے ہوئے بھیک مانگنا شروع کر دی کہ ''ہمیں چین سے بچائو‘ ہماری اس سے صلح کرائو‘‘۔
صدر بش کے آخری دور میں جیسے ہی جنرل مشرف نے کشمیر پر چناب فارمولے کی بات شروع کی تو ساتھ ہی بش اور اس کے بعد براک اوبامہ انتظامیہ بھارت کو چین کے خلاف کیل کانٹوں سے لیس کرنے کا عمل شروع کر دیتی ہے اور 28 جون 2005ء کو واشنگٹن میں اس معاہدے پر دستخط کر دیے جاتے ہیں‘ جسے انڈر سیکریٹری ڈیفنس ریڈ اکلے‘ امریکی تھنک ٹینک اور کارنیگی انڈوومنٹ کی ان تجاویز کو سامنے رکھ کر تیار کیا جاتا ہے:
٭...چین کے غلبے کو روکنے کے لئے بھارت کی فوجی اور اقتصادی ترقی کی صلاحیت کو بڑھایا جائے
٭...بھارت اور پاکستان کے درمیان طاقت کے توازن کے پُرفریب تصور کو ختم کیا جائے
٭...اقوام متحدہ، G8 اور انٹرنیشنل ایجنسی میں بھارتی رکنیت کی توثیق کی جائے
(ان شاء اﷲ اگلے کسی آرٹیکل میں مکمل ثبوتوں کے ساتھ بتائوں گا کہ بھارت کے ایٹمی سائنس دان عبدالکلام کو میزائلوں کی معلومات کس ملک نے کس طرح اور کب مہیا کیں)
بش اور اوباما انتظامیہ کے اس عمل نے چین اور بھارت کی صورت میں دو متحارب فریقوں کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو ختم کرنے کے مجوزہ امریکی عمل نے کشمیر کے عادلانہ فیصلے کے تمام امکانات بند کر دیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تنازع کشمیر کے کسی منصفانہ حل کے بارے میں بھارت کی سوچ اور ارادوں کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ملنے والے بے تحاشا اسلحے‘ گولا بارود اور ایٹمی صلاحیت و میزائل ٹیکنالوجی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، بالکل ایسے جیسے''ایک کریلا اور دوسرا نیم چڑھا‘‘۔