تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-07-2020

مرمت شدہ کہانیاں

شیر اور میمنہ
ایک شیر ندی پر پانی پی رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک میمنہ بھی ساتھ ہی پانی پی رہا ہے جس کو دیکھ کر اُس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ پھر اُس نے سوچا کہ کسی جواز کے بغیر اسے کھا جانا میری شان کے خلاف ہے۔ تھوڑی دیر سوچ کر وہ بولا: میرا پانی کیوں گدلا کر رہے ہو؟ جس پر میمنے نے جواب دیا: پانی تو آپ کی طرف سے آ رہا ہے، میں اسے گدلا کیسے کر سکتا ہوں؟ شیر پھر بولا: سُنا ہے پچھلے سال تم نے مجھے گالی دی تھی‘‘ جس پر میمنے نے جواب دیا: میں تو پچھلے سال پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ شیر لاجواب ہو کر بولا: پھر تمہاری ماں نے دی ہو گی۔ اس پر میمنہ بولا: یہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ جتنی موٹی ہے، اتنی ہی بدزبان بھی ہے۔ یہ سن کر شیر کے منہ میں مزید پانی بھر آیا۔ اور بولا : وہ اس وقت کہاں ہے؟ تو میمنہ بولا: وہ پانی پینے کے لیے آتی ہی ہو گی۔ جس پر شیر بولا: جائو اور جلدی سے اسے لے کر آئو! چنانچہ میمنہ چلا گیا اور شیر ابھی تک وہاں کھڑا بھیڑ کا انتظار کر رہا ہے!
بھوکی لومڑی
بھوک سے بیتاب ایک لومڑی کسی کھانے کی چیز کی تلاش میں جنگل میں ماری ماری پھر رہی تھی کیونکہ اس دن اسے ناشتہ بھی میسر نہیں ہوا تھا، اچانک اس نے دیکھا کہ ایک ٹُنڈ مُنڈ درخت پر ایک کّوا بیٹھا ہے جس کی چونچ میں بڑا سا پنیر کا پکڑا ہے جسے دیکھ کر بھوک نے اس کے پیٹ میں ایک اور انگڑائی لی۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ کوّے سے مخاطب ہوئی: پیارے کوّے! تم نے مجھے پہچانا نہیں، تمہاری خالہ ہوں! اور سنا ہے تم گانا بہت اچھا گاتے ہو، سارے جنگل میں تمہاری میٹھی آواز کی دُھوم مچی ہوئی ہے!اس کا خیال تھا کہ جونہی کوا گانا گانے کے لیے چونچ کھولے گا تو پنیر کا ٹکڑا نیچے گر جائے گا لیکن یہ سن کر کوے نے پنیر کا ٹکڑا پنجے میں دبایا اور بولا: خالہ جان! آپ کون سا گانا پسند کریں گے، کوئی فلمی گانا، غزل یا پکا راگ؟
ٹوپیوں کا سوداگر
ایک ٹوپیاں بیچنے والا تیز دھوپ میں کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک بڑا سا پیڑ نظر آیا۔ تھکن اتارنے کے لیے اس نے ٹوپیوں کی گٹھڑی ایک طرف رکھی اور چھائوں میں لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ جاگا تو اس نے دیکھا کہ گٹھڑی کی جگہ اس کا کپڑا پڑا تھا اور ٹوپیاں غائب تھیں۔ اس نے پریشان ہو کر اوپر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ لاتعداد بندر ٹوپیاں پہنے ہوئے شاخوں پر بیٹھے تھے۔ اس نے کہیں سے سن رکھا تھا کہ بندر نقل بہت اتارتے ہیں۔ اس نے یہ سوچتے ہوئے کہ بندر بھی ایسا ہی کریں گے، اپنی ٹوپی اتار کر زمین پر دے ماری تو لپک جھپک ایک بندر پیڑ سے نیچے اترا، وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھی اور یہ کہتے ہوئے پیڑ پر جا چڑھا کہ یہ کہانی ہم نے بھی سن رکھی ہے!
خرگوش اور کچھوا
ایک خرگوش نے کسی کچھوے کو طعنہ دیا کہ تمہاری بھی کوئی چال ہے؟ شرم کرو! کچھوا بولا: اگر تمہیں اپنی چال پر اتنا گھمنڈ ہے تو میرے ساتھ مقابلہ کر لو! خرگوش یہ سن کر ہنس پڑا لیکن کچھوے نے کہا کہ اب ہنس کر بات نہ ٹالو اور مقابلہ کرو۔ چنانچہ دونوں کے درمیان یہ طے ہوا کہ وہ نہر کے پل تک جائیں گے جو و ہاں سے نصف میل کے فاصلے پر ہے۔ چنانچہ دونوں چل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ چھائوں دیکھ کر خرگوش وہاں لیٹ گیا اور اسے اونگھ آ گئی۔ کچھوے کے قریب سے ایک رکشہ گزرا تو اس نے اسے ہاتھ دے کر روکا اور رکشے والے سے پوچھا کہ وہاں کہاں جا رہا ہے تو جواب ملا کہ میں نہر کے پل تک جائوں گا۔ کچھوا بولا کہ مجھے بھی لے چلو، میں نے بھی وہیں جانا ہے۔ چنانچہ خرگوش جب نہر کے پل پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ کچھوا وہاں پہلے ہی موجو د تھا! 
چالاک لومڑی اور بگلا
ایک لُومڑی اور بگلے میں دوستی ہو گئی۔ دونوں ساتھ ساتھ آنے جانے لگے۔ ایک دن لومڑی نے بگلے سے کہا کہ میں سُوپ بہت اچھا بناتی ہوں‘ کبھی آئو تو میں تمہیں نہایت مزیدار سوپ پلائوں۔ چنانچہ طے یہ ہوا کہ اگلی دوپہر کا کھانا دونوں لومڑی کے ہاں کھائیں گے۔ بگلا وقتِ مقررہ پر پہنچا تو لومڑی ایک طشت میں ڈال کر سوپ لے آئی۔ دونوں نے لنچ شروع کیا تو بگلا تو اس میں دو چار چونچیں ہی مار سکا جبکہ لومڑی دیکھتے دیکھتے سارا سوپ چٹ کر گئی۔ بگلا جان گیا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے چنانچہ اس نے بدلہ لینے کی ٹھانی اور دوسرے دن لومڑی کو سوپ کی دعوت دے دی۔ لومڑی جب پہنچی تو بگلے نے ایک صراحی نما، تنگ گلے والے برتن میں ڈال کر لومڑی کے آگے سوپ لا رکھا۔ لومڑی بھی سمجھ گئی چنانچہ اس نے بگلے سے کہا کہ میں نمک ذرا تیز کھاتی ہوں، گھر سے تھوڑا سا نمک تو لے آئو‘ میں بھی مزے سے سوپ پی لوں گی۔ بگلا اندر نمک لینے گیا تو اس دوران لومڑی گلی کی نکڑ پر واقع کولڈ ڈرنک شاپ سے ایک سٹرا لے آئی اور بگلے کے آنے سے پہلے ہی سارا سوپ ختم کر دیا!
اور، اب انجم قریشی کی کتاب ''دوجا پاسا‘‘ میں سے یہ دو نظمیں:
منگ
کوئی نہ اکھ ملا کے بولے سب دے دل وچ چور
مالک دے ہتھ میں دے چھڈی اپنے حق دی ڈور
سینے اندر بھانبڑ بلدے مچدا جاندا شور
نہیں سکھاندا کسے دا سُکھ نہیں کسے وی سکھیا جرنا
ہسدے لئی اور چھبیاں نیں پے جائے اُس نوں مرنا
عشق سمندر ڈونگھے اینیں تارُو بُھل جان ترنا
آپ نوں منگاں آپ توں، مینوں پے گئی اپنی لوڑ
کھچدے مینوں سارے پاسیوں جیہناں نال نہ جوڑ
ٹونا ایسا سِر چڑھیا اے کوئی جیہدا نہیں توڑ
سواد
سنگلا وانگر سوچاں نے
مینوں کسیا ہویا اے
میں ساہ لے سکنی آں
پر میرا دل نہیں دھڑکدا
میں ٹری جانی آں
پر میرے پیر اِکو تھاں ٹِکے نیں
میں ہسنی آں
پر میرے بُلھ نہیں کِھڑدے
میں سونی آں
پر میریاں اکھاں کُھلیاں نیں
میں اک دن وچ
سو واری مر کے
فیر توں جمن دا
سواد لیا اے
آج کا مطلع
فکر کر تعمیر دل کی‘ وہ یہیں آ جائے گا
بن گیا جس دن مکاں‘ خود ہی مکیں آ جائے گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved