تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     23-07-2020

بلند مقام شخصیت

تاریخ انسانیت میں بعض شخصیات ایسی گزری ہیں جنہوں نے اپنی سیرت وکردار اور اچھے اعمال کی وجہ سے گردشِ دوراں پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ گزرتا ہوا وقت بھی ان کی عظمت اور کردار کے نقوش کو دھندلانے سے قاصر رہا۔ انبیاء علیہم السلام کی جماعت تاریخ انسانیت کی سب سے مقدس جماعت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ابلاغ اور شریعت کی روشن تعلیمات کی نشر و اشاعت کے لیے انبیاء علیہم السلام نے جس کردار کو ادا کیا اس کی مثال انسانوںکی کوئی دوسری جماعت پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہے۔ لیکن اس گروہِ انبیاء میں سے بھی بعض ہستیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیر معمولی مقام عطا کیا۔ ان ہستیوں میں سے ایک عظیم الشان ہستی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ آپ اپنے عظیم الشان کردار اور غیر معمولی اعمال کی وجہ سے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہو گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتنا بلند مقام عطا کیا کہ قرآن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ اکیلے ہی کو اُمت قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 120 اور 121میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک ابراہیم ایک اُمت تھا‘ فرمانبردار اللہ کا‘ ایک (اللہ کی) طرف ہو جانے والا اور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے۔ شکر کرنے والا تھا اس کی نعمتوں کا‘ اس نے چن لیا تھا اسے اور اس نے ہدایت دی اسے سیدھے راستے کی طرف‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی کے مختلف ادوار میں آپ کو بہت سی آزمائشوں سے گزارا اور جب آپ ہر آزمائش میں کامیاب و کامران ٹھہرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو جمیع انسانیت کا مقتدیٰ اور قائد بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے اِس مقام کا ذکر سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 124میں یوں فرماتے ہیں: ''اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں سے تو اس نے پورا کر دیا اُن کو‘ فرمایا (اللہ نے ) بے شک میں بنانے والا ہوں تجھے لوگوں کا پیشوا‘‘۔
دنیا و آخرت میں آپ کی سربلندی کے حوالے سے اللہ تبار ک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 130 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور البتہ تحقیق ہم نے چن لیا ہے اُسے دنیا میں اور بے شک وہ آخرت میں یقینا نیکوں میں سے ہو گا‘‘۔ اسی طرح آپ کے مقامِ بلند کے حوالے سے سورہ نحل کی آیت نمبر 122 میں ارشاد ہوا: ''اور ہم نے دی اُسے دنیا میں بھلائی اور بے شک وہ آخرت میں یقینا نیک لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔
آپ کا تعلق ایک ایسی قوم کے ساتھ تھا جو بت پرستی میں مبتلا اور اجرامِ سماویہ کی پوجا کیا کرتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عقیدے کی کمزوری کو ان پر واضح فرما دیا۔ آپ نے اجرام سماویہ کی حقیقت کو کچھ اس انداز میں واضح کیا کہ ستار ے، چاند اور سورج کو ڈوبتا دیکھ کر اللہ وحدہٗ لاشریک کی کبریائی کا اعلان فرما دیا۔ اس واقعہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت نمبر 75 سے 79 میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''اور اسی طرح ہم دکھانے لگے ابراہیم کو نظامِ سلطنت آسمانوں اور زمین کا اور تاکہ وہ ہو جائے یقین کرنے والوں میں سے۔ پھر جب چھا گئی اس پر رات‘ اس نے دیکھا ایک ستارہ‘ کہا: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا‘کہا: میں پسند نہیں کرتا غائب ہو جانے والے کو۔ پھر جب اس نے دیکھا چاند کو چمکتا ہوا‘ کہا: یہ میرا رب ہے‘ پھر جب وہ چھپ گیا‘ کہا: البتہ اگر نہ ہدایت دی مجھے میرے رب نے (تو) یقینا میں ہو جاؤںگا راستہ کھو جانے والی قوم میں سے۔ پھر جب اس نے دیکھا سورج کو چمکتا ہوا‘ کہا: یہ میرا رب ہے یہ (تو) سب سے بڑا ہے‘ پھر جب وہ (بھی) ڈوب گیا تو کہا: اے میری قوم! بے شک میں بیزار ہوں اس شرک سے جو تم شریک بناتے ہو۔ بے شک میں نے یکسو ہو کر رُخ کر لیا اپنے چہرے کا اس کے لیے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور نہیں ہوں میں مشرکوں میں سے‘‘۔ 
جس طرح آپ نے اجرام سماویہ کی حقیقت کو واضح فرمایا اسی طرح آپ نے بت پرستی کی حقیقت کو بھی واضح فرما دیا اور بستی والوں کی عدم موجودگی میں بت کدے میں جا کر بڑے بت کے علاوہ تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔ جب بستی والے واپس پلٹے اور اپنے بتوں کو ٹوٹے ہوئے دیکھا تو ان کے ذہن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خیال آیا کہ بستی میں بتوں سے بیزار فقط انہی کی شخصیت تھی۔ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے استفسار کیا تو آپ نے بتوں کی بے وقعتی اور اللہ کی توحید اور عظمت کو واضح فرما دیا۔ اس واقعہ کا بیان اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انبیاء کی آیت نمبر 58سے 70میں یوںفرمایا ہے: ''پھر اس نے کر دیا انہیں ٹکڑے ٹکڑے سوائے ان کے بڑے (بت) کے (یعنی اسے چھوڑ دیا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ انہوں نے کہا: کس نے کیا ہے یہ (کام) ہمارے معبودوں کے ساتھ‘ بلاشبہ وہ ظالموں میںسے ہے۔ انہوں نے کہا: ہم نے سنا ہے ایک نوجوان کو‘ وہ ذکر کرتا رہتا ہے ان کا، کہا جاتا ہے اس کو ابراہیم۔ انہوں نے کہا پھر لے آؤ اس کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تاکہ وہ گواہ ہو جائیں۔ انہوں نے کہا: کیا تو نے کیا یہ (کام) ہمارے معبودوں کے ساتھ اے ابراہیم؟ اس نے کہا: بلکہ کیا ہے اسے یہ ان کے اس بڑے (بت) نے‘ سو تم پوچھ لو ان سے اگر ہیں وہ بولتے۔ پھر وہ لوٹے اپنے نفسوں (دلوں) کی طرف (یعنی غور کیا) تو کہنے لگے: بے شک تم (خود ہی) ظالم ہو۔ پھر وہ اُلٹے کر دیے گئے اپنے سروں پر (یعنی ان کی عقل اوندھی ہو گئی) بلاشبہ یقینا تو جانتا ہے (کہ) یہ نہیں بولتے۔ اس نے کہا: پھر کیا تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا (اس کی) جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے تمہیں کچھ بھی اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے تمہیں۔ افسوس تم پر اور ان پر جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا‘ تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ انہوں نے کہا: تم جل ادو اسے (ابراہیم کو) اور مددکرو تم اپنے معبودوں کی‘ اگر ہو تم (کچھ) کرنے والے۔ ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو! اور سلامتی (والی) ابراہیم پر۔ اور انہوں نے ارادہ کیا اس کے ساتھ ایک حیلہ کرنے کا تو ہم نے کر دیا انہیں انتہائی خسارہ پانے والے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دربارِ نمرود میںبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا اور نمرود کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی زندہ کرتا اور مارتا بھی وہی ہے۔ اس دلیل کو نمرود نے ایک تاویل کے ذریعے ٹالنے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امر کو واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تُو مغرب سے لے کر آ۔ اس بات کو سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں پر حاکم وقت اور بستی والوں کے دباؤ کی پروا نہیں کی، وہیں پر آپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر محبتوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اپنے ننھے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ آپ کی زندگی میں آنے والے امتحانات میں سے ایک بہت بڑا امتحان یہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو خواب میں اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کا حکم دیا۔ تو آپ نے اس حکم کو بھی پورا کر دکھایا۔ اس واقعہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ صفات کی آیات 99 سے 106 میں یوں بیان فرمایا: ''اور اس نے کہا: بے شک میں جانے والا ہوں اپنے رب کی طرف عنقریب ضرور وہ راستہ دکھائے گا مجھے‘ اے میرے رب! تو عطا فرما مجھے (ایک لڑکا) نیکوں میں سے۔ تو ہم نے خوشخبری دی اسے ایک بردباد لڑکے کی۔ پھر جب وہ پہنچا اس کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو‘ اس نے کہا: اے میرے بیٹے! بے شک میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ بے شک میں ذبح کر رہا ہوں تجھے‘ پس تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے؟ اس نے کہا: اے میرے بابا جان! آپ کرگزریے جو آپ کو حکم دیاجا رہا ہے‘ آپ عنقریب ضرور پائیں گے مجھے اگر اللہ نے چاہا صبر کرنے والوں میں سے۔ پھر جب وہ دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے لٹا دیا اسے پیشانی کے بل۔ اور ہم نے پکارا اسے کہ اے ابراہیم! یقینا تو نے سچ کر دکھایا (اپنا) خواب‘ بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یقینا یہ کھلی آزمائش ہے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار قربانیوں اور جستجو کو قبول ومنظور فرما لیا اور آپ کی خوبصورت ادائوں کو ہمیشہ کے لیے امر فرما دیا اور آپ کے اسوہ کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسوۂ کامل بنا دیا۔
ہمیں زندگی کے نشیب وفراز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردار سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ خصوصاً عید الاضحی کے موقع پر جانور کے گلے پر چھری کو چلاتے ہوئے ہمیں اس جذبے کو یاد رکھنا چاہیے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری کو رکھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس عظیم الشان اور جلیل القدر شخصیت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved