تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-07-2020

120 احتساب عدالتیں… جلدی کیجئے

جب سے کانوں میں یہ خوشگوار آوازیں پڑی ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی اور اعلیٰ عدلیہ نے لوٹ مار کے نہ رکنے والے عفریت کو کچلنے اور احتساب کے عمل کو تیز تر کرنے کے لئے پاکستان بھر میں نئی 120 احتساب عدالتوں کا حکم دیا ہے‘ دیر آید درست آید کے مصداق دل سے ہر وقت یہی دعا نکل رہی ہے کہ یا اﷲ! اے مولائے کریم! اب تو احتساب کے اس عمل کو شفاف اور تیز تر کر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہمت اور توفیق دے کہ وہ اس ملک کے حقیقی دشمنوں اور دہشت گردوں‘ جنہوں نے اب تک نہ جانے کتنے لاکھ پاکستانیوں کو زندہ درگورکر دیا ہے‘ سے نمٹ سکیں۔
سپریم کورٹ کے اس اعلان کے بعد ملک بھر میں سیا سی طور پر ایک زبردست ہلچل مچتی ہوئی بھی دیکھی جا رہی ہے‘ جس کا مقصد ان عدالتوں کے قیام سے پہلے ہی ملک میں خلفشار پیدا کرنا ہے اور شنید ہے کہ اس کے لئے ایک مذہبی سیاسی جماعت کی خدمات بھی مستعار لی گئی ہیں‘ جو بخوبی جانتی ہے کہ آج بے رحمانہ اور شفاف احتساب ملک کی ضرورت اور قوم کی آواز بن چکا ہے مگر کسی بھی بہانے سڑکوں پر آ کر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر سکتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ملک میں نئی کنسٹرکشن پالیسی اور اس کے لئے پُرکشش مراعات کا اعلان کیا تو بیرونِ ملک کئی کئی برسوں سے انتظار بیٹھے پاکستانیوں‘ جو اس فیلڈ میں مہارت رکھتے ہیں‘ نے دنیا بھر میں لاک ڈائون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سینکڑوں ٹائیکون کنسٹرکشن کمپنیوں سے ان کی چند سال پرانی مختلف قسم کی مشینیں اور سامان خریدنا شروع کر دیا۔ ایسے ہی میرے ایک دوست نے‘ جو عمران خان‘ ان کے نظریے اور سوچ کے شیدائی ہیں‘ فیصلہ کیا کہ بڑی بڑی عمارات اور ہائوسنگ پروجیکٹس کے لئے دبئی سے شٹرنگ کا پرانا سامان خریدا جائے۔ انہوں نے کنسٹرکشن سے متعلقہ شٹرنگ اور دوسرے آلات خریدنے کے بعد ایک کنٹینر پاکستان بھیج دیا۔ کراچی سے یہ سامان جب لاہور ڈرائی پورٹ پر پہنچا تو ان کے ایجنٹ کا فون آیا کہ دس لاکھ روپے مزید بھیجیں۔ تبدیلی کے خواہاں ان صاحب نے جب یہ فون سنا تو حیران ہو کر پوچھا کہ مزید دس لاکھ کس لئے؟ تو انہیں بتایا گیا کہ متعلقہ افراد اپنا حصہ لئے بغیر آپ کا سامان کلیئر نہیں کر رہے، ان کا کہنا ہے کہ آپ نے اپنے سامان کی جو ویلیو لگائی ہے‘ وہ کم ہے، اگر دس لاکھ مزید نہ دیے تو اس کی ویلیو ایک ڈالر دس سینٹ کر کے آپ کو کنگال کر دیا جائے گا۔
دبئی میں بیٹھے ہمارے یہ دوست اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا یہی وزیراعظم کی کنسٹرکشن پالیسی ہے؟ کئی سال پرانا شٹرنگ کا سامان جس کو پاکستان لا کر صحیح حالت میں لانا پڑے گا‘ اس کی ویلیو پچپن سینٹ قبول نہیں‘ اور اسے کلیئر کرنے کیلئے دس لاکھ کا نذرانہ! مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ڈرائی پورٹ پرمتعلقہ افسران کو دس لاکھ روپے رشوت دینا پڑی۔ جان لیجئے کہ ریونیو سے متعلق اداروں کا اس ملک کی تباہی میں سب سے زیادہ کردار ہے۔ کسٹم اور سیلز ٹیکس کی آڑ میں جو کچھ یہ لوگ پاکستان میں جگہ جگہ کر رہے ہیں‘ وہ دشمن کی گولہ باری سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ملک کے سیاست دانوں نے ا س ملک کو جی بھر کر لوٹا ہے‘ دنیا بھر میں کھربوں روپے مالیت کی پراپرٹیاں بنا لی ہیں لیکن دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ریونیو سے متعلق ڈپارٹمنٹس کے بیشتر افسران کی پراپرٹیاں دنیا بھر میں ہمارے سیاست دانوں سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطا بق صوبائی دارالحکومت میں ڈرائی پورٹ پر روزانہ کم و بیش پانچ کروڑ روپے رشوت وصول کی جا رہی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس کا حصہ وہاں تک ضرور جاتا ہو گا جو ادھر ادھر کی پوسٹنگ اور ٹرانسفرز میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
اس وقت ملک میں کرپشن کا مگرمچھ اپنے دانت کھولے‘ ہر اس سائل اور ضرورت مند کو بھنبھوڑے جا رہا ہے جسے پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے سے ہلکا سا بھی واسطہ پڑتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بار بار اعلان کر رہے ہیں اور جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو اس وقت بھی‘ وہ کہہ رہے ہیں کہ ''کنسٹرکشن کے شعبے سے متعلق کسی بھی فرد سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے رقم کہاں سے اور کیسے حاصل کی ہے بلکہ اب تو یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی مقررہ مدت کے دوران گھر یا پراپرٹی وغیرہ خریدے گا تو اس سے بھی اس کے ذرائع نہیں پوچھے جائیں گے۔
ہمارا ایک ذہین اور قابل انجینئر دوست جو دو تین دہائیوں سے ابوظہبی کے ایک بڑے سرکاری ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہے‘ وزیراعظم کی تعمیراتی شعبے سے متعلق خوش کن باتیں سن سن کر ایسے پسیجا کہ فوری فیصلہ کیا کہ وہ اب واپس پاکستان آ کر کام کرے گا۔ اس کے لئے انہوں نے آہستہ آہستہ تیاریاں شروع کر دیں اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ جگہ بھی حاصل کر لی مگر جیسے ہی اپنے پروجیکٹ کے نقشے کی منظوری کے لئے متعلقہ محکمے میں پہنچے تو وہاں کرپشن کے مگرمچھ منہ کھولے انہیں کچا چبا جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ ان کا یہی گمان تھا کہ اب تبدیلی آ گئی ہو گی لیکن اس وقت ان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے جب ان سے نقشے کی منظوری کے لئے پچاس لاکھ روپے بطور نذرانہ طلب کیا گیا۔ ساری عمر ایمانداری اور کرپشن سے کئی کوس دور بھاگنے والے اس شخص کے سامنے یہ صورت حال رکھی گئی تو اسے یقین ہی نہ آیا کہ اب بھی وہی کچھ چل رہا ہے جو پہلے جاری و ساری تھا اور جس کیلئے وہ دو مرتبہ ووٹ ڈالنے اپنی پوری فیملی کے ہمراہ لاکھوں روپے خرچ کر کے ابوظہبی سے لاہور آئے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق جیسے تیسے انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا اور پچاس لاکھ بجھے ہوئے دل کے ساتھ متعلقہ افسران کے حوالے کرتے وقت ان کے چہرے کی جانب دیکھ کر محکمے کا ایک افسر کہنے لگا کہ شکر کریں آپ کا کام ہو گیا ہے، ورنہ دو سال تک ہم نے آپ کے وہ چکر لگوانے تھے کہ آپ کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا اور ساتھ ہی رقم بھی دو گنا ہو جاتی۔ یہ معاملہ یہیں پر بس نہیں ہو گیا۔ جب نقشہ پاس کرنے کا آرڈر حوالے کرنے کا مرحلہ آیا تو نیا حکم جاری ہوا کہ ہماری ایک ساتھی افسر کے لئے فلاں شاپ سے دو اعلیٰ درجے کے سوٹ لا کر دیں یا اس کے لئے ڈیڑھ لاکھ علیحدہ سے دیے جائیں۔ یہ کڑوا گھونٹ بھی اس انسان کو پینا پڑا جس نے اپنی ساری زندگی میں کرپشن کا ایک روپیہ کمانا بھی گناہِ عظیم سمجھا۔
یہ کہانی جب میرے سامنے آئی تو انہوں نے کہا ''عمران خان کی کنسٹرکشن کے لئے بے تحاشا مراعات اور سہولتوں کا سن کر ایک اعلیٰ ملازمت چھوڑنے کے بعد پاکستان واپس آ کر لگتا ہے کہ میں نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے کیونکہ یہاں تو قدم قدم پر رشوت اور کرپشن کے تنور جل رہے ہیں جہاں عام انسانوں کو جلایا جا رہا ہے۔ ان کی یہ داستانِ غم اب بھی تمام نہ ہوئی تھی کیونکہ ان مراحل سے گزرنے کے بعد جب انہیں بجلی کا کنکشن لگوانا پڑا تو جگہ جگہ رشوت کے اژدھے ان کی جانب لپکے۔ کسی کو نئے ٹرانسفارمر کے لئے پندرہ لاکھ دیے تو کسی کو میٹروں کی تنصیب کیلئے پانچ لاکھ۔ کہنے لگے: لگتا ہے کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اب جب سے میں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی زبان سے نکلے ہوئے خوشگوار اور ہمت افزا الفاظ سنے ہیں کہ ملک کو بچانا ہے تو ظالم رشوت خوروں اور کمیشن مافیا کے درندوں سے اسے پاک کرنا ہو گا اور اس کے لئے 90 دنوں میں فیصلہ سنانے کا پابند کرتے ہوئے نئی 120 احتساب عدالتیں قائم ہوں گی تو واپس جانے کے لئے اپنا بندھا ہوا سامان دوبارہ کھولنے کا جی چاہ رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ پنجاب میں نیب کے ایک سچے پاکستانی ڈائریکٹر جنرل اُس وقت کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں جب اس ملک اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے لٹیروں کو بلا خوف اپنے انجام تک پہنچانے کے لئے ان احتساب عدالتوں میں لے کر جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved