''مستقبل میں جب مورخین پچھلے 6 سالوں کی طرف مڑ کر دیکھیں گے کہ ایمرجنسی کا باضابطہ نفاذ نہ ہونے کے باوجود بھارت میں جمہوریت کیسے تباہ کی گئی تو اس تباہی میں وہ بھارتی سپریم کورٹ کے کردار کی خاص طور پر نشاندہی کریں گے، خاص طور پر پچھلے چار چیف جسٹسز کے کردار کی‘‘ یہ جملے ہیں بھارت کے ایک انسانی حقوق کے وکیل پرشانت بھوشن کی ٹویٹ کے۔ اس ٹویٹ پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لینے پر مجبور ہوئی؛ تاہم ان سطور کے لکھنے تک پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی۔ پرشانت بھوشن کے ساتھ سپریم کورٹ کیا سلوک کرتی ہے یہ اہم ضرور ہے لیکن انجانا نہیں، سب کو معلوم ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔
پرشانت بھوشن ایک متحرک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد شانتی بھوشن بھارت کے سابق وزیر قانون ہیں۔ وہ مرارجی ڈیسائی کی کابینہ کا حصہ تھے۔ پرشانت بھوشن بھارت میں انا ہزارے کی تحریک کا سرگرم حصہ رہے۔ وہی تحریک جس کے ایک دھڑے نے الگ ہوکر عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی اور دہلی پر حکومت کر رہا ہے۔ پرشانت بھوشن مفاد پرست ہوتے تو اس دھڑے کے ساتھ مل کر حکومت کے مزے لے رہے ہوتے لیکن وہ اس دھڑے، جو عام آدمی پارٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، کے سخت ناقد ہیں اور ان کے مطابق عام آدمی پارٹی بنیادی نظریات سے ہٹ چکی ہے۔
آج پرشانت بھوشن کی کہانی پر بات کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کس طرح آمریت بن چکی ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے کام کرنے والے جیلوں میں بند ہیں۔ پرشانت اور شہری حقوق کے دیگر بھارتی کارکنوں کے ساتھ مجھے ہمدردی ہے تو اس کی وجہ اس خطے کا سانجھا دکھ ہے۔ انگریز سے آزادی کے لیے مسلمانوں، ہندوؤں، مسیحیوں سمیت خطے کی ہر برادری نے حصہ ڈالا۔ سب کا خواب ایک تھا کہ انگریز کی غلامی سے نجات کے بعد وہ اپنی قسمت کے فیصلے خود کر سکیں گے۔ ان کا مقدر ان کے اپنے ہاتھ میں ہوگا، لیکن ان سب کے ساتھ دھوکہ ہوگیا، انگریز جاتے جاتے بھی ایسا بندوبست کر گیا کہ محکوم طبقات محکوم ہی رہیں اور ان کا ساتھ دینے والی اشرافیہ مستقبل میں بھی ان کے مفاد کے لیے کام کرتی رہے۔
جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے، میڈیا کی گردن دبائی جا رہی ہے، انسانی حقوق اور آئین کے تحت دی گئی شہری آزادیوں کی بات کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جارہا ہے، ڈرایا دھمکایا جا رہاہے۔ اس خطے میں ایک سی کہانی ہے، اس کہانی کی ایک جھلک بھارت کی بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے کا ایک خط پیش کرتا ہے۔ یہ خط نوے فیصد معذوری کے شکار دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جی این سائی بابا کے نام لکھا گیا جس سے بھارت میں جمہوریت، شہری آزادیوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی ذہنی اذیت، مستقبل کی سوچ اور فکروں کا اندازہ ہوتا ہے۔ پروفیسر جی این سائی بابا کا ان دنوں ڈاک کا پتہ ہے ''انڈا سیل، ناگپور جیل، ناگپور، مہاراشٹرا‘‘۔ پروفیسر جی این سائی بابا کو عمرقید کی سزا ہوئی ہے اوران کا جرم بھی شہریوں کی آزادیوں اور جمہوریت کیلئے آواز اٹھانا ہے۔
ارون دھتی رائے نے لکھا ''میں آپ سے نہیں پوچھوں گی کہ آپ کیسے ہیں کیونکہ میں آپ کے وسانتھا (جنوبی بھارت کی موسیقی میں شام کے وقت گایا جانے والا راگ، راگ وسانتھا امن کا راگ ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جذبات جڑے ہیں جن میں محبت، ناپسندیدگی، خوشی، بہادری، ڈر، غصہ اور حیرت شامل ہیں) سے یہ جانتی ہوں‘ میں نے آپ کی میڈیکل رپورٹس دیکھی ہیں، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ آپ کو ضمانت یا پیرول پر رہا کریں گے، کیا وہ اب بھی آپ کے اخبار سنسر کررہے ہیں اور آپ تک کتابیں نہیں پہنچنے دیتے؟ آپ کی وہیل چیئر کیسی ہے؟ میں جانتی ہوں آپ کی گرفتاری کے وقت وہیل چیئر ٹوٹ گئی تھی، آپ کو گھر واپسی کے رستے پراغوا کیاگیا تھا‘ جیسے آپ کوئی بہت خطرناک مجرم ہوں (ہم تو اس بات پر بھی شکرگزار ہیں انہوں نے آپ کو سیلف ڈیفنس میں مار نہیں دیاکہ آپ نے ان کی بندوق چھین کر وہیل چیئر بغل میں دباکر دوڑ لگادی تھی) اب ادب کی ایک نئی صنف ہونی چاہئے ''خاکی فکشن‘‘۔ اس صنف میں سالانہ ادبی فیسٹیول کیلئے مواد کافی ہے، انعامی رقم بھی اچھی ہوگی اوراس انعامی رقم کیلئے ہماری غیرجانبدار عدالتوں سے غیرجانبدار ججز ہوں گے (یہاں بھی وہ شاندار خدمت انجام دیں گے) ہمارے بہت سے مشترکہ دوست، طلبہ، وکیل، صحافی اور کارکن، جن کے ساتھ ہم مل کر ہنستے، کھاتے اور بعض اوقات تلخ مباحث کرتے رہے، اب جیل میں ہیں۔ کتنے چھوٹے دل، ظالم، فکری طور پر کمزور (یا پھر ہم ان کے لیے بس اتنا ہی کہہ دیں کہ خوفناک حد تک احمق) حکمران ہم پر مسلط ہیں، کتنی قابل رحم ہے وہ حکومت جو اپنے ہی ادیبوں اور دانشوروں سے خوفزدہ ہے‘‘۔
ارون دھتی رائے نے لکھاکہ چند ماہ پہلے محسوس ہوا‘ تبدیلی آنے کو ہے، لاکھوں افراد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف باہر نکلے ، خاص طور پر طالب علم، یہ سنسنی خیز تھا، وہاں میوزک تھا، شاعری تھی اور فضا میں محبت بکھری تھی، یہ انقلاب نہیں تو کم از کم ایک مزاحمت ضرور تھی، آپ اس کو بہت پسند کرتے، لیکن اب سب کچھ بری طرح ختم ہو چکا ہے۔ اب شہریت ترمیمی قانون اور شہریت رجسٹر کے خلاف احتجاج کرنے والے تمام مظاہرین دہلی میں 53 شہریوں کے قتل عام کے ذمہ دار ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ یہ قتل عام منصوبہ بند تھا جیساکہ ان واقعات کی ویڈیو سے نظرآتا ہے، مسلح غنڈے پولیس کی پشت پناہی سے لوٹ مار کررہے تھے، قتل کر رہے تھے۔ اب متاثرین کو ہی فسادی بتایا جا رہا ہے، کورونا لاک ڈاؤن کی آڑ میں سینکڑوں نوجوان، زیادہ تر مسلمان، دہلی اور اترپردیش میں گرفتار کئے گئے۔ ان گرفتار نوجوانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ دیگر سینئر سیاسی اور سماجی کارکنوں کے خلاف بیان دیں، فکشن رائٹر اب نئی تفصیلی کہانی لکھنے میں لگے ہیں۔ بیانیہ یہ ہے کہ دہلی فسادات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران بھارتی حکومت کو شرمندہ کرنے کے لیے منصوبے کے تحت کرائے گئے۔ ہر شے تلپٹ ہو چکی، قتل ہونا بھی جرم بنا دیا گیا ہے، اب وہ مردوں کی ہڈیوں پر مقدمات درج کریں گے اور ان کے بھوتوں کو تھانے بلوائیں گے۔
ارون دھتی رائے نے پروفیسر جی این سائی بابا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھاکہ جب آپ جیل سے باہر آئیں گے تو آپ ایک بدلی ہوئی دنیا دیکھیں گے، کووڈ19 اور اس کے نتیجے میں جلد بازی میں لگایا گیا لاک ڈاؤن تباہ کن تھا، صرف غریبوں کے لیے نہیں، متوسط طبقے کے لیے بھی، کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ارب 38 کروڑ کی قوم کو ملک گیر کرفیو جیسے لاک ڈاؤن کیلئے صرف 4 گھنٹوں کی مہلت دی گئی اور لاک ڈاؤن مہینوں چلا۔ کووڈ 19 ایکسرے جیسا ثابت ہوا جس نے وسیع پیمانے پر ذات پات، طبقات، مذہب اور صنفی بنیاد پر منظم ادارہ جاتی ناانصافی کو اجاگر کر دیا۔ یوں لگتا ہے ہم ایک منجمد دھماکے کی کیفیت میں زندہ ہیں، دھماکے بعد دنیا کے اڑنے والے ٹکڑے فضا میں معلق ہیں اور کون جانے کب آن گریں، ان کے گرنے سے ہونے والی تباہی کا اندازہ ابھی لگانا مشکل ہے۔ کبھی کبھار غصے کا کوئی بادل پھٹ پڑتا ہے لیکن ایسانہیں کہ اسے سنبھالا نہ جا سکے، یہ خوفناک اور ڈرا دینے والی حقیقت ہے کہ ہر کسی نے یہ سب کچھ مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے، عوام کتنے تابع فرمان ہیں، حکمران طبقے کیلئے یہ کتنی تسکین کی بات ہوگی، بظاہر یہ عوام کی تابعداری اور دکھ جھیلنے کی نہ ختم ہونے والی صلاحیت ہے، یہ صلاحیت رحمت ہے یا لعنت، اس پر میں بہت سوچتی ہوں۔
ارون دھتی رائے نے خط کو ان لائنوں کے ساتھ ختم کیا کہ ناانصافی ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتی، معاملات ہمیشہ اس طرح نہیں چلیں گے حالات کا دھارا اپنا رخ اور رفتار خود طے کرے گا، ہمیں شاید اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں وہ ایک ناقابل تصور تباہی پر ختم ہوں گے لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ ان کھنڈرات سے کوئی بہتری ابھرے گی۔