لوگ کامیابی کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بے مزا بھی رہتے ہیں۔ کامیابی کا اپنا مزا ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر کبھی اس نکتے پر بھی غور فرمائیے کہ ناکامی کا بھی ایک الگ ہی ''مزا‘‘ ہے جس سے نجات پانا کبھی کبھی تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایک دنیا ہے کہ کامیابی کے پیچھے دوڑ رہی ہے یا دوڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اور اِدھر ہم ہیں کہ اپنی ناکامیوں کو گلے سے لگائے خوش ہیں۔ دنیا خوشیوں کی تلاش میں ہے مگر ہماری ''خوشی‘‘ نہیں دیکھ رہی۔ کوئی دیکھے تو سہی کہ ہم کتنے مزے میں ہیں، اور وہ بھی کچھ خاص کیے بغیر!
دنیا کو فعال رہنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ فعال ہوئے بغیر کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا۔ ہر شعبے میں بھرپور کامیابی یقینی بنانے کی فکر میں غلطاں رہنے کے نتیجے میں دنیا مختلف الجھنوں سے دوچار بھی دکھائی دے رہی ہے۔ ہم بھی یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کامیاب معاشروں پر نظر دوڑائیے تو ہر طرف ''گلا کاٹ‘‘ مسابقت دکھائی دے گی۔ یہ مسابقت ہی ہے جس نے اُن معاشروں میں سب کو شدید بے تابی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ جتنی محنت دیگرکر رہے ہیں اُتنی محنت نہ کرنے کی صورت میں وہ دوسروں سے بہت پیچھے رہ جائے گا۔ پیچھے رہ جانے کا خوف انسان کو متحرک رکھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کو متحرک رکھنے کے لیے کون سا جذبہ احسن ہے؟ خوف یا لگن؟ کامیابی کی خواہش بڑی چیز ہے یا اوروں سے پیچھے رہ جانے کا خوف؟ آپ کہیں گے یقینا کامیابی کی خواہش بڑی چیز ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ کسی بات کا خوف بھی ہمیں تحریک دے سکتا ہے مگر اچھا تو یہی ہے کہ معاملہ مثبت فکر کے ساتھ ہو یعنی کوئی خواہش یا لگن ہمارے لیے تحریک کا ذریعہ ثابت ہو۔
ہر کامیاب معاشرہ مثبت افکار اور مضبوط اقدار کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ جب تک افکار کو مثبت اور اقدار کو مضبوط رکھنے کی لگن توانا رہتی ہے تب تک ہر شعبے میں پیش رفت یقینی بنانے کی تمنا بھی جوان رہتی ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونے کو بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہ فطری اور ابدی اصول ہے جو کسی کے لیے تبدیل نہیں ہوتا۔ اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اپنی کسی سُنّت کو تبدیل نہ کرنا بھی اللہ ہی کی سُنّت ہے۔
کسی بھی دور کا جائزہ لیجیے اور کسی بھی دور کے کسی بھی معاشرے پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر دور اور ہر معاشرے کے انسان نے کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھانی ہے، کچھ کر دکھانے کی تمنا پروان چڑھائی ہے۔ اور اس تمنا کو عملی شکل دینے کی کوشش میں بہت کچھ کیا گیا ہے۔ انسان جو کچھ کرتا رہا ہے‘ اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ آج ہمیں ایسا بہت کچھ میسر ہے جو دوسروں کی اَنتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ یہی دنیا کے لیے طے کیا جانے والا اصول ہے۔ ہم کسی کی کمائی کھارہے ہیں اور کوئی ہماری کمائی کھائے گا۔
کچھ کرنا یا نہ کرنا انسان کے بس کی بات ہے۔ زندگی کو بڑی اور مسرت آمیز کامیابی سے ہم کنار کرنے کا فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے۔ جب انسان کامیاب ہونے کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے اور عمل کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تب قدرت اپنا کام شروع کرتی ہے۔ یہ معاملہ برکت کہلاتا ہے۔ نیت کے مطابق برکت نصیب ہوتی ہے۔ انسان اگر نیک نیتی کے ساتھ کچھ کرتا ہے تو جتنا صلہ ملنا چاہیے اُس سے کچھ زیادہ ہی ملتا ہے۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے کیا جانے والا اہتمام ہے۔ اللہ کی اللہ ہی جانے۔ کسے کس عمل کا کتنا صلہ ملنا چاہیے‘ یہ طے کرنا ہمارا کام نہیں۔ ایسے تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اُسی کی مرضی کے تابع ہیں۔
صدیوں کے عروج و زوال کا جائزہ لے کر آج کے پاکستانی معاشرے پر نظر دوڑائیے تو صرف مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ یہاں کچھ عجیب ہی کیفیت ہے کہ ہر معاملے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ عشروں کی بے عملی نے قوتِ فکر و عمل کو زنگ لگادیا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ عمل کو اپنائیے اور اس سے بھی پہلے متوازن و مستحکم فکر کو گلے لگانا لازم ہے۔ ہم پہلے مرحلے سے بھی بہت دور ہیں۔ ایسے میں دوسرے اور حتمی مرحلے یعنی عمل کی تو پھر بات ہی کیا کیجیے۔
بے عملی انسان کو ایسا بہت کچھ سکھاتی ہے جو قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ہمارا یہی معاملہ ہے۔ کچھ نہ کرنے کی صورت میں ذوق و شوقِ عمل ماند پڑتا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وقت ہم سے عمل کا تقاضا کرتا ہے مگر ہم عمل سے پہلے کے مرحلے یعنی غور و فکر اور منصوبہ سازی تک پہنچنے کا بھی نہیں سوچتے۔ آج بھی وقت کی ایک ہی آواز ہے ... عمل اور صرف عمل۔ اور ہم ہیں کہ اپنی بے عملی میں خوش ہیں۔ وقت ہمیں بے عملی کی قید سے رہائی دلانا چاہتا ہے مگر ہمیں یہ قید دل و جان سے عزیز ہے ؎
صیّاد! تیرے حکمِ رہائی کا شکریہ
ہم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے
قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ بہار کے دن قفس میں کٹ بھی چکے ہوں تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ خزاں ایک بار ہے نہ بہار وہ دور کہ پھر نہ آئے۔ ہمیشہ اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ انسان اپنے اعمالِ گزشتہ پر غور کرے، کچھ سیکھے، عبرت پکڑے، اپنی اصلاح کرے اور نئے عزم کے ساتھ عمل کے میدان میں اترے۔ ناکامیوں سے بچنے اور کامیابی کی طرف بڑھنے کا یہی ایک معقول طریقہ ہے۔ ناکامی کبھی آپشن ہوتی مگر اے وائے ناکامی! کہ ہم نے اِسے آپشن کے طور پر اپنالیا ہے۔ دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جس نے ناکامی کو اپنا بنایا ہو، گلے لگایا ہو اور کچھ پایا ہو۔ ملتا اُنہی کو ہے جو ناکامی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ نظر ہمیشہ کسی بلند تر ہدف پر ہو۔ جو ناکامی کو گلے لگاکر اُس سے ''حِظ‘‘ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ شدید بے عملی اور قنوطیت کے گڑھے میں پڑے رہتے ہیں۔
ناکامی کسی بھی اعتبار سے کوئی ایسا معاملہ نہیں جسے ہمیشہ کے لیے اپنایا جائے۔ جو لوگ ناکامی سے ''لطف‘‘ کشید کر رہے ہوتے ہیں وہ دراصل عمل سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ناکامی اُسی وقت ایک آپشن کی حیثیت اختیار کرتی ہے جب انسان یہ طے کرلے کہ اُسے کچھ نہیں کرنا۔ یہاں ناکامی سے مراد بے عملی ہی ہے۔ جو لوگ محنت کرنے پر بھی ناکام رہتے ہیں یا زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے اُن کے دلوں کو اس بات سے تو بہرحال سکون ملتا ہے کہ کچھ کیا ہے، عمل کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بے مزا رہنے میں جب مزا آنے لگے تو سمجھ لیجیے حواس اور قویٰ نے شکست تسلیم کرلی ہے۔ ایسی حالت میں انسان طے کرلیتا ہے کہ جس حالت میں ہے بس اُسی حالت میں زندگی بسر کرے گا، معاملات کو درست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی اور جو کچھ بھی فطری طور پر ہونا ہوگا اُسے ہونے دیا جائے گا۔ سفر جہاز یا کشتی میں بھی کیا جاسکتا ہے اور تختے پر بھی۔ جہاز یا کشتی کا سفر آپ کو وہاں لے جائے گا جہاں آپ جانا چاہتے ہیں۔ تختہ لہروں یا دھارے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ تختہ کہیں بھی‘ کسی بھی سمت جاسکتا ہے اور جاتا ہے۔ ایسے لوگ طے کرلیتے ہیں کہ ع
جو مل گیا اُسی کو مقدّر سمجھ لیا
جو مل جائے وہ مقدر نہیں ہوتا۔ جس کے لیے ہم غور و فکر اور منصوبہ سازی کے بعد باضابطہ کوشش کرتے ہیں وہ ہمارا مقدر ہوتا ہے۔ قدرت کا یہی اصول اور طریقہ ہے۔ خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش روش نہیں۔ بے مزا ہونے میں مزا پانا بلند ہمتی کا معاملہ نہیں، بُزدلی کا سودا ہے۔ اس سے بچ رہنا لازم ہے۔