تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     08-06-2013

دورئہ پا کستان: ہندوستان کے لیے نیا جوش

جب سے میں لاہور پہنچا ہوں، پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے میری ملاقات ہو چکی ہے۔وزیر اعظم میاں نواز شریف اور صوبوں کے وزرائے اعلی سے بھی مل چکا ہوں،صدر آصف علی زرداری نے مجھے کراچی بلایا اور انہوں نے بلاول ہاؤس میں میری کشادہ دلی سے ضیا فت کی۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے مجھے سندھی ٹوپی پہنائی اور موہن جوداڑو کی چادر اُڑھائی۔ سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت، عمران خان، نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی، گورنرمخدوم احمد محمود اوردیگر کشمیری، پختون، بلوچ اور سندھی لیڈروں سے بھی ملاقات ہوئی۔ لاہور کے چیمبر آف کامرس اورجم خانہ کلب میں درجنوں صنعت کاروں سے طویل گفت وشنید ہوئی۔ پاکستان کے کئی معروف ٹی وی چینلز اور ریڈیو کے اینکرز مجھ سے تقریباً روزانہ انٹرویولے رہے ہیں۔ کئی پرانے وزرائے خارجہ جیسے سرتاج عزیز اور خورشیدقصوری وغیرہ سے ذاتی بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ بڑے ایڈیٹرز، پروفیسرز اور فوج کے افسروں سے بھی کھل کر بات ہو رہی ہے۔ 18سے20 گھنٹے روزانہ کی مصروفیت کے باوجود اکتاہٹ محسوس نہیں ہو رہی۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا کیا راز ہے؟ شاید یہ ہے کہ گزشتہ 30 برسوں سے میں مسلسل پاکستان آ رہا ہوں لیکن اس بار یہاں ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کی جتنی امید پیدا ہوئی ہے، شاید پہلے کبھی نہیں پیدا ہوئی تھی۔ مجھے ابھی تک کراچی یا لاہور میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں ملا جس کا رویہ قابل اعتراض ہو۔ ہر طبقے کے لوگ یہی چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی قیادت میں ہندوستان اور پاکستان کے رشتے ایسے ہو جائیںجیسے فرانس اور جرمنی کے ہیں۔ کل رات لاہور کے سب سے زیادہ مقبول ریڈیو چینل ایف ایم 95 (پنجاب رنگ)نے مجھ سے تقریباً ایک گھنٹے تک انٹرویو لیا۔ اس چینل کو تقریباً سات آٹھ کروڑ لوگ روزانہ سنتے ہیں۔ بجلی بحران کی وجہ سے ٹی وی چینلز کے مقابلے میں ریڈیو چینلز کے سامعین زیا دہ ہو تے ہیں۔ انٹرویو کے دوران سامعین نے اتنی بڑی تعداد میں کمپیوٹر اور فون پر مجھ سے بات کرنی چاہی کہ اینکر افتخار ملک کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ایک سامع نے کہا کہ میںڈاکٹر ویدک صاحب کے لیے خصوصی دعا مانگوں گا۔ میں نے اپنی تمام ملاقاتوں اور مذاکرات میں پاکستانی صحافیوں سے کہا کہ ہندوستان بڑا بھائی ہے ہم یہ مانتے ہیں لیکن وہ دادا نہیں، بھائی ہے۔ وہ بگ برادرنہیں،ایلڈر برادرہے۔ اگر آپ اپنے بڑے بھائی کا احترام کریں گے تو وہ آپ پر اپنا پیار لٹانے میں ذرّہ برابر کوتاہی نہیں کرے گا۔ دو سینئر صحافیوں نے‘ جو ہندوستان کے بارے میں سخت رویے کے لیے مشہور ہیں، ٹی وی انٹرویو میں مجھ سے کشمیر اور سیاچن کے بارے میں ذرا تیکھے سوال پوچھے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کشمیر کو کب آزاد کریں گے؟ اقوام متحدہ کی تجویز کے مطابق اسے خود فیصلے کا حق کب دیں گے؟ میں نے انہیں کہا کہ خود فیصلے کا حق اور دو ملکوں کا نظریہ (ٹو نیشن تھیوری) ایک دوسرے کے مخالف ہیں کیونکہ ازخود فیصلے کے تحت کشمیری لوگ ہندوستان سے مل سکتے ہیں یا بالکل آزاد بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو جناح صاحب کااصول تو پگھل جائے گا کیونکہ اس کے مطابق کشمیر کو صرف پاکستان ہی کے ساتھ ملنا چاہیے۔ کشمیر مسلم علاقہ ہے، اس لیے اس کے پاس اسلامی پاکستان میں جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ میں نے ایک بار وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے پوچھا تھا کہ آپ اپنے کشمیر میں پہلے خود فیصلہ کیوں نہیں کروا لیتیں؟ جی حضوری میں شاید ہمارے لیڈر بھی تیار ہو جائیں۔ وہ ہنس پڑیں لیکن دوسرے دن نیویارک ٹائمز میں انہوں نے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے صاف کہا کہ پاکستانی حکومت کشمیر کو تیسرا آپشن نہیں دے سکتی یعنی ہم آزاد ہونے کا حق نہیں دے سکتے۔ ویسے جتنے بھی لیڈروں سے بات ہوئی سب نے یہ بات دہرائی کہ وہ کشمیر کو ڈنڈے کے زور سے نہیں لے سکتے۔ کشمیر پر سب سے زیادہ سخت مؤقف رکھنے والے بزرگ صحافی‘ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجیدنظامی صاحب نے بھی کہا کہ یہ مسئلہ بات چیت سے حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک آپ کشمیر کو آزاد نہیں کرتے، میں ہندوستان میں قدم بھی نہیں رکھنا چاہتا لیکن پاکستان کے کئی سابق وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ اور آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم کا رویہ مثبت تھا ۔مجھے محسوس ہوا کہ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ ہندوستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات مضبوط ہوں،ایک دوسرے کے لیے ان کے بازار کھلیں‘ ایک دوسرے کے ممالک میں سرمایہ لگائیں،فیکٹریاں کھولیں،آمدورفت بڑھے،ویزا آسانی سے ملے۔ مجھے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف ہندوستان کو تجا رت کے لیے خصوصی درجہ دینے کا اعلان جلد ہی کر دیں گے، تاہم زراعت لابی اپنے لیے پہلے بہت سی مراعات چاہتی ہیں۔ پاکستان کے تقریباً ہر لیڈر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہندوستان کی حکومت اس قابل ہے کہ وہ کچھ نئی پہل کر سکے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں انتخابات کبھی بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے گھوٹالوں نے حکومت کی شبیہ مسخ کر دی ہے۔ کچھ لیڈروں نے پوچھا کہ ہم تھوڑا انتظار کریں تو کیسا رہے گا ؟ میرا جواب تھا کہ ہماری حکومت ابھی ایک سال سے بھی زیادہ چلے گی،اس کے گرنے کے آثار بہت کم ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے، وہ اس سے بات کرنے کے مکمل طور پر قابل ہے،اگر حکومت ہند پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوئی مناسب پہل کرے گی توہندوستان کی تقریباً تمام جماعتیں اس کی حمایت کریں گی۔ اس وقت میاں نواز شریف کے سامنے نئے نئے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔انہوں نے ادھر طالبان سے امن مذاکرات کی پیشکش کی اور ادھر امریکی فوج نے ڈرون حملہ کر دیاجس میں طالبان کے بڑے لیڈرولی الرحمن کا انتقال ہو گیا۔ بات ہونے سے پہلے ہی بات ختم ہو گئی۔ پاکستان میں بجلی کا معاملہ گرمی کی وجہ سے اوربگڑ گیا ہے،لیکن خود میاں نواز شریف اور پاکستان کے عوام کو اعتماد ہے کہ نئی حکومت جیسے ہی اپنا کام شروع کرے گی، حالات کو بہتر بنالے گی ۔مجھے سب سے اطمینان بخش بات یہ لگی کہ تمام پاکستانی جماعتوں کے رہنماؤں نے مجھے یقین دلایا کہ اندرونی معاملات میں چاہے ہمیں میاں نواز شریف کی مخالفت کرنی پڑے لیکن ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے وہ جو بھی اقدامات کریں گے، اس کی ہم کھل کر حمایت کریں گے۔میاں نواز شریف اور ان کے بھائی میاں شہباز شریف کو میں نے ہندوستان کے کچھ اہم سیاسی لیڈروںکے سلام پہنچائے اور ان کی فتح پرہندوستان کی عمومی خوشی بیان کی تو انہوں نے بھی کہا کہ پاکستان میں بھی ہندوستان کے تئیںمکمل جوش ہے۔ہم لوگ مل کر اب جنوبی ایشیا کی تاریخ کا نیا باب لکھیں گے۔ آئی این ایس انڈیا (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved